وہ پرانا سامان!

وہ ایک بہت بڑے تہ خانے کا منظر تھا، جہاں چھت سے لے کر زمین تک بڑے بڑے شیلف بنے ہوئے تھے. خاتون کو ردی، فالتو اشیاء جمع کرنے کا شوق تھا،پہلے کم تھا پھر آہستہ آہستہ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کام بن گیا. ان کے مطابق انہوں نے اب تک کی زندگی میں بہت کم سامان گھر سے نکالا ہے.
یہ ایک ایسی صورتحال ہے، جو کہ عموماً دیکھنے،سننے کو نہیں ملتی. گھروں میں نہ اس قدر جگہ ہے اور نہ لوگوں کے پاس اس قدر وقت کہ ہر پرانے سامان کو سنبھال کر رکھیں.
پرانی چیزوں اوراشیاء کو ری سائیکل کرنے کے حوالے سے انفرادی طور پر پر بھی لوگ کام کر رہے ہیں اور گروپس کی صورت میں بھی.
پہلے زمانے میں یہ کام گھر کی بڑی بوڑھیاں زیادہ کرتی تھیں، جن سے ان کے آگے کی نسلوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا.
پرانے لحاف کو نیا کرنا، برتنوں کو قلعی کروانا, پرانے سوئٹر کو ادھیڑ کر نیا بنانا، بڑوں کے کپڑوں سے چھوٹے بچوں کے کپڑے تیار کرنا. حتی کہ پرانی اورباسی ہنڈیا کو کسی دوسری ذائقہ دار پکوان میں تبدیل کرنے میں انہیں کمال حاصل تھا.
اب بھی انٹرنیٹ سے بہت سی پرانی چیزوں کو کسی کارآمد چیز میں تبدیل کرنے کے حوالے سے لاتعداد وڈیوز موجود ہیں.
استعمال شدہ یا پرانے سامان کے حوالے سے ایک اور سوچ بھی تھی کہ کسی ضرورت مند کو دے دی جائے، کہ جس چیز یاسامان کو استعمال کر لیا اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی ہے مگر کسی اور کے کام کی ہے تو وہ اسے دے دی جائے.
اس سے معاشرے میں رواداری، احساس کی فضا قائم رہتی تھی. ضرورت سے زائد اشیاء کو سینت سینت کر رکھ کر خراب کرنے کے بجائے کسی کی خواہش پوری کرنے کی نیکی کا اجر سمیٹنا بھی عام تھا.
مگر ایک اور رجحان تیزی سے تقویت پا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کم یا کچھ عرصہ استعمال کردہ سامان کو بیج دیا جائے، یا خرید لیا جائے.اس میں کچھ صورتوں میں بیچنا مجبوری بھی ہوتی ہے اور بعض اوقات شوق!
اس خریدو فروخت میں اخبارات، رسائل سے زیادہ انٹرنیٹ نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور مختلف ویب سائٹس نے اس میں اضافہ کیا ہے. آن لائن خرید و فروخت بھی بڑھی ہے.اس طرح کی خرید و فروخت کی وجہ سے کچھ رجحانات سامنے آئے ہیں.
پرانے سامان کو کچھ عرصہ استعمال کرکے بیچنے کا رجحان!
اس کے بدلے کوئی دوسری چیز خریدنے کا آغاز ہوا.
مارکیٹ سے کم قیمت پر اشیاء کا حصول ممکن ہوا.
ایسے پلیٹ فارم ملے جہاں ایک ہی جگہ بہت کچھ خریدا اور بیچا جانے لگا.
مگر کچھ نقصانات بھی ہیں۔
جلدی، جلدی چیزوں سے دل بھرنے لگا، مارکیٹ میں تیزی سے مقابلہ سازی کی فضا پروان چڑھی۔ چیزیں اونے پونے داموں فروخت ہونے لگیں۔ سب سے زیادہ سامان، چیز عاریتاً دینے کے رجحان میں کمی آئی.ایک مسلمان اپنی ذات سے افراد، معاشرے کو فائدہ پہنچانے والا ہوتا ہے. مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے. دنیا بھر میں نت نئے کام ہو رہے ہیں، نئے ٹرینڈز بن رہے ہیں. ان سب کے باوجود چاہیے سامان رکھیں، ری سائیکل کریں، بیچیں یا عاریتاً استعمال کے لئے دیں،یہ ضرور سوچیں کہ ہم آسانیاں بانٹنے والوں میں سے ہوں.

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں