یہ کیسی روشن خیالی ہے

خدارا! ہوش کے ناخن لیں۔اُستاد کے مقام ومرتبہ کا پاس رکھیں، دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور قلم اس میں غوطہ زن ہے۔میں حیران و پریشان ہوں کہ پاک وطن کی باشعور اور انتہائی سمجھ بوجھ کا دعویٰ کرنے والی عوام کس ڈگر پر چل رہی ہے۔
ایسی ذہین وفطین قوم کی سوچ وعمل پہ میرا قلم ماتم کناں ہے –
لب و لہجے ہی فقط رسیلے ہوتے ہیں
جبکہ اندر سے لوگ زہریلے ہوتے ہیں
یہ قوم آخر ایسا کیوں کر رہی ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی جڑیں اکھاڑ رہی ہے جس کا خسارہ ناقابلِ تلافی ہے -خدارا! ہوش کے ناخن لیجئیے ….اپنے غفلت میں ڈوبے ضمیروں کو مزید تھپکیاں نہ دیں -آج کے ظاہری ترقی یافتہ اور باطنی پست ذہنیت,تنگ نظری کے دور میں ہر ذی روح بس ایک دوسرے کی اندھی تقلید میں اپنے ذہن کی غلاظت اور زبان کے نشتر اس مقدس ہستی کو چبھو رہا ہے جس کا مقام اسلام میں افضل و مکرم ہے -جسے قابل عزت واحترام کا درجہ دیا گیا جس کی وجہ سے یہ کائنات ہم پہ آشکارا ہوئی آج ہم ہر طرف سے روشنیوں میں گھرے ہیں اسی ہستی کی محنت کا نتیجہ ہے-میرادل اس ہستی کے مقام ومرتبہ پر مچل رہا ہے جس طرح کا سلوک آج کے دور میں رواں رکھا جا رہا ہے -اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا تو میرے کریم مشفق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا:”انما بعثت معلماً ”ترجمہ!(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے) -یہ پیشہ اتنا مقدس نہ ہوتا تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں تاکید کرتے کہ اے لوگو! حصول رزق کے لیے دو پیشے اختیار کرو! ” تاجر بن جاؤ یا معلم ”اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے بہترین پیشوں میں سے ایک بہترین پیشہ مُعلم (استاد) کا ہے-حدیث مبارکہ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے وہ شخص بہترین ہے جو علم سیکھے اور دوسروں کو سیکھائے” –
مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ایک اُستاد کو محبت اور احترام دینے کی بجائے اس کی تذلیل کی جارہی ہے -ہر طرف سے اُستاد کی ذات پہ کیچڑ اچھالا جا رہا ہے -ہر شخص اُستاد کی طرف انگلی اٹھا رہا ہے (لیکن ایسا شخص کیوں بھولے بیٹھا ہے کہ جب میں کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاتا ہوں تو میری تین انگلیاں میری طرف اشارا کرتی ہیں اور اس کی اصلیت دکھاتی ہیں کہ ذرا اپنی فکر کر اپنی اصلاح کر مصلح نہ بن)-میرے وطن کی نام نہاد روشن خیال قوم اُستاد کی تذلیل و تکذیب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی… اب تو یہ حال ہے کہ جہاں دو افرادآپس میں بات کررہے ہو وہاں وہ اُستاد کی برائی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں – ہروہ شخص جو کسی بھی سرکاری یا نجی شعبے میں ملازم ہے وہ اُستاد کے خلاف ہی بھڑاس نکال رہا ہے -جب کسی کو یہ پتہ چلتا ہے کہ فلاں ابن فلاں اُستاد ہے تو وہ اظہارِ تعزیت یوں کرتا ہے کہ:” بھئی اس کی تو موجیں ہیں وہ تو فارغ رہنے کی تنخواہ وصول کرتا ہے وہ سکول میں پڑھاتا نہیں ہے بس وقت گزار کے آ جاتا ہے اور پھر یہ افواہ پھیلانا فرض عین سمجھا جاتا ہے ”-اب گرمیوں کی چھٹیاں ہیں تو دل جلے صاحبان یوں کہہ رہے ہیں کہ:” کسی کو اس کے خراب حلیے اور بکھرے بالوں کی وجہ سے غریب مت سمجھو ہو سکتا ہے وہ استاد ہو اور اسے چھٹیاں ہوں،اور کچھ نے یوں کہا:”ہجر کے ماروں سے زیادہ اجڑی حالت گرمیوں کی چھٹیوں میں اساتذہ کی ہوتی ہے ” اللہ سے ڈرو اپنی عاقبت کی فکر کرو،مکافات عمل کی چکی چلتی تو بہت آہستہ ہے مگر پیستی بہت باریک ہے – جہاں کہی کسی گلی،چوراہے یا کسی راستے کہ موڑ پہ اُستاد سے ٹکرا ہو جائے تو اُستاد کو کم تر سمجھتے ہوئے حسد کی آڑ میں ناک بو چڑھایا جاتا ہے -لوگ کیوں یہ بھولے بیٹھے ہیں کہ کسی مسلمان کی دل آزاری کرنا گناہ ہے۔ اسلام نے سختی سے منع کیا ہے- قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ: ”کوئی عورت دوسری عورت کا, کوئی مرد دوسرے مرد کا اور کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے ہو سکتا ہے وہ تم سے بہتر ہو”-آج کے نام نہاد کلمہ گو اپنے آپ کو اعلیٰ وارفع سمجھنے والے اُستاد کو ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں رہے -ایسے لوگوں کے لیے قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ:”اور جو لوگ مسلمان مرد اور عورت کو ستاتے ہیں بغیر کچھ کیے بے قصور تو انہوں نے (اپنی گردنوں پر) جھوٹ اور کھلم کھلے گناہ کا بوجھ لیا ”-کیا مرد اور عورت اُستاد کی صف میں شامل نہیں ہے؟؟؟میرا ان لوگوں سے دردمندانہ اور انتہائی عاجزانہ سوال ہے کہ کیا وہ استاد کی رہنمائی کے بغیر ہی اس عہدے پہ پہنچ گئے ہیں کیا وہ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی سب کچھ سیکھ اور سمجھ کے آئے تھے؟؟؟ مجھے اس کا جواب دیں یا پھر اُستاد کے خلاف بولنا بند کریں،اپنی زبانیں،اپنے ہاتھ اپنے قابو میں رکھیں اور اپنے ذہنوں کو پاک کریں -اُستاد کو عزت وتکریم دیں،اُستاد سے عقیدت رکھے نہ کہ حسد اور رقابت…. اگر اُستاد کی محنت اور اُستاد کی جانفشانی کا صلہ نہیں دے سکتے ہوں تو پھر تمہیں ایسا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم لوگ اُستاد کے خلاف شر پھیلاؤ اور اُس کے راستے تنگ کرو …کوئی عام شخص ہو یا کھوکھلی عزت کا دعوے دار ہو,سوشل میڈیا ہوں یا پرنٹ میڈیا ہر کوئی اُستاد کی تذلیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے اور شاید اس کام میں ہی اپنی اخروی نجات سمجھتا ہے -اُستاد کا بحیثیت مُعلم ہونے کے جرم میں مذاق اُڑایا جاتا ہے اس کے خلاف طرح طرح کی پوسٹیں کی جارہی ہے اور بے عقل عوام اس سے اپنی تسکین حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہے – اب تو ایسے حالات ہوچکے ہیں جس اُستاد سے پڑھنالکھنا سیکھا ہے اس کی بھی عزت نہیں کی جاتی کجا کہ تمام اساتذہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا -اسلامی تاریخ میں یہ بات سنہری حروف کی طرح رقم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا کہ:”جس شخص نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا ہے وہ میرا استاد ہے ”اللہ اکبر! اور آج پوری پوری کتابیں پڑھا دی جاتی ہیں سلیبس تک ختم کروایا جاتا ہے یہاں تک بہت اچھے عہدے تک،ایک باوقار ملازمت کے حصول میں رہنمائی اور مدد کی جاتی ہے لیکن افسوس اُستاد کا نام بھی عزت سے لینا گوارا نہیں کرتے ہیں یہ کیسی روشن خیالی ہے؟؟؟

حصہ

1 تبصرہ

  1. Boht acha article likha ap ne boht psnd Aya he hmy Allah pak apko kamyab kry or asy hi promotion ho apki my best wishes for u always till the end of my life

جواب چھوڑ دیں