سنا ہے  قندوز میں بچے مرے ہیں 

سنا ہے قندوز میں

بچے مرے ہیں

مجھے سری دیوی کا

غم ہے

اسٹیفن پہ آنسو

بہا رہا ہوں

دونوں کو

جنت لے جانا چاہ رہا ہوں

خونِ مسلم بہت ارزاں ہے

تم کیوں غمگین ہو

مجھے دیکھو کن پر آنسو

بہا رہا ہوں

چھوڑو ناں

حافظ بچے تھے

کون سا کیمبرج میں پڑھتے تھے

انہیں کون سا انجینئر بننا تھا

یہ کیا خاک ڈاکٹر بنتے

ارے چھوڑو

یہ کون سے کسی ماں کے لعل ہوں گے

ان کی بہنوں کے تو

بہت سے بھائی ہوں گے

میں فرانس پر روتا ہوں

میں گورے شکل سے نہیں

گوروں کے بچوں پر روتا ہوں

افسروں کے بچوں پہ روتا ہوں

چپ کرو یہ اپنا رونا دھونا

اس سے میرے گیتوں کی تال بگڑ رہی ہے

رقص میں ڈوبی چال بگڑ رہی ہے

کوئی بہت رو رہا ہے

مجھے کیا

سنا ہے

قندوز میں بچے مرے ہیں

 

حصہ
mm
صہیب جمال نے لکھنے لکھانے کی ابتداء بچوں کے ادب سے کی،ماہنامہ ساتھی کراچی کے ایڈیٹر رہے،پھر اشتہارات کی دنیا سے وابستہ ہوگئے،طنز و مزاح کے ڈرامے لکھے،پولیٹکل سٹائر بھی تحریر کیے اور ڈائریکشن بھی کرتے ہیں،ہلکا پھلکا اندازِ تحریر ان کا اسلوب ہے ۔ کہتے ہیں "لکھو ایساجو سب کو سمجھ آئے۔

جواب چھوڑ دیں