اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ اختلافِ رائے گفتگو کے حُسن کو چار چاند لگا کرمزین کر دیتی ہے بشرطیکہ دورانِ گفتگو باہمی ادب و آداب کاخاص خیال رکھا جائے،صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے،کسی سُرخ لکیر کو عبورکرنے سے گریز کیا جائے۔یہ روایت کبھی اُمتِ محمدیہ ﷺ کا خاصہ ہوا کرتی تھی جسے آج صرف “مہذب معاشروں ” نے اپنا کر برقرار رکھا ہوا ہے۔۔۔صد افسوس!!!
پاکستان میں جمہوریت کے مغنیوں کا طرزِ سیاست بد سے بتر ہوتا چلا جا رہا ہے گذشتہ ایک دہائی سے مذہبی اصطلاحات کا بے دریغ،بلکہ جاہلانہ استعمال کیا جارہا ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جو قابل شرم ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ مذمت ہے اور ناقابلِ برداشت بھی۔ قارئین کویقیناً یاد ہوگا کہ نغمہ خوانوں کا یہی ٹولہ مختلف ٹی وی پروگراموں میں کبھی اپنے سیاسی جماعت کے سربراہ کو حضرت سیدنا عمر ؓ سے تشبیہ دیتا نظر آیا، کوئی اپنے دورِ حکومت کو خلافت راشدہ کا دورثابت کرتا ہوا پایا گیا، کبھی کوئی اپنی جہالت یا کم علمی کے باعث صحابہ کرام ؓ و اہل ِ بیت اطہارؓ کی تو ہین کرتااور لبرل ازم کی آڑ میں شعائر اسلام کی دھجیاں بکھیرتاہوا دکھائی دیا بلکہ یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ ٹولہ خود کو “حُسینی ” اوراپنے مخالفین کو ” یزیدی” گردانتا رہا۔
ایسا ہی ایک منظر گذشتہ روز ہمیں ایک نجی نیوز چینل کے ایک مذاکرے میں دیکھنے کو ملا جب پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی انتہائی ذمہ داراور سیاسی رہنما محترمہ شہلا رضا صاحبہ نے وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران خان کے ایک بیان پرتنقیدی تبصرہ کرنے کے دوران انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابی رسولؐ،کاتب وحی، محب اہل بیت ؐ، امیر المومنین حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس و مکرم ذاتِ مبارکہ اور آپ ؓ کے سُنہری اسلامی دورِ خلافت پر بے رحمانہ طنز و تشنیع کے نشتر برساڈالے اُن کا یہ عمل دانستہ تھا یا غیر دانستہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بخوبی جانتی ہے یا محترمہ خود،لیکن اُن کے اندازِ بیاں اِسے عملِ دانستہ قرار دیتے دکھائی دے رہے تھے۔ اُن کے متنازع بیان کے بعدسماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارمز پر دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ عوام الناس نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کیااور اسے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے مترادف قرار دیااِن کے نزدیک محترمہ نے یہ عمل کر کے مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو پھیلانے اور مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس پر نیشنل ایکشن پلان کوحرکت میں آنا چاہئے اس تمام تر ردعمل کے پیش ِ نظرمحترمہ شہلا رضا صاحبہ نے اپنے متنازع بیان کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں فرمائی:
“گذشتہ روز ٹی وی پروگرام میں، میں محض عمران خان کے ایک بیان کی طرف اشارہ کر رہی تھی اِس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں تھی میں تمام مقدس شخصیات اور نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ کی عزت و عظمت پر یقین رکھتی ہوں۔”
شہلا رضا کی وضاحت مقتدر دینی حلقوں کو مطمئن نہ کر سکی علماء کرام کا مطالبہ ہے کہ محترمہ کو ٹی وی پر آکراپنے اس عمل پرتوبہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے باقائدہ معافی مانگی چاہئے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرانی چاہئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا بار بار کیوں ہوتا ہے؟کیوں انہیں اپنی ناعاقبت اندیشی کے سبب ایسے نامناسب حالات سے گزرنا پڑتا ہے؟ اس کا جواب جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ پاکستان میں موجود یہ سیاسی طبقہ دین سے مکمل طور پر نا آشنا ہے انہوں نے جتنا وقت دنیائے سیاست کو دیا ہے اگر اس کا ایک چوتھائی دین کے لئے صرف کر لیتے تو آج نہ انہیں اپنی جہالت کے سبب یوں شرمندگی اُٹھانی پڑتی۔یہی وجہ ہے کہ آج فریقِ مخالف ان کے لیڈرکو ” صاحبہ ” کہہ دیں (جو قابل اعتراض لفظ بھی نہیں) تو وہ اُسے یہ اپنے لیڈران کی “شان” میں بد ترین گستاخی تصور کر کے آسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں، مخالفین کو “تمیزسکھانے ” بیٹھ جاتے ہیں، گلی گلی احتجاج کرتے پھرتے ہیں اس کی مخالفت میں قراردادیں منظور کراتے پھرتے ہیں لیکن جب با ت ہوتی ہے اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کی، محمد رسول اللہ ﷺ کے جانثاران ؓ کی یا آلِ و ازواجِ مطہرات ؓ کی دانستہ یا غیر دانستہ بے ادبی یا گستاخی کی تو اُسے آئی گئی کر دیا جاتاہے اقبال نے بلکل ٹھیک ہی کہا تھا “جدا ہو دیں سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی “۔
دین سے نا بلد یہ لوگ جانے اس کی حساسیت کو کیوں نہیں سمجھتے؟؟ حضور یہ دین کا معاملہ ہے اس میں احتیاط برتنی چاہئے زبانوں کو یو ں بے لگام نہیں چھوڑا جاتا ماضی قریب میں پاکستان اسی فرقہ واریت کی آگ میں جھلس کر رہ گیا تھا بے شمار شہدا ء نے اپنے خون سے اس آگ کو بجھایا۔دین و ملت کے دشمن آج بھی ایسی ہی کسی “غلطی” کے انتظار میں ہیں کہ کب ایسے موقع کا فائدہ اُٹھایا جائے اور ملک کو دوبارہ اسی آگ میں ڈال دیا جائے۔میری پاکستان کے سیاسی طبقے سے دست بستہ یہ گزارش ہے کہ خدارا، خدارا!!! اپنی اپنی جماعت کی نمائندگی کرنے والوں کو کم از کم اس ایک معاملے پرضرور باور کرائیں کہ مذہبی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں اور اگرکوئی کسی موقعہ پر اسے بطور مثال یا دلیل کے پیش کرنا چاہتا ہے توانتہائی احتیاط سے کام لیں۔
تحریرکے اختتام سے قبل میں اگریہاں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب کوبیان نہ کروں تو یقیناً یہ ناانصافی ہوگی۔حضرت امیر معاویہ ؓ کا شماراُن جلیل القدر صحابہؓ میں ہوتا ہے جو شمع رسالت ؐ کے انتہائی قریبی پروانے سمجھے جاتے تھے احادیث شریف میں آتا ہے رسول اللہ ﷺ کے 13 کاتبین تھے جن کے ذمے آپ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی سے لے کر آپ ﷺ کے خطوط ومراسلہ جات تک کی نگرانی اور ترسیل کا کام تھا اِن تیرہ کاتبین میں سب سے زیادہ درجہ حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کا تھایہ دونوں حضرات دن رات سرکارِ دوعالم ﷺ کے ساتھ لگے رہتے تھے اور اس کے سوا کوئی اور کام نہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کاتبانِ وحی کی شان میں سورۃ عبس کی پوری ایک آیت فی صحف مکرمۃ سے لے کر،کرام بررۃ نازل فرمائی جس کا مفہوم ہے: قرآنی صحیفے بہت معزز اور بلند درجے والے اورپاکیزہ ہیں اوراِس کے لکھنے والے چمکتے ہوئے ہاتھوں والے اور بہت زیادہ عزت والے ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ جب خطبہ دینے تشریف لا رہے تھے تب آپ ﷺ کی اُونٹنی پر سیدنا معاویہ ؓ آپ ﷺ کے ساتھ سوار تھے اُم المومنین حضرتِ اُم حبیبہ ؓ آپؓ کی بہن اور رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں اور اِسی نسبت سے آپ ؓکو “عم الامۃ” یعنی اُمت کے ماموں کہا جاتا ہے۔ حضرتِ اُم حبیبہؓ اپنے بھائی ؓ سے بے حد پیار کرتیں تھیں ایک بار آپ ؓ اپنی بہن ؓ کی گود میں سر رکھ کر سہلا رہیں تھیں کہ اچانک رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے آپ نے جب یہ منظر دیکھا تو اُم المومنین ؓ سے فرمایا کہ کیا تم اپنے بھائی کو اپنا محبوب رکھتی ہو؟ آپ ؓ نے فرمایا کیوں نہیں! بھلا ایسی کون سی بہن ہو گی جو اپنے بھائی کو محبوب نہ رکھتی ہو، یہ سُن کر آپ ﷺ مُسکرا کر فرمانے لگے اے اُم حبیبہ ؓتجھے مبارک ہو اللہ اور اُس کا رسول ﷺ بھی معاویہ ؓ کو محبوب رکھتے ہیں۔
حضرت سیدنا عثمان ذی النورین ؓ کی مظلومانہ شہادت کے موقع پر جب آپ ؓ کا امیر المومنین سیدناحضرت علی ؓ سے اختلاف ہوتوروم کے بادشاہ نے ان دونوں کے اختلاف کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جب حضرت امیر معاویہؓ کو پتہ چلا تو آپؓ نے روم کو بادشاہ کو جو خط لکھا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے” اے رومی کتے! اگر تو نے قتلِ عثمان ؓ پر میرے بھائی علی ؓسے میرے اختلاف کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی تویاد رکھ! علی ؓ کی فوج سے تیرے خلاف جس سپاہی کا تیر سب سے پہلے نکلے گا اُسکا نام معاویہ ؓ ہوگا”
تحریر کے آخر میں قارئین بالخصوص پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی خدمت میں نبی کریم ﷺ کی ایک وعید پیش کر نا چاہتا ہوں کہ نمازِ جمعہ سے قبل پڑھے جانے والے خطبے میں ہم سُنتے ہیں “اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخضوھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبحبی احبھم ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم ” اس حدیث کاترجمہ ہے کہ اللہ کے لئے، اللہ کے لئے میرے صحابہؓ پر طعن و تشنیع کے نشتر مت برسانا، جس نے اُن سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی جس نے اُن سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا۔
65 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
Hey outstanding blog! Does running a blog such as this take a large amount of work?
I have absolutely no expertise in coding but I had
been hoping to start my own blog soon. Anyways, if you have any ideas or techniques for new blog owners please share.
I know this is off subject nevertheless I simply wanted to ask.
Thanks a lot!
I’ve been browsing online more than three hours today, yet I never found any interesting article like yours.
It is pretty worth enough for me. Personally, if
all website owners and bloggers made good content as you did, the
internet will be a lot more useful than ever before.
Howdy are using WordPress for your site platform? I’m new to the blog world but I’m trying to get started and set
up my own. Do you require any html coding expertise to make your own blog?
Any help would be greatly appreciated!
Fantastic post however I was wanting to know if you
could write a litte more on this subject? I’d be very thankful if you could elaborate a little bit
further. Kudos!
Hi, I check your blog daily. Your writing style is witty, keep up the good work!
I pay a visit daily a few web pages and sites to read posts, except this web site
presents feature based content.
If you would like to obtain much from this post then you have
to apply these strategies to your won website.
My brother recommended I would possibly like this website.
He used to be totally right. This submit actually made my day.
You cann’t believe just how much time I had
spent for this info! Thanks!
Piece of writing writing is also a excitement, if you be familiar with after that you can write otherwise it is complex to write.
Thanks for your personal marvelous posting! I actually enjoyed reading it, you can be a great author.
I will ensure that I bookmark your blog and will eventually come back from
now on. I want to encourage that you continue your great posts,
have a nice afternoon!
I blog quite often and I really thank you for your information. This article has truly peaked my interest.
I will bookmark your site and keep checking for new details about once per
week. I opted in for your RSS feed too.
No matter if some one searches for his required thing, therefore he/she needs to be available that in detail, therefore
that thing is maintained over here.
It’s remarkable in support of me to have a web site,
which is beneficial designed for my know-how.
thanks admin
Way cool! Some extremely valid points! I appreciate you writing this
write-up and also the rest of the website is very good.
Someone essentially assist to make seriously articles I might state.
This is the first time I frequented your web page and up to now?
I amazed with the research you made to make this actual publish extraordinary.
Wonderful job!
We stumbled over here different web address and thought I may as well check
things out. I like what I see so now i’m following you. Look forward to going over your web
page again.
I got this site from my pal who shared with
me about this site and now this time I am visiting this website and reading very informative content at this place.
What’s up i am kavin, its my first occasion to commenting anywhere, when i read this
piece of writing i thought i could also make comment due
to this brilliant paragraph.
Hey! I just wanted to ask if you ever have
any problems with hackers? My last blog (wordpress)
was hacked and I ended up losing several weeks of hard work due to no data backup.
Do you have any methods to protect against hackers?
I’m not that much of a online reader to be honest but your blogs really nice, keep it up!
I’ll go ahead and bookmark your site to come back down the road.
All the best
Good replies in return of this matter with real arguments and describing the whole thing
about that.
Hello, yes this article is actually pleasant and I have learned lot of things from it regarding blogging.
thanks.
Pretty part of content. I just stumbled upon your weblog and in accession capital to say that I get actually loved account your
blog posts. Any way I will be subscribing on your feeds or even I
fulfillment you get admission to consistently fast.
If you would like to take much from this piece of writing then you have to apply
such strategies to your won blog.
Hey! Someone in my Myspace group shared this website with us so I
came to check it out. I’m definitely enjoying the information. I’m bookmarking and will be tweeting this to my followers!
Excellent blog and superb design.
I was suggested this web site by my cousin. I am not sure whether this post is written by him as nobody else
know such detailed about my trouble. You’re amazing!
Thanks!
I every time emailed this webpage post page to all my associates,
as if like to read it next my links will too.
Every weekend i used to pay a visit this web page, because i wish for enjoyment, as this this web site conations in fact fastidious funny stuff too.
I like the helpful info you provide for your articles.
I’ll bookmark your blog and take a look at again right here regularly.
I am reasonably sure I will be informed a lot of new stuff proper right here!
Best of luck for the next!
What’s up, constantly i used to check weblog posts
here in the early hours in the daylight, for the reason that i like to learn more and more.
I like the valuable information you provide in your articles.
I will bookmark your weblog and check again here frequently.
I’m quite certain I will learn plenty of new stuff right here!
Best of luck for the next!
Hi there, I enjoy reading all of your article.
I wanted to write a little comment to support you.
Hi Dear, are you really visiting this web page regularly, if so afterward you will absolutely get good knowledge.
When I originally left a comment I appear to have clicked on the -Notify me when new comments are added- checkbox and now
whenever a comment is added I receive 4 emails with the exact same comment.
Is there a way you are able to remove me from that service?
Cheers!
I am actually thankful to the holder of this website who
has shared this wonderful article at at this time.
Very good blog post. I certainly appreciate this website.
Thanks!
Your mode of describing all in this post is genuinely
pleasant, every one be able to without difficulty know it,
Thanks a lot.
bookmarked!!, I love your site!
Having read this I thought it was rather informative.
I appreciate you spending some time and effort to put
this short article together. I once again find myself
spending a lot of time both reading and posting comments.
But so what, it was still worth it!
I’m gone to convey my little brother, that he should also visit this
weblog on regular basis to take updated from most up-to-date reports.
excellent points altogether, you simply received a logo new reader.
What may you suggest about your put up that you made some days ago?
Any sure?
Howdy, i read your blog from time to time and i own a similar
one and i was just curious if you get a lot of spam responses?
If so how do you protect against it, any plugin or anything you can advise?
I get so much lately it’s driving me crazy so any assistance
is very much appreciated.
Thanks , I’ve recently been looking for information about this subject for ages and yours is the greatest I have discovered so
far. However, what about the conclusion?
Are you certain concerning the supply?
Hi there, always i used to check webpage posts here in the early hours
in the dawn, since i enjoy to gain knowledge of more and more.
No matter if some one searches for his vital thing, thus he/she needs to be available that in detail, thus that thing
is maintained over here.
Hi there! Do you know if they make any plugins to assist with SEO?
I’m trying to get my blog to rank for some targeted
keywords but I’m not seeing very good success. If you know
of any please share. Appreciate it!
Hi there to every body, it’s my first go to see of this
blog; this blog contains amazing and genuinely excellent stuff in favor of visitors.
For most up-to-date information you have to visit the web and on world-wide-web I found this site as a most excellent
web page for newest updates.
I really like your blog.. very nice colors & theme.
Did you create this website yourself or did you hire someone to
do it for you? Plz answer back as I’m looking to create my
own blog and would like to find out where u got this from.
thanks
Admiring the dedication you put into your site and in depth
information you offer. It’s nice to come across a blog every once in a while that isn’t the same
old rehashed information. Excellent read! I’ve bookmarked your site and I’m adding your RSS feeds
to my Google account.
After I originally left a comment I seem to have clicked the -Notify me
when new comments are added- checkbox and from now
on every time a comment is added I recieve four emails with the exact same comment.
There has to be an easy method you are able to
remove me from that service? Appreciate it!
Simply wish to say your article is as astounding. The clearness to your put up is just
cool and that i could assume you’re knowledgeable on this subject.
Well along with your permission allow me to grab your RSS feed to
stay updated with coming near near post. Thank you 1,000,000 and please carry on the enjoyable work.
Hi there mates, its impressive piece of writing concerning tutoringand fully
explained, keep it up all the time.
excellent publish, very informative. I’m wondering why
the other experts of this sector do not notice this.
You must continue your writing. I’m sure, you’ve
a great readers’ base already!
Yes! Finally someone writes about website.
Amazing! This blog looks exactly like my old one!
It’s on a totally different subject but it has pretty much
the same layout and design. Great choice of colors!
Hello, of course this paragraph is truly fastidious and I have learned lot of things from it
on the topic of blogging. thanks.
Article writing is also a excitement, if you be acquainted
with after that you can write or else it is complicated to write.
Stunning story there. What happened after?
Take care!
Awesome! Its genuinely awesome piece of writing, I have got much
clear idea on the topic of from this piece of writing.
I’m really inspired with your writing skills and also with the structure for your weblog.
Is this a paid theme or did you customize it your self?
Anyway keep up the nice high quality writing, it’s rare to see a nice weblog like this one today..
If you wish for to take a great deal from this piece of writing then you have to apply these
techniques to your won weblog.
I’ll immediately seize your rss feed as I can not in finding your e-mail subscription hyperlink or e-newsletter
service. Do you have any? Kindly let me realize so that
I could subscribe. Thanks.
Hey there! Do you know if they make any plugins to protect
against hackers? I’m kinda paranoid about losing everything I’ve worked hard on. Any tips?
my page: tracfone coupon
Today, I went to the beach front with my kids. I
found a sea shell and gave it to my 4 year old daughter and said “You can hear the ocean if you put this to your ear.” She put the shell to her ear and
screamed. There was a hermit crab inside and it pinched her ear.
She never wants to go back! LoL I know this is entirely off
topic but I had to tell someone!
my webpage tracfone 2022