انسان روئے زمین کی وہ واحد مخلوق ہے جس کو اللہ تعالی نے اپنے مستقبل کے انتخاب کا موقع عنایت فرمایا ہے۔جدید نفسیات کی رو سے آج انسا ن کو اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ اس کا مستقبل قسمت یا پھر تقدیر کے تابع نہیں بلکہ اس کی اپنی سوچ ،فکر اور اعمال پر منحصر ہوتا ہے۔خو ش نصیبی کو ایک اتفاقی،حادثاتی اور وقتی شئے سے ہر گزتعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ خو ش قسمتی کادار و مدار انسان کی اپنی پسند،انتخاب اورانداز فکر پر ہوتا ہے۔مستقبل کا تصور یا خاکہ صرف فلم کے ایک ٹریلر کی مانند ہوتا ہے جس میں ان عناصر کو ہی ہم نمایا ں کر تے ہیں جنھیں نمایا ں کرکے دکھاناچاہتے ہیں۔فلم کی نوعیت کا راست تعلق ہماری سوچ پر ہوتا ہے۔ فلم کو مزاحیہ رنگ دینا یا پھر حزن و ملال کی کیفیت سے آراستہ کرنا ہمارے انتخاب پر منحصر ہوتا ہے ۔بالکل اسی طرح ہماری زندگی کی خوشیوں کا،سکون و اطمینان کا ،مصائب اور شدائد کا دارو مدار ہمار ے انتخاب اور انداز فکر پر منحصر ہوتا ہے۔جس طرح ایک کمپیوٹر سافٹ ویر کی تیاری میں ہم جن امور کوپروگرامنگ کے طور پر شامل کرتے ہیں اسی کے عین مطابق ہم اپنے اہداف و مقاصد کوحاصل کر نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم اپنے زندگی کو اپنی طرز فکر کی بنا پر خوشیوں سے آراستہ یا پھر غموں سے پامال کر تے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایک معروف اصطلاح ہے جوکہ حقیقت پر مبنی ہے’’ gigo(گیگو)‘‘۔ اس مخفف کی توسیعی شکل garbage in garbage out (کوڑا ڈالو ،کوڑا نکالو) ہوتی ہے۔کمپیوٹر کی اس معروف اصطلاح کا اگر بامحاورہ اردو ترجمہ کیا جائے تو ہوگا’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ یا پھر ’’جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔‘‘انسان مستقبل میں وہی پاتا ہے جس کے حصول کی وہ اپنے حال میں سعی و کاوش کرتاہے۔اسلام میں جزا اور سزا کا دارو مدار بھی انسانی اعمال پر منحصر ہے۔’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘یہ حدیث انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ مستقبل میں وہی پائے گا جس کی وہ فی زمانہ کوشش کررہا ہے۔این ایل پی(NLP)نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ( عصبی لسانیاتی منصوبہ بندی)پر عمل کرنے والے افراد اپنی زندگی مسرت اور اطمینان سے بسر کرتے ہیں۔NLP زندگی کو خوشیوں سے مالامال کرنے کے ساتھ ساتھ سکون ا ور اطمینان فراہم کرتی ہیں۔ انسانی زندگی کو خوشیوں اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کرنے کے لئے اس علم کو سیکھنے اور اس کی ترویج و اشاعت بہت ضروری ہے تاکہ بنوع انسان اس سے بہرورہوسکے۔NLPجدید نفسیات کی ایک بہترین دین ہے۔یہ تین اجزاء اعصاب(Neuro)،لسانیات(liguistic)اور پروگرامنگ(programming)پر مشتمل ہوتی ہے۔باالفاظدیگر اس کو عصبی لسانیاتی اظہاربھی کہہ سکتے ہیں۔
اعصاب(Neuro)۔ ہماراعصبی نظام ہر لمحہ مختلف افعال، سرگرمیاں اور تغیرات کا منبع و محور ہوتا ہے۔ ذہن میں انجام پانے والے ان افعال سرگرمیوں اور تغیرات کا ہمیں مطلق کوئی علم نہیں ہوتا ہے۔ جسم کو اگر ایک کمپیوٹر سے تشبیہ دی جائے تب دماغ کو ایک ہارڈ ویر اور اس پر مرتسم شدہ(انسٹالڈ) افکار ،رویوں،عقائد و خیالات اورانداز فکر کو سوفٹ ویر کہاجاسکتا ہے۔ کمپیوٹر کے کل پرزوں کو ہارڈ ویر کہا جاتا ہے اور کمپیوٹر کے کل پرزے جس زبان میں گفتگو یاترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں اس کو سوفٹ ویر کہاجاتا ہے ۔ جس طر ح سے کمپیوٹرسوفٹ ویر کوہم اپنی سادہ آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے ہیں بالکل اسی طرح ہم ،اپنے دماغ پر کندہ افکار،خیالات،عقائد وغیرہ کو بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں۔یہ تما م افعال دماغ میں ایک پروگرام کی طرح نقش ہوتے ہیں۔دماغ کی پروگرامنگ میں ہمارے پانچوں حواس خمسہ (نظر،لمس،سماعت،ذائقہ،اور شامہ )کلید(key)کا کام کرتے ہیں۔انٹرنیٹ پر جتنی ویب سائٹس پائی جاتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ویب سائٹس ہمارے دماغ میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔عام طور پر ہم اکثر غم ،حزن و ملال ،مایوسی اور یا سیت کی ویب سائٹس کو بروز کرتے ہوئے اپنی غم ،مایوسی اور اضطراب میں اضافہ کرتے ہیں۔
زبان (liguistic):۔حواس خمسہ کی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے۔ حواس خمسہ اپنے پانچوں عضو سے باہم مربوط ہوکر ایک زبان تشکیل دیتے ہیں اور ا سی زبان کے سہارے وہ جذبات و احساسات کی ترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ اگرآپ اپنی آنکھیں موند لیں اور ایک چمچ شکر آپ کے منہ میں ڈالی جائی تب ایک لمحہ سوچے بنا آپ آنکھیں بند رکھ کر ہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے منہ میں شکر ڈالی گئی ہے۔شکر کے میٹھے ذائقے کی پہچان آپ کے دماغ کو کس نے سکھائی؟آپ بالکل بجا فرماتے ہیں کہ یہ کام آپ نے انجام نہیں دیا۔شکر کے بجائے اگر منہ میں لیمو کا رس ڈال دیا جائے تب لیمو کے رس سے آپ کے منہ سے لعاب کا اخراج ہوگا۔کیا لیمو کے رس پر منہ کو لعاب کا اخراج آپ نے سکھا یا ہے ؟آپ کہیں گے کہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے۔اسی عمل کو لسان ذہنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جذبات اور احساسات کا اظہار اسی زبان کے تحت ہوتاہے۔ماحول،پرورش، اورحالات جن کا ہم سامنا کرتے ہیں مختلف طریقوں سے ہمیں تجزیہ اور تعبیر کا علم عطا کرتے ہیں۔بچپن میں اگر ایک بچے کی مسلسل حوصلہ افزائی و ہمت افزائی کی جائے تب اس میں خود اعتمادی پروان چڑھے گی اس کے برخلاف اگر بچپن سے ہی بچے کی حوصلہ شکنی کی جائے تب اس میں عدم اعتمادی اور بے حوصلگی پروان چڑھے گی۔عدم حوصلہ گی اور بے اعتمادی کی وجہ سے ذہن میں، میں بیکار ہوں،میر ی قسمت خراب ہے،میں پڑھ نہیں سکتا ،میں یہ نہیں کرسکتا میں وہ نہیں کرسکتااور میں امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جیسے احساسات سر اٹھا تے ہیں۔اس طرح شعوری اور لاشعوری طور پرہمارے دماغ پر کئی نقش کندہ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں ان باتوں کا خا ص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پروگرامنگ(programming):۔ہمارے حواس خمسہ اپنے تاثرات پیش کرنے یا احتجاج درج کروانے کے لئے ایک مخصوص زبان کا استعمال کرتے ہیں اور یہ زبان ذہن میں پروگرام کی ہوئی ہوتی ہے۔یہ نہ تو ہم کو نظر آتی ہے اور نہ ہم اس کو جانتے ہیں۔پروگرامنگ دماغ پر مرتسم تاثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔پانچوں حسی عضو کے کام کرنے کی وجہ سے جو تاثرات اور نقش ذہن پر کندہ ہوجاتے ہیں اسی کو پروگرامنگ کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر سگریٹ نوشی میں مبتلا ایک شخص کہتا ہے کہ سگریٹ پینے سے اس کو گوناگوں سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔اسی کو ذہنی پروگرامنگ کہا جاتا ہے۔اس کے برعکس ایک شخص سگریٹ پینے کی کوشش میں کھانسنے لگتا ہے اور ہاتھ سے سگریٹ پھینک دیتا ہے۔ یہ بھی ایک پروگرام ہے۔ اپنی زندگی میں ہم آئے دن ایسے واقعات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذہنی افلاس ،افسردگی غم اور حزن و ملال کی ایک اور اہم وجہ توہم پرستی بھی ہے ۔ہمارے معاشرے میں توہم پرستی ایک عام بات ہے۔ ہم توہم پرستی کو نفسیات کی اصطلاح میں اگر وائرس سے تعبیر کر یں تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ بعض افراد کا خیال ہوتا ہے کہ مخصوص زائچوں اور نقشوں کی گھر میں عدم موجودگی کی وجہ سے خوش حالی داخل نہیں ہورہی ہے۔بلی کے راستہ کاٹنے سے کام بگڑ جاتے ہیں،یا پھر مخصوص ایام جیسے اماوس پر کوئی نئے کام کو شروع کرنے سے نقصان ہوتا ہے ۔ ان خیالات یا تواہم کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ توہم پرستی کا شکا ر شخص ان باتوں کا جواز ، معنی ،مفہوم ا ور استدلال پیش کرسکتا ہے پھر بھی ان امور پرایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے کیونکہ یہ شبہات اس کے ذہن میں پروگرام کئے ہوتے ہیں۔ توہم پرستی کا یہ عمل لگاتار جاری رہنے سے ہمارا کمپیوٹر(ذہن)وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے۔اور یہ صورتحال کمپیوٹر س (ذہنوں) کے لئے تباہ کن اور خطرناک ہوتی ہے۔ خطرات کے پیش نظر بھی ہم اپنے ذہنوں کو اسکان نہیں کر تے ہیں یا پھر ہم ذہن کو اسکان کرنے کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔اگر اسکاننگ کا ہنر جانتے بھی ہوں ہماری لاپروہی اور کاہلی ہم کو اس سے باز رکھتی ہے۔لیکن نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ (NLP)کے ذریعہ یہ ممکن ہے۔NLPکوئی طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ ذہنی پروگرامنگ کی ایک خاص تکنیک (مہارت)ہے۔
اکثر کامیاب لوگ کہتے نظرآتے ہیں کہ ان کی کامیابی خو د انہی کی رہین منت ہے یعنی وہ سلف میڈ (اپنی محنت سے ترقی کرنے والے) ہیں۔لیکن میری نظر میں جو ناکام ہوتے ہیں وہ سلف میڈ ہوتے ہیں کیونکہ کامیاب افراد کی کامیابی میں کسی نہ کسی کا تعاون اور مدد شامل ہوتی ہے۔ جب کہ ناکام حضرات کی ناکامی میں کسی اور کا کوئی حصہ و کردار نہیں ہوتا ہے۔ناکام افراد کی ناکامی میں خو د ان کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے۔NLPکا بنیادی مقصدذہن کو مثبت فکر سازی کے لئے تیار کرنے میں رہنمائی و رہبری فراہم کرنا ہے جس کے ذریعہ آدمی اپنی مدد آپ کرتے ہوئے منفی رجحانات اور اذیت ذات کے عمل سے خود کو محفوظ و مامون رکھ سکتا ہے۔اگر آدمی اکثر منفی سوچ میں ملوث ہوتب ذہن اس کو منفی ذہن سازی (پروگرامنگ) پر ابھار تا ہے۔ ماہر نفسیات جگ جگلر (Jig Jiggler) اس ضمن میں رقم طراز ہے کہ ’’خوف ایک ایسا تاریک کمرہ ہے جہاں صرف نیگیٹوز ہی تیار ہوتے ہیں۔‘‘ یہاں نیگیٹوز سے مراد فوٹوگرافی فلم نہیں ہے بلکہ منفی خیالات و افکار ہیں۔اسی لئے انسان کو ہمیشہ مثبت فکر سے جینے کی تلقین کی جاتی ہے۔اسلام گمان کو ایک باطینی بیماری قرار دیتا ہے اور اس سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔’’اے ایمان والو،کثرت گمان سے بچو۔بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘(سورۃ الحجرات:12)شیطان دلوں میں وساوس پیدا کرتے ہوئے انسان کو خوف اور غم میں مبتلا کردیتا ہے۔اسی لئے اسلام انسانوں کو وسوسوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔حسن ظن سے متعلق حدیث مبار ک میں آتا ہے ’’اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ مجھ سے ظن رکھتا ہے۔اب بندے کی مرضی ہے جیسا چاہے مجھ سے ظن رکھے۔‘‘مثبت فکر کے ذریعہ انسان اپنے غموں سے نجات پاسکتا ہے۔اسی لئے آدمی کو ہر پل مثبت سوچنا چاہیئے۔اگر ہرن جیناکا خواہش مند ہوتو لازمی طور پر اس کو تیز تر دوڑنا سیکھنا ہوگا نہیں توکسی شیر وببر کا لقمہ تر بننے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اسی طرح اگر شیر و ببر جینا چاہتے ہیں تو ان کو ہر ن سے تیز دوڑنا ہوگا ورنہ ہرن بھاگ جا ئے گا اور وہ بھوکوں مرجائیں گے۔جو روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور چیالینجس کا سامنا کرتے ہیں وہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ہر دن ہم کو اپنے صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے مزید موقعے پیدا کر نا چاہیئے۔کسی کوبھی کوئی شئے یونہی حاصل نہیں ہوجاتی ہے بلکہ بہادر اور جوانمرد تو وہ ہوتے ہیں جو موقعوں کا انتظار کرنے کے بجائے خود مواقع پیدا کر تے ہیں۔مواقع کوئی ایسا درواز ہ نہیں ہے جو کوئی دوسرا آپ کے لئے وا کرے گا۔اسے تو خود آپ کو ہی کھولنا ہوتا ہے۔طویل مدت سے ذہنوں میں گھر کیئے ہوئے عقائد، تواہم و منفی سوچ کو بدل کر اور ذہن کی ری پروگرامنگ کے ذریعہ ہم اپنے زندگی کو خوشی و مسرت اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔کئی افراد نے NLPسائنس کے ذریعہ نہ صرف معجزات انجام دیئے ہیں بلکہ ناممکنا ت کو ممکن کر دکھایا ہے۔جو اپنے آپ کو بے مصرف سمجھتے تھے اپنے گمان سے بھی زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔جو مایوسی اور ناکامی کی وجہ سے خو د کشی کے دہانے پر تھے آج خود اعتمادی سے عظیم کامیابیوں کے حصول میں مصروف ہیں۔NLPسائنس کا سب سے حیرت ناک او رتعجب خیز پہلو یہ ہے کہ ہم کو خدشات و فریب میں گرفتار کیئے بغیر خوش و خرم رکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔
NLP:۔کمپیوٹر انجینئرریچڈبینڈلر اور عمرانیات و لسانیات کے عالم جان گرینڈردونوں نے اپنے نفسیاتی مطالعہ کی روشنی میں اپنا ایک نئے نظریے اعصابی لسانیاتی پروگرامنگ(Neuro liguistic programming)کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے اپنے کرشماتی نظریہ کی تحقیق کے دوران متعدد ماہرین نفسیات سے ملاقاتیں کیں جن میں ڈاکٹر ملٹن ایرکسن(Dr.Milton Ericson)قابل ذکر ہیں۔بینڈلر اور گرینڈر نے بہت عرق ریزی اور محنت کے بعد آسان اور قابل قدرعصبی لسانی پروگرام(مہارت) تکینک سے دنیا کو متعارف کروایا۔جسے نیورلنگوسٹک پروگرام(عصبی لسانی پروگرام)کہاجاتا ہے۔ریچڈ اور گرینڈر کے مطابق خوشی ،مسرت اور غم ہماری اپنی ذات میں ہی پنہاں ہوتے ہیں ہم اپنی فکر صلاحیتوں کو مثبت رنگ دیکر ہمیشہ خوش و خرم رہ سکتے ہیں۔ ہم سکون کی تلاش میں سرگرداں،حیران و پریشان پھرتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔یونانی اساطیر (داستانوں) میں ایک تمثیل کو پیش کیا گیا ہے۔تمام یونانی خداؤں نے ایک اجلاس طلب کیا ۔اجلاس میں انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا۔چند دیوتاؤں نے اعتراض پیش کیا کہ اگر انسان کو ذہنی سکون عطاکر دیا گیا تووہ کبھی کام نہیں کرے گا۔دیوتاؤں نے تجویز پیش کی کہ انسان کو ذہنی سکون ہر گز فراہم نہ کیا جائے جس کی بعض دیوتاؤ ں نے مخالفت کی۔ایک دیوتا نے کہا کہ سکون کو ایک غار میں چھپا کر رکھ دیا جائے اور غار کے منہ کو ایک بڑی چٹان سے بند کر دیا جائے ۔اگر آدمی محنت کر ے گا اور غار سے چٹان ہٹا دے گا تب اس کو ذہنی سکو ن نصیب ہوجائے گا۔دوسرے دیوتا نے کہا کہ ایک طاقتور انسان کے لئے یہ کام بہت ہی آسان ہوگا۔اگر سکون کو کسی برفیلی پہاڑی کی چوٹی پر رکھدیا جائے تو وہ وہاں تک نہیں پہنچ پائے گا۔تیسرا دیوتا نے کہا کہ انسان برف سے کسی نہ کسی طرح بچاؤ کرتے ہوئے چوٹی تک پہنچ کر ذہنی سکون کو حاصل کر لے گا۔بہتر یہی ہوگا کہ اسے سمندر کی تہہ میں چھپا دیا جائے۔چوتھے دیوتا نے کہا کہ آپ تما م کی آرا بیکار ہیں ۔ایسی تجویز دو کہ انسان تھک ہار کر بھی ذہنی سکون کو حاصل نہ کرنے پائے۔تمام دیوتا سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور ازسر نو سوچنے لگے۔ایک نوجوان دیوتانے تجویز پیش کی جس کوتمام دیوتاؤں نے شرف قبولیت بخشا۔نوجوان دیوتا کی تجویز تھی کہ ذہنی سکو ن کو یہاں وہا ں چھپانے کے بجائے اس کو خود انسان کی ذات میں چھپا دیا جائے۔انسان ذہنی سکون کو دیوانہ وار تلاش کر ے گا لیکن اس کو پتہ نہیں چلے گا کہ ذہنی سکون تو خود اس کی ذات میں رکھا گیا ہے۔تمام دیوتاؤں اس رائے پر متفق ہوگئے۔تب سے دیوتاؤں نے ذہنی سکون کو انسان کی ذات میں پوشیدہ کر دیا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج بھی معدودے چند افراد کے بیشتر کو یہ بات نہیں معلوم ہے۔آج بھی انسان ذہنی سکون کے لئے متعد د حربے اختیار کر رہاہے کوئی شراب میں سکون ڈھونڈ رہاہے تو کوئی منشیات میں۔کوئی دولت میں توکوئی جو ے میں۔الغرض انسان مختلف ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے بعض دنیاوی زندگی کو خیرآباد کہتے ہوئے سنیاس لے رہے ہیں تو چند خود کشی سے بھی احتراز نہیں کر رہے ہیں۔لیکن پھر بھی ان کو ناکامی ہی حاصل ہورہی ہے۔سکون اطمینان تو انسان کی ذات میں ہی پنہاں ہے اور جو چاہتے ہیں کہ انہیں ذہنی سکون اور اطمینان قلب حاصل ہو یہ ان کو مل ہی جاتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی ذات میں غوطہ زن ہوں۔ذہن شعور اور تحت الشعورجیسی دو کیفیات پر مبنی ہوتا ہے۔بیشتر افعال و سرگرمیوں شعور ی طور پر انجام پاتی ہیں لیکن یہ افعال اور سرگرمیوں تحت الشعور کے زیر نگیں اور زیر قابو انجام پاتی ہیں۔انسان کے اچھے یا برے کارنامے،قابل قبول یا قابل اعتراض تبصرے تحت الشعور میں نقش ہوجاتے ہیں۔والدین سے منتقل ہونے والی عادات و اطوار، رسم و رواج،سماجی ومعاشی اور ثقافتی ماحول اور بچپن کے تجربات انسانی ذہن پرنہ صرف گہر ا اثر ڈالتے ہیں بلکہ یہ ذہن میں(تحت الشعور) پیوست ہوجاتے ہیں۔حالانکہ یہ نقش صحیح نہیں ہوتے ہیں پھر بھی ہم غلامی کی حد تک اس فریب کے مطیع رہتے ہیں۔ان تباہ کن پر فریب نظریات کو ہی ہم ابدی سچائی کے طور پر تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ان افراد کو ایسے پر فریب جال سے نجات دلانے میں عصبی لسانی پروگرامنگ(Neuro liguistic programming)بہت سود مند ثابت ہوتی ہے۔مثال کے طور پر بعض افراد کے ذہنوں میں درجہ ذیل باتیں پروگرام ہوتی ہیں۔وہ ان باتوں کو سچ مانتے ہیں لیکن انھیں غور کرنا چاہیئے یہ سچائی نہیں ہے صرف ان کا اندھا عقیدہ ہے۔(1)اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے میری زبان بند ہوجاتی ہے۔(2)میں جو بھی پڑھتا ہوں یا د نہیں رہتاہے۔(3)میں اپنی توہین اور بے عزتی کبھی نہیں بھولتا ہوں۔(4)باٹنی کی کلا س بہت ہی بو ر ہے۔(5)کسی مخصوص طبقہ یا مذہب کے لوگ بہت ہی ظالم ہوتے ہیں۔(6)الجبرا ء سے میں بہت گھبراتا ہوں۔(7)میں بہت ہی بد قسمت ہوں اور میرے ستارے خراب ہیں۔(8)ملازمت پیشہ عورت پر کبھی بھروسہ نہیں کر نا چاہیئے۔(9)امریکہ جانے والے تما م افراد شراب پیتے ہیں۔(9)سفر کے آغاز پر کسی کا چھینکنا بدشگونی ہے۔(10)اگر بلی راستہ کاٹ دے تو جس کام کے لئے جارہے ہیں اس میں کامیابی نہیں ملے گی۔(11)شراب پینے سے میں خود کو پرسکون اور ہلکا پھلکا محسوس کر تا ہوں۔(12)شراب پینے سے تما م غم فراموش ہوجاتے ہیں یا تما م غم غلط ہوجاتے ہیں۔(13)مجھے زندگی میں کبھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔(14)میں زندگی بھر کار نہیں چلا پاؤں گا۔(15)دنیا میں کوئی بھی میرے سے زیادہ پریشان نہیں ہے۔(16)مجھے کوئی نہیں سمجھتا سب میرے دشمن ہیں۔(17)مجھے ضرور کوئی خطرنا ک بیماری ہے یا ہوسکتی ہے۔اگر اسی طرح لکھتے جاؤں تو یقیناًیہ مضمون ان کا احاطہ نہیں کر پائے گا۔مذکورہ تمام بیانات میں دراصل کوئی سچائی نہیں ہے۔جو یہ بہانے بناتے ہیں ان کو ہی یہ اچھے لگتے ہیں۔اور اسی ڈگر پر ان کا ذہن کام کرتا ہے۔دماغ بھی ان کو اسی طرح کی تجاویز دیتا ہے اور آخر کار یہ تجاویز ذہن میں مختلف شکلوں میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ یہ تمام نقوش باطل اور جھوٹے ہیں۔عصبی لسانی منصوبہ بندی (پروگرامنگ) باطل نظریات سے نجات دلاکر انسان کو عظیم کامیابیوں کی طرف گامزن کرتی ہے۔
ہم ا پنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔لیکن پھر بھی ان کو فراموش کر دیتے ہیں۔ عام طور پر انسان کامیابی سے زیادہ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کو یا د کرتا ہے۔انسان اپنی زندگی کے خوش گوار ایام بھول جاتا ہے اور مشکل اور برے حالات جس کو اس نے خود پیدا کیا تھا، یاد رکھتا ہے ۔ نفسیات میں اسی کو اذیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہم خودکو ایک ہیرو کی طرح دیکھے نہ کہ ایک ویلن کے طور پر۔آج کا عام انسان منفی خیالات میں گھرا ہوا ہے جیسے ’’یہ میں نہیں کر سکتا ‘‘۔’’یہ بالکل نا ممکن ہے۔‘‘اور بالاخر یہ منفی خیالات حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔دنیا میں ایسے بہت لوگ ہیں جو اپنی عارضی پریشانیوں کو بڑھا چڑھا کر دیکھتے ہیں اور زندگی کے لطف و سرور سے محروم ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ بہت ہی سود مند ہوتی ہے۔یہ آدمی کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرتی ہے۔اس تکنیک کا سب سے اہم گر یہ ہے کہ آدمی اپنی ایک کامیابی کو دوسری کامیابی کا زینہ بنا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ سے فیضیا ب ہونے والوں میں کمپیوٹر دنیا کا بے تاج بادشاہ بل گیٹس، (“awaken the giant within you” and Unlimited Powe”) کا عظیم مصنف انتھونی رابنس شامل ہیں جنھوں نے اپنے اپنے شعبے میں کسی خاص تعلیم و تربیت کے بغیر فقید المثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔انسانی ذہن عظیم طاقتوں کا سر چشمہ ہے۔یہ کمپیوٹر سے بھی کم وقت میں پیچیدہ سے پیچیدہ کام انجام دے سکتا ہے۔انسانی افکار و خیالات کی پرواز اور رفتا ر کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ذہن میں منفی افکار کو جگہ دے کراور مثبت افکار سے دامن کترا تے ہوئے انسان ایک فرسودہ اور اذیت ناک زندگی گزار رہا ہے۔بہت کم افراد جانتے ہیں کہ اپنے ذہن پر قابو پاتے ہوئے ہم ایک بہتر ،خوشحال اور کامیاب زندگی بسر کر سکتے ہیں۔جو لوگ اس سچائی سے انحراف کر تے ہیں دوسروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح رقص کر تے رہتے ہیں۔اس ضمن میں ایک کہاوت مجھے یا د آرہی ہے ’’ اگر بلی اندھی ہوجائے تو چوہا اس کے پیٹھ پر رقص کرنے لگتا ہے۔ ‘‘بالکل اسی طر ح جب ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے ہیں تب معمولی سے معمولی مسائل اور ادنی سے ادنی لوگ ہمارااستحصال کرنے لگتے ہیں۔نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ نہ صرف دماغ پر قابو پانے کے گر سکھاتی ہے بلکہ دماغ پر غلبہ حاصل کرنے کا بھی ہمیں علم عطا کرتی ہے۔مروجہ نفسیاتی تکنیک آدمی کی شخصیت کو سنوار کر اس کو اس کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتی ہیں لیکن نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ اس سے ایک ہاتھ آگے جاکر آدمی کو ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کا ہنر سیکھاتی ہے اور نہ صرف ان کو ترقیوں کی معراج تک پہنچاتی ہے بلکہ ان کو اس مقام پرقائم رہنے کے گر بھی سیکھاتی ہے۔
اپنی زندگی کے خوشگوار دنوں کو یا د کیجیئے ۔اپنی پیدائش سے لیکر آج تک کے تما م اہم خوشگوار واقعات کو یک بہ دیگر ترتیب وار ذہن میں اس طرح لائیے جیسے آپ ایک فلم دیکھ رہے ہیں۔اس کام کودن میں کم از کم ایک بار دہرائیے پھر دیکھیئے کہ ایک ہفتے کے اندر آپ میں کیسی خوش گوار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔درحقیقت آج بھی ہم یہ تما م کام انجام دے رہے ہیں لیکن ہمارا سفر مقابل سمت میں جاری ہے۔ کامیابی کے لئے منزل اور سمت کا تعین ضروری ہوتاہے۔منزل تک پہنچنے اور سمت کے تعین کے علاوہ راستے کے مصائب و شدائد کا سامنا کرنے کا حوصلہ NLP فراہم کرتی ہے۔ خوش گوار یادوں کو تازہ کرنے کے بجائے دکھ بھرے ایام کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ہم خود کو مضطرب ،پریشان اور غمگین کرتے ہیں۔ خوشی اور کامیابی کے حصول کے لئے اپنے ذہن پر قابو حاصل کیجیے اپنی سوچ کو مثبت بنائیے۔ہمیشہ شکر گزاری کی عادت ڈالیئے ۔شکر گزاری کا جذبہ صرف مثبت فکر سے ہی پیدا ہوتا ہے۔اس تناظر میں حضرت شیخ سعدی ؒ کا ایک واقعہ ہماری ذہن سازی کے لئے کارآمد ہوگا۔ایک مرتبہ سعدیؒ کے پاس جوتے تک میسر نہیں تھے اور ننگے پیر چلنے سے ان کو بہت ہی کوفت اور تکلیف ہورہی تھی ان کے پیروں میں چھالے پڑگئے تھے۔وہ زندگی کو کوس رہے تھے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے پیر وں کو جوتے تک میسر نہیں ہیں۔ابھی یہ خیال آپ کے ذہن میں آیا تھا کہ آپ کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو پیروں سے معذور تھا ور کمر کے بل گھس کر راستہ طئے کر رہاتھا۔ تب آپ نے سوچا کہ میں اس آدمی سے بہت ہی قسمت والا ہوں کہ میری پاس جوتے نہیں تو کیاہوں میرے پیر تو سلامت ہیں۔مثبت سوچ کی ہی بدولت سعدی کا نام علم و ادب کی دنیا میں آج بھی روشن و منور ہے ۔دنیا کو مسخر کرنے کے لئے ہم کو تسخیر ذات کے مرحلے سے گزرناپڑتا ہے۔ذات کی تسخیر میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے ذہن پر قابو اور غلبہ پانے میں کامیابی حاصل کر تے ہیں۔ جو لوگ منفی پہلو سے بھی مثبت پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں وہ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی بہت لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی خوشیوں سے مامور و آباد کرنا چاہتیہیں توہم کو ہمیشہ زندگی کے روشن پہلوؤں پر نظر مرکوز کرنی چاہیئے۔جو لوگ مثبت اور روشن پہلوؤ ں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں نہ صرف وہ دنیا میں کامیاب وکامران رہتے ہیں بلکہ معاشرے میں ان کو ایک خاص مقام اور مرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ لوگ ان کو عز ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہر محفل میں ان کا استقبال کیا جاتا ہے ۔کیونکہ یہ لوگ نہ صرف خوش رہنے کا ہنر جانتے ہیں بلکہ دوسروں کے غم خوار و مونس ہوتے ہیں اور ہمیشہ لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔کامیاب اور خوش گوار زندگی گزارنیکے لئے ذہنی رویوں،مثبت فکراور مثبت طرز عمل کو بہت اہمیت حاصل ہے۔جو شخص منفی فکر سے اجتناب کرتے ہوئے ،مثبت سوچ اور مثبت طرز عمل کو اپنا تا ہے وہ نہ صرف زندگی بھر خوش و خرم رہتا ہے بلکہ فقیدالمثال کامیابی کے دروازے اس کے لئے وا ہوجاتے ہیں۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...