لگتا ہے یہ بڑے میاں اس عمر میں آکر تھوڑا کھسک گئے ہیں۔‘‘ امین صاحب نے دبی آواز میں سلیم صاحب سے کہا اور ایک پیپر ان کی میز پر رکھ دیا‘‘ ۔
’’کس کی بات کررہے ہو؟‘‘ سلیم صاحب نے پیپر اٹھا کر ایک نظر دیکھا اور فائل میں لگا دیا۔
’’یہی اپنے پیون فاروق بابا کی۔‘‘ امین صاحب نے کھڑے کھڑے کہا۔
’’کیوں خیریت! کیا ہوگیا انہیں؟‘‘ سلیم صاحب نے مسکرا کر امین صاحب کو دیکھا۔
’’آپ نے شاید نوٹ نہیں کیا۔‘‘ امین صاحب سامنے رکھی کرسی پر براجمان ہوگئے اور قدرے آگے ہوکر دبے لہجے میں بولے۔ ’’جب سے نئے ڈائریکٹر صاحب آئے ہیں‘ ان کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں وہ بڑے میاں! شاید نمبر بنانے کے چکر میں ہیں۔‘‘
سلیم صاحب ہنس دیئے۔ ’’ارے چھوڑو بھئی‘ کیا پیون کی باتیں لے کر بیٹھ گئے‘ بنانے دو غریب کو اگر نمبر بنا رہے ہیں تو ہمارا کیا جاتا ہے۔‘‘
’’جاتا تو خیر کسی کا کچھ نہیں لیکن آگے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے سلیم صاحب! آپ شاید سمجھ نہیں رہے۔‘‘ امین صاحب نے ذومعنی انداز میں کہا۔
اس بار سلیم صاحب تھوڑا چونکے۔ ’’کیا مطلب؟ ویسے ایک بات تو ہے میں نے بھی نوٹ کیا ہے کہ فاروق بابا نئے ڈائریکٹر کے کمرے کے چکر کچھ زیادہ ہی لگارہا ہے۔‘‘
’’اور ہم اتنے برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فاروق بابا بڑا اصول پسند ہے۔ کام سے کام رکھتا ہے اور کبھی کسی کی خوشامد یا چاپلوسی نہیں کی۔‘‘ امین صاحب نے کہا۔ ’’ہے نا یہ بات۔۔۔؟‘‘
’’یہ بات تو ہے۔‘‘ سلیم صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’آپ کو معلوم ہوگا کہ فاروق بابا کا ایک جوان لڑکا بھی ہے‘ جس کا کبھی کبھی ذکر کرتا رہتا ہے وہ۔‘‘
’’ہاں پتا ہے‘ تو۔۔۔؟‘‘
’’کچھ عرصے پہلے فاروق بابا نے بتایا تھاکہ وہ اس کی نوکری کے لیے پریشان ہیں۔‘‘
’ہاں‘ بتایا تھا مجھے بھی۔‘‘ سلیم صاحب کچھ کچھ سمجھ رہے تھے۔ ’’بلکہ مجھ سے بھی کہا تھا کہ اسے کہیں نوکری دلوادیں۔‘‘
’’بس تو وہ اسی چکر میں نئے ڈائریکٹر کی خوشامد میں لگا ہوگا۔‘‘ امین صاحب نے اصل بات بیان کردی۔
’’ہاں ہوسکتا ہے خیر ہمیں کیا اور اچھا ہے غریب کا بھلا ہوجائے‘ ویسے بھی اب اس کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آرہے ہیں۔‘‘
’’وہ کچھ بھی کرے‘ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔‘‘ امین صاحب بڑے محتاط اور نپے تلے الفاظ کا استعمال کررہے تھے۔ ’’فکر صرف اس بات کی ہے کہ بڑے میاں خوشامد کے چکر میں ہماری اچھی بُری باتیں نئے ڈائریکٹر کو نہ بتانا شروع کردیں۔‘‘
’’یعنی مخبری۔۔۔!‘‘ سلیم صاحب کے ماتھے پر تشویش کی لکیریں نمودار ہوگئیں۔
’’جی جناب!‘‘ امین صاحب نے بھویں اچکائیں۔ ’’اب آپ کو تو پتا ہی ہے کہ یہاں سب کا ایک جیسا حال ہے‘ اوپر کی کمائی کے بغیر گزارہ مشکل ہوجاتا ہے‘ ہماری تو ویسے بھی پبلک ڈیلنگ ہے کچھ لے دے کر ہی کام کیے جاتے ہیں یہاں اگر مخبری کے نتیجے میں ہماری کمائی کا یہ ذریعہ بند ہوگیا تو پھر ہم سوکھی تنخواہ پر کیسے اپنے اخراجات پورے کریں گے؟‘‘
سلیم صاحب نے کرسی کی پشت گاہ سے کمر لگالی اور دونوں ہاتھ سر پر باندھ کر بولے۔ ’’یار! یہ تو آپ نے پریشان کردیا مجھے۔‘‘
’’پریشان نہیں‘ خبردار کیا ہے۔ ذرا بڑے میاں سے بچ بچا کر کام کرنا۔‘‘ امین صاحب یہ کہہ کر اٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب کیا ہوگا؟‘‘ امینہ بیگم نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا اور پانی کا گلاس ٹرے پر رکھ دیا۔ ’’کہاں سے ہوگا تین ہزار کا بندوبست‘ ابھی پچھلے مہینے ہی کتابوں اور یونیفارم پر اتنا خرچہ ہوگیا تھا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے‘ کچھ نہ کچھ بندوبست ہوجائے گا۔‘‘ فاروق صاحب نے پانی کا گلاس اٹھایا اور پھر اسے خالی کرکے کہا۔ ’’اس سے پہلے بھی تو اللہ نے ہمارا کوئی کام نہیں روکا‘ بے فکر رہو۔‘‘
’’آپ اپنے آفس میں بات کرکے دیکھیں کچھ رقم ادھار لینے کی بعد میں تھوڑے تھوڑے تنخواہ میں سے کٹواتے رہیں۔‘‘
’’ادھار صرف بڑے آفیسروں کو ملتے ہیں‘ ایک پیون کو بھلا کیوں ادھار ملے گا‘ ان شاء اللہ کل میں کہیں نہ کہیں سے پیسے کرلوں گا۔‘‘
’’پرسوں عمران کی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے۔‘‘ امینہ بیگم نے یاد دلایا۔
’’ابھی کل کا دن ہے ہمارے پاس۔۔۔‘‘
’’تو اب کس کے پاس جائیں گے؟‘‘
’’کسی کے پاس نہیں۔‘‘ فاروق صاحب نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی اتار کر ہاتھ میں لے لی اور کہا ۔ ’’یہ دیکھو‘ ہوگیا نا بندوبست۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ تو کیا اسے بیچ دیں گے؟‘‘ امینہ بیگم کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہوگئے
’’ہاں‘ تو کیا ہوا؟ بیٹے کی پڑھائی سے بڑھ کر تو نہیں ہے نا یہ۔‘‘
’’لیکن۔۔۔ یہ تو آپ کے والد کی نشانی۔۔۔‘‘ امینہ بیگم کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
’’شاید یہ اسی دن کے لیے اب تک میرے پاس تھی کہ میرے بیٹے کے کام آجائے‘ قیمتی گھڑی ہے میرا خیال ہے اس کے دو ہزار تو مل ہی جائیں گے باقی ہزار تو ہم ملا سکتے ہیں۔‘‘ فاروق صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’چلو اب یہ برتن سمیٹ لو‘ وقت زیادہ ہورہا ہے۔‘‘
امینہ بیگم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر پھر خاموش رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ انہیں یہ گھڑی کس قدر عزیز تھی۔ مشکل سے مشکل معاشی حالات میں بھی انہوں نے اسے فروخت نہیں کیا تھا لیکن اب وہ کتنی آسانی سے اسے فروخت کرنے کا کہہ رہے تھے۔ اس کے باوجود امینہ بیگم جانتی تھیں کہ انہیں گھڑی بیچنے کا دکھ تو ہوگا‘ دوسری طرف ان کے اکلوتے بیٹے عمران کی تعلیم کا معاملہ تھا۔ کالج کی فیس دینی تھی۔
دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی کہ عمران بڑا آفیسر بنے‘ خاص طور پر فاروق صاحب اکثر یہ کہتے تھے کہ میں تو زندگی بھر چپراسی رہا لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا آفیسر بنے۔ ان کے بیٹے عمران کو بھی اپنے والدین کی خواہش کا احترام تھا‘ اس لیے وہ دل لگا کر تعلیم حاصل کررہا تھا۔ اپنے چھوٹے موٹے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ ٹیوشنز بھی پڑھاتا تھا۔ اس نے تو کئی بار نوکری کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ باپ کا سہارا بن جائے مگر فاروق صاحب نے اسے سختی سے منع کردیا تھا۔
’’ہر گز نہیں۔۔۔ پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شوق سے نوکری کرتے رہنا‘ ابھی درمیان سے پڑھائی ادھوری چھوڑ کر نوکری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن ابو۔۔۔‘‘ عمران نے کہنا چاہا۔
’’لیکن ویکن کچھ نہیں‘ جو کہہ دیا سو کہہ دیا اگر نوکری ہی کروانی ہوتی تو اتنا پڑھانے کی ضرورت کیا تھی تمہیں‘ ابھی اگر نوکری کرنے نکلو گے تو زیادہ سے زیادہ کلرک بھرتی ہوگے‘ میں تمہیں بڑا آفیسر بنانا چاہتا ہوں بیٹا۔‘‘
باپ کی ضد کے آگے عمران نے ہمیشہ ہتھیار ڈالے تھے‘ وہ بہت دل لگا کر محنت سے تعلیم حاصل کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اسے پڑھارہے ہیں‘ وہ انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جناب! میرا کام ہوا یا نہیں؟‘‘ آنے والے جوان آدمی نے سلیم صاحب سے پوچھا۔
’’کون سا کام؟‘‘ سلیم صاحب نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ کاغذات کی الٹ پلٹ میں مصروف ہوگئے۔
’’سر! وہ جو میری فائل آپ کے پاس ہے شمشاد اینڈسنز والی۔۔۔‘‘ اس آدمی نے قدرے لجاجت سے کہا۔ ’’پندرہ دن سے چکر کاٹ رہا ہوں سر جی‘ کچھ تو کریں۔‘‘
سلیم صاحب پوری طرح ا س کی جانب متوجہ ہوگئے۔ ’’اچھا اچھا ہاں۔۔۔ یاد آگیا۔۔۔وہ والی فائل‘ آپ کو تو نوٹس بھی بھجوایا گیا تھا ٹیکس بھروانے کا۔۔۔‘‘
’’جی سر! سر اتنی تو ہماری انکم نہیں ہے جتنا ٹیکس لگا کر بھیجا گیا ہے‘ آپ کے تو ہاتھ کا کام ہے۔‘‘ وہ قدرے آگے ہوکر دبے لہجے میں بولا۔ ’’سر آپ اسے کم کرسکتے ہیں۔‘‘
’’میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ مشکل کام ہے۔ اتنی آسانی سے کم نہیں ہوسکتا‘ تمام پروسس دوبارہ کرنا ہوگا‘ نئی فائل بنے گی۔ آپ نے تو بس کہہ دیا کہ کم کردیں۔‘‘ سلیم صاحب کا لہجہ روکھا اور بے زار کن ہوگیا تھا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے سر! میں سمجھتا ہوں۔۔۔‘‘
’’سمجھتے ہیں تو پھر ضد نہ کریں بھائی! جتنا ٹیکس لکھ کر بھیجا گیا ہے وہ بھردیں۔‘‘
’’کوئی تو رستہ نکالیں سر!‘‘
سلیم صاحب نے اس بار اسے غور سے دیکھا پھر اپنے دائیں بائیں نظر ڈال کر کہا۔ ’’بیٹھیں۔۔۔!‘‘ وہ جلدی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’شکریہ سر۔۔۔!‘‘
سلیم صاحب نے گلا کھنکار کر ہلکی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’ہاں اب بتائیں‘ چلیں آپ ہی کوئی راستہ نکالیں۔‘‘ ان کا لہجہ معنی خیز تھا۔ آدمی بے وقوف نہیں تھا‘ سمجھ گیا۔ وہ راستے کی قیمت دریافت کرنے لگا۔ اپنی نشست پر بیٹھے امین صاحب ان دونوں کو دیکھ کر مسکرارہے تھے۔ اسی لمحے ڈائریکٹر کے روم سے فاروق بابا باہر آئے۔
’’سلیم صاحب یہ بڑے صاحب نے دی ہے۔‘‘ فاروق بابا نے بتایا اور ساتھ ہی ایک نظر وہاں بیٹھے شخص پر ڈالی۔
’’اچھا اچھا‘ ٹھیک ہے‘ میں دیکھ لوں گا۔‘‘ سلیم صاحب تھوڑا گھبرا گئے۔فاروق بابا چلے گئے۔
’’ہاں تو سر جی! پھرپچیس طے ہیں نا۔۔۔؟‘‘ سامنے بیٹھے آدمی نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا۔
’’کام مشکل ہے بھئی‘ بڑا رسک بھی ہے۔ میں صرف چالیس کی ڈیمانڈ کررہا ہوں۔‘‘ سلیم صاحب نے اس کی فائل کی ورق گردانی کرنا شروع کردی۔
’’آپ کو فائل مل گئی؟‘‘ اچانک ایک آواز ابھری۔
سلیم صاحب نے چونک کر سر اٹھایا اور بوکھلا کر کھڑے ہوگئے۔ سامنے نیا نوجوان ڈائریکٹر کھڑا تھا۔
’’کک۔۔۔ کون سی۔۔۔ کون سی فائل؟‘‘ وہ ہکلانے لگے۔ ان کے چہرے پر ایک دم ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔
’’ابھی فاروق بابا نے جو دی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ تو مل گئی۔‘‘
’’تو اس میں اتنا گھبرانے والی کون سی بات ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے انہیں غور سے دیکھا پھر ایک نگاہ کرسی پر بیٹھتے شخص پر ڈالی۔ ’’کوئی کام ہے آپ کو؟‘‘
’’ہاں جی! وہ میری فائل ہے ان کے پاس۔‘‘ آدمی کے منہ سے بوکھلاہٹ میں نکلا۔ ’’یہ جو سامنے رکھی ہے۔‘‘
ڈائریکٹر نے اس کی فائل سلیم صاحب کے سامنے سے اٹھائی اور ایک نظر کاغذات پر ڈال کر کہا۔
’’اس میں نوٹس کی کاپی بھی منسلک ہے‘ اب کیا پرابلم ہے؟‘‘
’’سر! میں کہہ رہا تھا کہ شاید ٹیکس زیادہ لگایا گیا ہے‘ اسے ذرا دیکھ لیں۔‘‘
’’اس کے اندراج تو بتارہے ہیں کہ تمام فیگرز درست ہیں۔‘‘ڈائریکٹر نے فائل کا دوبارہ جائزہ لیا۔ ’’آپ کو اس میں درج ٹیکس کی ادائیگی کرنی ہوگی۔‘‘ پھر وہ سلیم صاحب کی طرف مڑا۔ ’’یہ فائل آپ نے مجھے تو نہیں دکھائی؟ کب سے ہے یہ آپ کے پاس؟‘‘
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔‘‘ سلیم صاحب کے تو چھکے چھوٹ گئے۔‘‘
’’اسے ایک ہفتہ ہوا ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے آدمی سے پوچھا۔
’’جی نہیں سر! پندرہ دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔‘‘ بے اختیار آدمی نے سچ بول دیا۔
ڈائریکٹر نے خاموش نظروں سے سلیم صاحب کو گھورا اور فائل لے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں نے کہا تھا ناکہ ہوشیار رہنا۔‘‘ امین صاحب دبے لہجے میں بول رہے تھے۔ ’’لگتا ہے کہ یہ مخبری فاروق بابا نے کی ہے۔‘‘
’’بڑا بے عزت کیا تھا ڈائریکٹر نے اپنے روم میں بلا کر۔‘‘ سلیم صاحب مری مری آواز میں بتانے لگے۔
’’ظاہر ہے‘ وہ تو کرنا تھا۔ ایک اہم بات بتاؤں میں آپ کو؟‘‘ امین صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا۔ ’’کل اتفاق سے میں چھٹی کے بعد بھی دیر تک آفس میں موجود تھا پھر میں نکل کر بس اسٹاپ پر کھڑا بس کا انتظار کررہا تھا تو میں نے ڈائریکٹر کو کار میں جاتے دیکھا‘ پتا ہے اس کے ساتھ کون بیٹھا تھا۔‘‘
’’کون۔۔۔؟‘‘ سلیم صاحب نے نظریں اٹھائیں
’’یہی آپ کے فاروق بابا۔۔۔‘‘ امین صاحب نے مسکرا کر بتایا۔
’’اچھا تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے۔‘‘ سلیم صاحب نے آنکھیں پھاڑیں۔ ’’اتنا شیشے میں اتار لیاہے اس پیون نے ڈائریکٹر کو۔‘‘
’’دیکھ لیں‘ آخر کام بھی تو نکلوانا ہے نا۔‘‘
اتنے میں انہوں نے فاروق بابا کو ڈائریکٹر کے روم سے ٹرے لے کر نکلتے دیکھا‘ جس پر چائے کا کپ رکھا تھا۔ امین صاحب نے فاروق بابا کو آواز دی‘ وہ ان کے پاس آگئے۔
’’جی جناب؟‘‘ فاروق بابا نے مؤدبانہ لہجے میں پوچھا۔
’’بابا! چائے تو پلادیں ہمیں‘ ہم بھی اس آفس میں کام کرتے ہیں۔ جب سے نیا ڈائریکٹر آیا ہے‘ آپ نے تو ہمیں منہ لگانا ہی چھوڑ دیا ہے۔‘‘ امین صاحب کے لہجے میں طنز نمایاں تھا۔ فاروق بابا نے چونک کر انہیں دیکھا پھر آہستگی سے کہا۔
’’میں ابھی لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑے۔
’’ایک منٹ بابا!‘‘ امین صاحب نے انہیں روکا۔ فاروق بابا مڑ کر انہیں دیکھنے لگے۔ ’’ایک بات پوچھنی تھی آپ سے؟‘‘
’’کون سی بات؟‘‘
’’آپ نئے ڈائریکٹر کے ساتھ آفس آتے جاتے ہیں اس کی گاڑی میں؟‘‘ امین صاحب نے گال کھجاتے ہوئے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مزید کہا۔ ’’میں نے دیکھا تھا آپ کو اس کے ساتھ گاڑی میں۔‘‘
فاروق بابا کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گئے۔
’’وہ۔۔۔ کل انہوں نے زبردستی بٹھالیا تھا‘ ورنہ میں تو بس میں آتا جاتا ہوں۔‘‘
’’اوکے! بس یہی معلوم کرنا تھا۔‘‘ امین صاحب مسکرادیئے۔ فاروق بابا چلے گئے۔
’’دیکھا‘ صحیح کہا تھا نا میں نے؟‘‘
’’یار امین صاحب! مجھے تو لگتا ہے یہ بڈھا مخبریاں کرتا رہے گا اور ڈائریکٹر ہمیں کھانے کمانے نہیں دے گا۔‘‘ سلیم صاحب مری مری آواز میں بول رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’امی۔۔۔‘‘ عمران اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آیا جہاں امینہ بیگم کولر میں پانی بھررہی تھیں۔ ’’یہ آج کل ابو اتنی دیر میں کیوں آرہے ہیں؟ ان کی چھٹی تو شام میں ہوجاتی ہے۔‘‘
’’کام زیادہ ہے نا آفس میں۔‘‘ امینہ بیگم نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’اس لیے رکنا پڑتا ہے۔‘‘
عمران ان کے نزدیک آیا اور کولر اٹھا کر باورچی خانے میں رکھ دیا پھر باہر آکر بولا۔
’’امی! آپ کچھ چھپا رہی ہیں‘ سچ سچ بتائیں؟‘‘
’’میں کیوں چھپانے لگی‘ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔‘‘ وہ پلنگ پر بیٹھ گئیں۔ ’’ایک تو گرمی میں کمروں کے اندر بیٹھا نہیں جاتا۔‘‘ وہ دوپٹے سے ہوا جھلنے لگیں۔ عمران نے اپنے کمرے میں سے پیدسٹل فین لاکر صحن میں رکھ دیا اور خود بھی پلنگ پر آبیٹھا۔
’’ اب بتائیں امی! کیا بات ہے؟ دیکھیں جب تک آپ صحیح بات نہیں بتائیں گی‘ میرا پڑھائی میں دل نہیں لگے گا۔‘‘
امینہ بیگم نے سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور آہستگی سے بولی۔
’’بیٹا! بولنا نہیں اپنے ابو سے انہوں نے منع کیا تھا مجھے کہ تمہیں نہ بتاؤں۔‘‘
’’وعدہ! میں انہیں نہیں بتاؤں گا۔‘‘
’’اصل میں۔۔۔‘‘ امینہ بیگم نے اٹک اٹک کر بتانا شروع کیا۔ ’’وہ تمہاری یونیورسٹی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں نا انہیں۔۔۔ انہیں پورا کرنے کے لیے وہ ایک جگہ اور جاتے ہیں نوکری کرنے۔۔۔ چار گھنٹے دیتے ہیں ‘ تھوڑے پیسوں کا آسرا ہوجاتا ہے مگربیٹا! تمہیں میری قسم‘ انہیں کچھ نہ بولنا ورنہ۔۔۔ ورنہ وہ مجھ سے سخت ناراض ہوجائیں گے۔‘‘
عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔وہ چند لمحے اپنی ماں کو دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’فاروق بابا۔۔۔‘‘ سلیم صاحب نے زور سے آواز دی۔ ان کی آواز پر آفس کے لوگ چونک کر انہیں دیکھنے لگے۔ فاروق بابا تیزی سے ان کی جانب آئے۔
’’جی سر۔۔۔ جی؟‘‘ فاروق بابا نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
’’یہاں کی صفائی کس کی ذمہ داری ہے میری یا آپ کی؟‘‘ سلیم صاحب کاٹ کھانے کو دوڑے۔
’’میری ہے سر!‘‘
’’تو پھر یہ ٹیبل دیکھیں میری۔۔۔ اس کی صفائی کیا میں آکر کیا کروں روزانہ؟‘‘ انہوں نے ٹیبل کی ٹاپ پر انگلی پھیر کر بتایا۔
’’سر میں روز آکر سب سے پہلے تمام ٹیبل صاف کرتا ہوں۔‘‘ فاروق بابا کا رنگ ہلکا پڑگیا تھا۔
’’پتا نہیں کیسی صفائی کرتے ہیں‘ بس ایک ہلکا سا کپڑا مارنے کو صفائی نہیں کہتے۔ ذرا ہاتھ جما کر صاف کیا کریں۔‘‘ سلیم صاحب اپنے اندر کا دبا غصہ ان پر اتار رہے تھے۔
’’کیا ہوگیا سلیم صاحب! آرام سے۔۔۔ آرام سے۔۔۔ اس میں اتنا غصہ کرنے والی بات کون سی ہے۔‘‘ امین صاحب اور دیگر افسر وہیں ان کے پاس آگئے تھے۔ ’’اب ان بے چارے فاروق صاحب کے جسم میں جتنی طاقت ہوگی اتنا ہی کریں گے نا۔‘‘
’’جب نہیں ہوتا کام تو گھر بیٹھ جائیں‘ کسی نے زبردستی تو نہیں کہا نا کام کا۔‘‘
’’ارے صاحب! اب تو یہ بے چارے ویسے ہی ریٹائر ہونے والے ہیں‘ کچھ دنوں کی بات ہے۔‘‘ امین صاحب بڑی چالاکی اور غیر محسوس طریقے سے فاروق بابا کی حمایت کررہے تھے۔ ’’چلیں چھوڑیں‘ صبح صبح غصہ نہ کریں‘ جائیں بابا! آپ چائے پلادیں ہمیں۔‘‘
اس لمحے ڈائریکٹر وہاں داخل ہوا تھا۔ اس نے لوگوں کو سلیم صاحب کی ٹیبل کے پاس دیکھا تو وہاں چلا آیا۔
’’خیریت تو ہے نا؟‘‘ اس نے فاروق بابا اور پھر امین صاحب کو دیکھا‘ وہ ان کے نزدیک تھے۔
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔‘‘ کسی کے بولنے سے قبل فاروق بابا بول پڑے۔
’’کچھ نہیں سر! وہ بس سلیم صاحب کو فاروق بابا سے تھوڑی شکایت ہوگئی تھی کہ ان کی ٹیبل ٹھیک سے صاف نہیں کی۔‘‘ امین صاحب نے عام سے انداز میں کہا۔ سلیم صاحب نے انہیں گھور کر دیکھا۔
’’جی سلیم صاحب! یہ ٹھیک بات ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے سلیم صاحب سے استفسار کیا۔
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ بس مجھے ایسا لگا تھا ورنہ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔‘‘ سلیم صاحب گڑبڑا گئے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ صفائی تو روز کی طرح ٹھیک ہوئی تھی‘ بس انہیں تو غصہ نکالنا تھا۔
’’سر میں آئندہ خیال رکھوں گا۔ ‘‘ فاروق بابا آہستہ سے بولے۔ ’’مجھ سے کوتاہی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’اوکے ! سلیم صاحب کی ٹیبل ٹھیک طرح سے صاف کردیا کریں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈائریکٹر اپنے روم میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ آفس میں آج یہ چھوٹی سی پارٹی کس لیے رکھی گئی ہے؟‘‘ ڈائریکٹر بول رہا تھا۔ بڑے ہال میں آفس کے تمام افراد جمع تھے۔ بڑی ٹیبل پر کھانے پینے کی بہت سی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ ’’آج اس آفس کے پرانے خدمت گار فاروق بابا کا آخری دن ہے۔ اب وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ مجھ سے زیادہ بہتر آپ لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے کتنی محنت اور لگن سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور برسوں تک اس آفس کے لوگوں کی خدمت کی۔ آج میں آپ کو فاروق بابا کے بارے میں وہ بات بتانے جارہا ہوں جو آپ میں سے کوئی نہیں جانتا۔‘‘
تمام افراد خاموشی سے ڈائریکٹر کو دیکھ رہے تھے۔ فاروق بابا کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ انہوں نے کچھ کہنا چاہا تو ڈائریکٹر نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بولنے سے روک دیا لیکن سلیم صاحب درمیان میں بول اٹھے۔
’’میں جانتا ہوں کہ آپ ان کے بارے میں کیا بتانے والے ہیں۔‘‘ ڈائریکٹر نے ایک نظر انہیں دیکھا او رمسکرا کر بولے۔
’’لیکن سلیم صاحب! دوسرے افراد نہیں جانتے۔ میں انہیں بتادوں کہ فاروق بابا کا تعلق ایک غریب طبقے سے ہے۔ان کا ایک بیٹا ہے‘ فاروق بابا کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آفیسر بنے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اچھی تعلیم دی‘ اچھے اسکول اور کالج میں پڑھایا۔ اس کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے‘ بہت سی قربانیاں دیں‘ خواہش یہی تھی کہ وہ ان کی طرح پیون نہ بنے۔‘‘ اتنا کہہ کر ڈائریکٹرچند لمحوں کے لیے رکا۔ اس وقت سلیم صاحب دوبارہ بول پڑے۔
’’مجھ سے بھی فاروق بابا نے کچھ عرصہ پہلے اپنے بیٹے کے لیے نوکری کا کہاتھا۔‘‘
’’جانتا ہوں۔‘‘ ڈائریکٹر نے سر ہلایا۔ ’’انہوں نے آپ سے ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں سے کہہ رکھاتھا لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔‘‘
’’سر جی! رہنے دیں۔۔۔ جانے دیں اس بات کو۔‘‘ اچانک فاروق بابا کی آواز ابھری۔ ڈائریکٹر ان کی طرف مڑا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اب آپ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں‘ اب میں آپ کا سر جی نہیں۔۔۔ بیٹا ہوں ابو! آپ کی قسم کو میں نے پورا کیا ہے۔‘‘
کیا۔۔۔؟‘‘ ہال میں تحیر خیز آوازیں گونجیں۔ لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے۔
’’جی ہاں۔۔۔ فاروق بابا میرے والد ہیں اور میں ہی ان کا وہ بیٹا ہوں‘ جس کے بارے میں میں نے ابھی بتایا تھا۔‘‘ ڈائریکٹر نے بات آگے بڑھائی۔ ’’انسان چاہے کچھ بھی کرلے‘ ہوتا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔ میرٹ پر میری سلیکشن ہوگئی‘ جب کہ اس نوکری کو حاصل کرنے کے لیے لوگ لاکھوں روپے دینے کو تیار تھے۔ میں نے ڈیوٹی جوائن کرتے ہی اپنے والد سے کہا کہ اب وہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے سختی سے انکار کردیا اورکہا کہ جس نوکری کی وجہ سے پیسے کما کرمیں نے تمہیں تعلیم دلوائی اور اس مقام تک پہنچایا میں اس سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔ یہ میرے لیے نوکری نہیں عبادت ہے‘ ساتھ ہی یہ بھی قسم دی کہ میں آفس میں کسی کو نہ بتاؤں کہ ہمارا رشتہ کیا ہے۔ آفس میں تم میرے آفیسر رہوگے‘ میں ان کی قسم کے آگے مجبور ہوگیا تھا۔ یہ مجبوری آج ختم ہوچکی ہے۔ میرے ابو کو یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ وہ میرے ساتھ گاڑی میں آیا کریں یا واپس گھر جائیں‘ کبھی کبھی میں زبردستی انہیں گاڑی میں یہ کہہ کر بٹھالیتا تھا کہ اب تو ڈیوٹی ٹائم ختم ہوچکا ہے‘ آپ مجھے گناہ گار نہ کریں۔ آخری بات یہ کہ انہوں نے مجھ سے کبھی کسی کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔‘‘
سلیم صاحب‘ امین صاحب اور دیگر افراد منہ کھولے یہ سب سن رہے تھے۔ یہ سب ان کے لیے حیرت انگیز واقعہ تھا۔ سلیم صاحب شرمندگی کے مارے زمین میں گڑھے جارہے تھے۔ اب ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی باقی نہ رہی تھی کہ وہ فاروق بابا جیسی عظیم ہستی سے معافی مانگ لیں۔
اہم بلاگز
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...