ٹیگ: زعم

اہم بلاگز

قربانی قرب الٰہی کا ذریعہ‎

مسلم معاشرے کی روح قربانی ہی ہے۔ ایمان تو سچے مومن میں فوری یہ روح پیدا کر دیتا ہے۔ فرعون کے دربار کے جادوگر جو بحثیت جادوگر فرعون سے انعام کے خواہش مند تھے ایمان لانے کے بعد ایسے مومن بنے کہ فرعون کی طرف سے سخت سے سخت سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو گئے، جان کی قربانی کے لئے تیار یو گئے ایمان کی خاطر،،، ہجرت مدینہ کے بعد انصار و مہاجرین میں جو بھائی چارہ ہوا اور انصار جو مال کی بڑی سے بڑی قربانی کے لئے اتنے پرجوش ہو گئے تو ایمان ہی تھا جس نے اس مورل سپرٹ کو بیدار کیا۔ گو قربانی کی کلید ایمان ہے، ابراہیم علیہ السلام کو طویل آزمائشوں سے گزارنے کے بعد اسماعیل کی قربانی کا کہا گیا اور وہ اس آزمائش سے بھی بخوبی گزر گئے نتیجتاً ایک طویل عرصے پر مشتمل یہ وفاداری و قربانی قرب الہی کا ایسا ذریعہ ثابت ہوئی کہ قیامت تک کے لئے یہ سنت مسلمان عید الاضحٰی پر نبھاتے ہیں۔ گویا طویل آزمائشوں سے گزرنے کے بعد جو اس قربانی کو بھی صحیح طور پر ادا کرے وہی ابراہیمی سنت ہر چلنے والا ہو گا اور وہی آپ علیہ السلام کی مانند قرب الہی سے فیض یاب ہو سکے گا۔ جو بھی قرب الٰہی حاصل کرنے کا متمنی ہو اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ کے قرب کا راستہ دشوار گزار ہے، بدر، احد، خندق، موتہ آتے ہیں، ستایا جاتا ہے، تذلیل و تحقیر، تمسخر و تضحیک کی جاتی ہے ہھر جو اس سب سے اللہ کے لئے گزر جاتا ہے اللہ اسے چن لیتا ہے۔ ہابیل و قابیل میں سے ہابیل کی قربانی اللہ نے پتہ کیوں قبول کی،،، کیونکہ اس نیت کی اللہ کو راضی کرنے کی تھی، نیت میں فتور نہ تھا، اس کا عمل اخلاص پر مبنی تھا جبکہ قابیل کی نگاہ دنیاوی مفاد تک محدود تھی اور اللہ جانتا تھا کہ اس کا عمل میرے لئے خالص نہیں چنانچہ اللہ نے خالص اپنی رضا چاہنے والے کی (ہابیل) کی قربانی قبول کی۔ فتح مبین(صلح حدیبیہ) سے پہلے ایمان لانے والے اللہ کی نگاہ میں بڑا درجہ رکھتے بہ نست ان کے جو فتح کے بعد ایمان لائے،،، کیوں؟ کیونکہ اس وقت اسلام کو افراد کار اور ان کی عظیم قربانیوں کی ضرورت تھی مگر جب اسلام کو بالا دستی حاصل ہو گئی تو لوگ جوق در جوق مسلمان ہوئے۔۔۔ کیا پرکھے گئے اور نہ پرکھے گئے لوگ برابرہو سکتے ہیں؟ کیا تن من دھن اللہ کے لئے لٹا دینے والے اور اسلام کو غالب پا کر، اور کوئی چارہ نہ پا کر اسلام لانے والے اللہ کے نزدیک برابر ہو سکتے ہیں۔ کیا امت کے درد میں مبتلا شخص کی قربانی اللہ کو پسند آئے گی یا فلسطین و کشمیر کے غموں سے بے پروا مینڈھوں کی رگیں کاٹنے والے اللہ کی گڈ بک میں آئیں گے؟ آئیں اور کچھ نہیں تو فلسطینی پرچم، رومال، پٹیاں باندھ کر عید گاہوں میں جائیں اور قربانیاں کریں تا کہ ہمارے جانور گواہ ہوں کہ غفلت کی اتھاہ گہرائیوں سے تیرے بندے نکل آئے ہیں...

قوم کی واحد اُمید ! جماعت اسلامی

وطن عزیز روزانہ کی بنیاد پر اٹھتے ہوئے فتنوں اور مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک فتنہ کی سرکوبی ہوتی نہیں کہ دوسرا فتنہ سر اٹھانے لگتا ہے۔ایک مشکل کا خاتمہ ہوتا تو دوسری مشکل سر پر آن کھڑی ہوتی۔ ملک کے حالات جہاں بہتر ہونے لگتے وہیں اندرونی طور پر یا بیرونی پر کوئی طوفان اٹھتا اور ملک کو اپنے بھنور میں اس بری طرح سے جکڑ لیتا کہ لوئر کلاس سے لے کر اپر کلاس تک کا ہر فرد ہل کر رہ جاتا۔ مسلٸہ کشمیر کا حل ملا نہیں تھا کہ فلسطین میں تاریخ کی بدترین انسانی نسل کشی نے پوری دنیا کو جھنجوڑ کر رکھی دیا۔ اس ایشو کو پاکستان میں جتنا جماعت اسلامی نے ہاٸی لائٹ کیا اور مسلسل اس نسل کشی کے خلاف آواز بلند کی اور اب تک کر رہی ہے وہ قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔ جہاں پر باقی سیاسی جماعتیں اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف اور ملکی پیسہ کو بیرون ملک اپنے جائیدادوں میں ضم کرنے میں مصروف وہیں جماعت اسلامی اخلاق اقدار کی روایات کو برقرار رکھتے ہوۓ ملکی مسائل کے حل کے لیے مسلسل سرگرم ہے۔ صوبہ پنجاب میں موسیقی کے مقابلوں کا انعقاد ہو یا پھر کسانوں کے حقوق کی جنگ ہو۔ ملک میں بدترین لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہو یا پھر طلباء کے مساٸل ہوں۔ ملک میںLGBT..کا ایشو ہو یا پھر امریکی بینڈ کے کنسرٹ کا معاملہ جس کا بنیادی مقصد صرف جنس پرستی کو فروغ دینا ہو۔ ڈراموں کے ذریے بڑھتی ہوٸی فحاشی ہو یا پھر اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ٹی وی شوز ہوں۔ غرض جماعت اسلامی ہر محاز پر اکیلے ہی جنگ لڑ ر ہی ہے۔ معاملہ ملکی سطح کا ہو یا شہری سطح کا۔امیر کا ہو یا غریب کا۔ جماعت اسلامی کی لیڈر شپ اپنے تمام تر قوتوں کا بہترین مظاہرہ کر رہی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کے امیر جماعت منتخب ہونے کے بعد تو گویا یوں محسوس ہورہا ہے کہ جو انرجی انہوں نے کراچی میں پیدا کی تھی وہ پورے پاکستان میں پیدا ہوگٸی ہے۔ حافظ صاحب کی دبنگ انٹری نے پوری ملکی سیاست کو للکارا ہے اور نام نہاد سیاست دانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔۔ ان کی قیادت میں جس طرح پورے ملک میں جماعت اسلامی ایک نئے جذبے سے کام کر رہی ہے وہ یقینا بہت خوش آئند ہے اور بلاشبہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کی واحد امید صرف اور صرف جماعت اسلامی رہ گئی ہے جس کا مقصد و منشور صرف اور صرف اسلامی نظام کے قیام کے ساتھ ساتھ عوام دوست بننا اور نہ صرف اپنے ملک اور ملک مں رہنے والے مسلمانوں بلکہ دنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں کا درد سینے میں زندہ رکھتے ہوئے اُمت واحد ہونے کا ثبوت دینا ہے۔

لہو رنگ کراچی

دل غم سے چور ہے... کیا لکھوں؟ کتنا لکھوں؟ کس کس کو لکھوں؟ کراچی کا ایک اور قابل سپوت خون میں نہلا دیا گیا ۔۔۔اے ارباب اختیار! کیا تمہارے سینوں میں دل نہیں یا تمہاری کوئی اولاد نہیں؟ کیا تم تک یہ خبریں نہیں پہنچتیں کہ کس طرح کراچی کے پڑھے لکھے اور قابل نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے؟ یہ ٹارگٹ کلنگ نہیں تو اور کیا ہے نوجوانوں کو اسٹریٹ کرائم کی آڑ میں قتل کیا جا رہا ہے ہر روز بوڑھے اور ناتواں باپ جوان اور صحت مند اولاد کا لاشہ اٹھا رہے ہیں اور مائیں ....…ان کا دکھ تو مائیں ہی سمجھ سکتی ہیں کیونکہ "کسی بھی ماں کے سامنے جب جوان اولاد کا جنازہ اٹھتا ہے تو وہ بھی جیتے جی ہی مر جاتی ہے" یقیناً یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہی ہو رہا ہے کیونکہ ایسا کوئی جرم نہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی کے بغیر ممکن ہو ۔پچھلے دنوں اغوا پرائے تاوان میں بھی پولیس کے اہلکار ہی ملوث نکلے، ڈکیتی میں بھی ان کی شمولیت سامنے آئ یعنی جو محافظ ہیں وہی لٹیرے بن جائیں تو دہائی کس بات کی۔۔۔۔۔ اب تو کراچی کا کوئی خاندان ایسا نہیں بچا جو اسٹریٹ کرائم کی زد میں نہ آیا ہو۔ کیا کراچی کے عوام حکومت کو ٹیکس اس لیے دیتے ہیں کہ انہیں بنیادی سہولیات پانی ،بجلی، گیس سے محرومی تو دور کی بات زندگی سے ہی محروم کر دیا جائے ؟ آخر کب ہوش آئے گا حکمرانوں کو جب ان کے اپنے گھروں سے جنازے اٹھیں گے۔۔۔۔۔ کراچی کے نوجوانوں کا قصور تو بتا دیں ۔۔۔۔۔۔ کیا رزق حلال کمانے کے لیے گھر سے نکلنا جرم ہے ؟ کیا تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلنا جرم ہے ؟ کیا گھر کے باہر کھڑے ہو کر دوستوں سے بات کرنا جرم ہے؟ کیا بینک سے پیسے نکالنا جرم ہے ؟ ہمارے محلے میں درجنوں وارداتیں ایسی ہو چکی ہیں جن میں موبائل چھیننے کے دوران گولی مار کر نوجوان کو شہید کر دیا گیا ایک 26 سالہ نوجوان جس کی منگنی ہو چکی تھی گھر کے باہر کھڑا دوست سے باتیں کر رہا تھا ،بائیک پر دو لڑکے آئے ، موبائل بھی چھین کر لے گئے اور گولی بھی مار گئے۔۔۔۔ دوسری گلی میں دو بھائی بائیک سے اترے۔ ایک بھائی نے دروازہ کھولا دوسرا بائیک گھر کے اندر کرہی رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے موٹر سائیکل پر لڑکے آئے اور موبائل چھیننے کے دوران گولی مار دی۔۔۔۔۔ ایک اور گلی میں ایک 25 سالہ نوجوان اپنا لیپ ٹاپ وغیرہ لے کر گھر کے اندر جانے کے لیے جیسے ہی گاڑی سے اترا،اسکا پیچھا کرتے ہوئے آنے والے موٹر سائیکل سواروں نے اس سے لیپ ٹاپ چھیننے کی کوشش میں گولی مار دی۔۔۔۔ ایک 27 سالہ نوجوان بینک سے پیسے نکلوا کر آ رہا تھا اس سے موبائل بھی چھین لی ، پیسے بھی چھینے ،بائیک بھی چھینی اور گولی بھی مار دی...ارے سب کچھ تو لے لیا جان تو نہ لیتے۔۔۔ستم تو یہ ہے کہ سی سی ٹی وی...

کراچی میں ڈکیتی و قتل کے بڑھتے واقعات

کراچی میں مسلسل بڑھتے ہوئے بدامنی و ڈکیتی اور مزاحمت کرنے یا نہ کرنے کے باوجود نوجوانوں کو قتل کرنے کے واقعات جاری ہیں۔ دو روز پہلے گلشن اقبال میں گولڈ میڈیلسٹ اتقا معین نامی نوجوان کا ڈکیتی کے دوران گھر کے سامنے قتل انتہائی تشویشناک ہے۔ دوسال قبل ان کی شادی ہوئی تھی اور ایک چند ماہ کے بچے کے والد تھے کیا مائیں اپنے بچوں کو اس لئے پیدا کرتی اور پرورش کرتی ہیں؟؟؟؟ کب تک اتنی خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوتے رہیں گے اور ملک کا اتنا قیمتی سرمایہ چند روپوں و موبائل کی وجہ سے مٹی تلے دبا دیا جائے۔ گزشتہ3، 4 ماہ سے یہ سلسلہ جاری ہے سندھ میں کچے کا علاقہ ہو یا کراچی کا پکے کا علاقہ، لگتا ہے صرف ڈاکوؤں کا راج ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ عوام کس سے فریاد کرہں ایک طرف ٹیکسز اور مہنگائی و بجٹ کے نام پہ لوٹا جارہا ہے تو دوسری طرف ڈاکوؤں کے ہاتھ عوام لٹ رہیں ہیں تیسری طرف اگر ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو پولیس کے ہاتھوں لٹیں۔ خدارا  !  اس معاملے پہ ارباب حل و عقد سنجیدگی سے غور کریں، فوری ایکشن لیا جائے۔ اقتدار و ایوانوں میں بیٹھے افراد نے عوام سے ان کے جان و مال عزت وآبرو کے تحفظ کے وعدے پہ ووٹ لئے اور ان جگہوں پہ براجمان ہیں۔ مراعات و مناصب سے مستفید ہورہے ہیں اور قوم کو ان ظالموں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ آپ سب اللہ کے ہاں جواب دہ ہیں اگر آپ ظالموں و درندوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچائیں گے تو آپ سب بھی اور یہ پورا نظام مملکت عنداللہ ضرور اس بڑی عدالت میں کھڑا ہوگا اور نبی مہربان صلعم و تمام انبیاء اور انسانوں کے سامنے کھلی عدالت لگے گی اور براہ راست نشر ہوگی اور ایسے تمام لوگ جو اس نظام کو چلانے کے ذمہ دار تھے چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں ، انتظامیہ و مقننہ ہوں پولس ہو یا ججز سب کے سب مظلوموں کی گواہیوں و استغاثہ کے تحت سزا کے مستحق ٹہریں گے جنہوں نے ظلم کے اس نظام کو مضبوط کیا خاموشی اختیار کرکے اس کو سپورٹ کیا۔ اس سے پہلے کے اللہ کی عدالت لگے آپ اپنے مقام پہ بیٹھ کر ایسے تمام مجرموں کو قرار واقعی سزا دلائیں۔ مجرموں کا سب کو پتا ہوتا ہے المیہ یہ ہے کہ ان کے سرپرست ہی ہم پہ مسلط ہیں کسی نہ کسی حوالے سے ایسے لوگوں کا پتا لگانا ہمارے اداروں کا کام ہے لیکن معلوم نہیں یہ سب ادارے کب کام کریں گے؟ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے !!!

یہ خاموشی کب تک؟

ہر گزرتے دن کے ساتھ فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جاریت ہماری سماعت اور نظروں سے ٹکراتی ہے اور ہمیں جھنجوڑ جھنجھوڑ کر کہتی ہے کہ ہے کوئی جو ہمارے پیاروں کو مرنے اور جلنے سے بچا سکے؟ کوئی ہے جو ہمارے بچوں کا سر کٹنے سے روک سکے؟ کوئی ہے جو امت وسط ہونے کا حق ادا کر سکے۔ افسوس کہ ان کی آوازیں سن کر بھی ان سنی کر دی جاتی ہیں اور اسرائیل کی سفاکیت عیاں ہوتے ہوئے بھی اندیکھی کر دی جاتی ہے۔ کوئی پوچھے تو صحیح ان مسلمان حکمرانوں سے کہ کس دنیاوی مال کے عوض اپنے بھائیوں اور بچوں کا سودا کر رہے ہو۔ کیا بھول گئے ہو کہ یوم فرقان میں تمہیں اپنی خاموشی کا جواب دہ ہونا ہے اس رب کے سامنے جس کا ترازو بہترین انصاف کرنے والا ہے ۔ غزہ سے آنے والی ہر ایک تصویر اپنے آپ میں ایسا واقعہ ہے کہ جسے سنانے کیلئے الفاظ اور بیان کرنے کیلئے زباں نہیں ۔ امت محمدیہ ﷺ بلبلا رہی ہے، کراہ رہی ہے مگر ہمارے حکمران اس غرور میں مبتلا ہیں کہ ہم عالم اسلام کی پہلے ایٹمی طاقت ہیں" وہاں ہمارے نو مولود بچوں کے سر کٹے جا رہے ہیں اور اِنہیں یہاں خوشی منانے سے فرصت نہیں مل رہی۔ کیا ہی بات ہوتی اگر یہ یوم تکبیر کا اصل مقصد برقرار رکھتے ہوئے اس میزائل کو اسرائیل کی بربادی اور تباہی کے لیے استعمال کرتے اور تمام عالم اسلام میں فخر کا باعث بن جاتے۔ لیکن افسوس ہمارے مسلمان حکمرانوں نے اپنے جسم کے اس حصے کو درد میں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ سب یاد رکھیں کہ جب آندھی آئے گی تو چراغ سب کے بجھیں گے کیونکہ ہوا کسی کی نہیں ہوتی ۔ اس دن کے آ لینے سے پہلے اپنے اندر انسانیت کی محبت لے آئیں تاکہ قیامت کے دن جب قاضی اللہ ہوں اور وکیل آپﷺ ہوں توکسی طرح تو جان کی خلاصی ہوسکے... آخر میں یہ جملہ تمام بے ضمیر حکمرانوں کے لئے: ابابیل، بدرى صحابه، نزول عيسی ومہدی مانگنے والو تم اپنے لیے غیرت اور شرم کیوں نہیں مانگ لیتے....؟؟

خبر لیجیے زباں بگڑی - اطہر ہاشمی

طنز و مزاح

کہاں کی بات کہاں نکل گئی

قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔ اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔ دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔ گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ 2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...

والدین اور بیٹیاں

آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے"  جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔ اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔ تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو  leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔

زندگی بدل گئی !

شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔ فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔ خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔ ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...

بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان

بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔ ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔ کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔ ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔ ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔ نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔ I am vaccinated کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔ یہ بلائے ناگہانی ہے بس...

ٹک ٹاک ایک نشہ

ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔ میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘ چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...

ہمارے بلاگرز