کئی مہینوں بعد سب سہیلیاں ون ڈش پارٹی میں جمع تھیں، وہ سب ایک کالج سے فارغ ہوئی تھیں، کالج میں انکاگروپ سب سے بڑا تھا، وہ خوب ہلا گلا کرتیں، اور مہینے میں ایک مرتبہ پیسے جمع کر کے بریک میں ہلکی پھلکی پارٹی بھی کر لیتیں، کالج کے چار سال پلک جھپکتے گزر گئے تھے، الوداعی پارٹی کے دن سب سہیلیوں نے طے کیا تھا کہ وہ سب ہر مہینے ایک بار ضرور اکٹھی ہوں گی، فرزانہ، شمیم، زبیدہ نے ون ڈش پارٹی کے لئے اپنے گھر پیش کر دیے، وہ سب بہت خوش تھیں لیکن کچھ عرصے میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ہر روز کالج میں ملاقات بہت آسان تھی، اور ہر ماہ کی پارٹی میں شرکت کبھی کسی کے لئے مشکل ہو جاتی اور کبھی کسی کے لئے، اب زیادہ تر ملاقاتیں خوشی غمی کے مواقع پر یا کبھی بازار میں اچانک ہو جاتیں،اور آج کافی عرصے کی کوشش اور وعدے وعید کے بعد زبیدہ نے سب کو اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ اس دوران عطیہ ، فریدہ اور سلمہ کی شادیاں ہو چکی تھیں، فرزانہ کی منگنی ہو گئی تھیں اور شمیم اور زبیدہ نے یونیورسٹی سے ماسٹرز کر لیا تھا۔
سب سہیلیاں اکٹھی تو ہو گئی تھیں، مگر پہلے جیسا ہلہ گلہ نہ تھا، زندگی میں آنے والی تبدیلیوں نے سب پر ہی مختلف اثرات مرتب کئے تھے، عطیہ کی صحت بہتر ہو گئی تھی، سانولہ رنگ اب مزید نکھر گیا تھا، فرید ہ کی ڈریس ڈیزائننگ اور ہیئر سٹائل بدل گئے تھے، اسکی گفتگو بار بار اسکے متمول خاندان کی جانب مڑ جاتی، جبکہ سلمہ کچھ کھوئی کھوئی سی تھی، کمبل میں لپٹا بیٹا اس کی مستقل توجہ کا مرکز تھا، کبھی وہ کھانسنے لگتا، کبھی دودھ الٹ دیتا، وہ ان سب کی باتوں میں برائے نام ہی شامل تھی، یوں بھی وہ پارٹی میں آنا نہ چاہتی تھی، زبیدہ نے اسے بڑے اصرار سے بلایا تھا۔
سلمہ کی شادی آزاد کشمیر کے دور افتادہ گاؤں میں ہوئی تھی، اسکے سسرالی رشتہ دار تو نہ تھے بس والد کی برادری سے تھے، راولپنڈی میں پلی بڑھی سلمہ کو بہت ارمانوں سے بیاہ کر سسرال لے جایا گیا، اسکے شوہر بہت اچھے انسان تھے، بہت خیال رکھنے والے، شروع میں تو سب نے ہی بہت آؤ بھگت کی مگر آہستہ آہستہ اس پر سارے گھر کا بار ڈال دیا گیا، گاؤں کی مشکل زندگی کا اسے کچھ تجربہ نہ تھا مگر گھر کے سکھ کی خاطر اس لئے اس نے ساری نزاکتوں بالائے طاق رکھ کر حالات سے سمجھوتا کر لیا۔ بیٹے کی پیدائش اسکے میکے میں ہوئی، جو ابتداء ہی سے کم وزن تھا، پھر پے در پے تکلیفیں، کبھی پیٹ میں درد کبھی کان اور گلا خراب، اور دورانِ علاج ہی مختلف ٹیسٹ کے رزلٹ میں معلوم ہوا کہ بچہ ڈاؤن سینڈروم ہے۔ سلمہ اور اسکے شوہر پر یہ خبر بجلی بن کر گری، بچہ پیدائشی طور پر ایسی بیماری کا شکار تھا جس سے صحت یابی کی اﷲ سے امید تو تھی مگر میڈیکل سائنس کافی مایوس تھی۔
ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق ہر بچے میں ابتدائی طور پر چھیالیس کرومو سومز ہوتے ہیں جو وہ یکساں طور پر والدین سے حاصل کرتا ہے، لیکن ڈاؤن سینڈروم بچے میں ایک اضافی کروموسوم ہوتا ہے جو اسکی جسمانی اور ذہنی نشو نما میں تاخیر کا سبب بنتا ہے، اور اس کے جسمانی خدو خال کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہ بچہ سوچ اور عمل دونوں طرح عام بچوں سے کافی پیچھے ہوتا ہے۔
اس دن بھی وہ اپنی ممانی کے ہاں آئی تھی ، اور چھ ماہ کے بچے کو گود میں اٹھائے دنیا و ما فیہا سے بے خبر بیٹھی تھی، وہ یہاں آ کر بھی ذہنی طور پر موجود نہ تھی، بات کرتے کرتے وہ خلاؤں میں دیکھنے لگتی، ممانی کے گھر انکی کزن آئی ہوئیں تھیں، جو بچوں کی ماہرڈاکٹر تھیں، وہ سلمہ سے ملیں ، بچے کو اچھی طرح دیکھا اور اس کی بیماری کے حوالے سے کئی مفید ٹپس دیں۔ انہوں نے بتایا کہ توجہ اور لگن سے ایسے بچے معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن ارد گرد کے لوگوں کی محبت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سلمی واپس سسرال پہنچی تو سردیاں شروع ہو چکیں تھیں، جہاں دن رات میں کئی مرتبہ بجلی چلی جاتی، ایندھن کے طور پر لکڑیاں جلائی جاتیں، جن کا دھواں بچے کو اور بیمار کر دیتا، اس پر مستزاد سسرال والے گھر کے کا م کاج میں اسے کوئی چھوٹ دینے کو تیارتھے نہ بچہ بہلانے کو۔ اسکی ساس بڑے کٹھور پن سے کہتیں: ’’اگر کوئی ہنستا کھیلتا بچہ ہو تو میں اٹھا بھی لوں، یہ تو ہر وقت روں روں ہی کرتا رہتا ہے ۔۔ ‘‘۔
نند تھوڑی دیر کے لئے اٹھا لیتی، لیکن وہ بھی جلد ہی تنگ آجاتی، اور اسے جھولے میں ڈال کر کہتی: ’’وکی تم ٹھیک ہو جاؤ نا، پھر دیکھنا میں تم سے کتنا کھیلوں گی ۔۔ ‘‘۔
اور وکی اس کی تسلیوں سے بے نیاز ہولے ہولے روتا ہی رہتا، یا اس کے گلے سے خرخراہٹ سنائی دیتی کہ خود سلمہ بھاگ کر اسے پکڑ لیتی اور سینے سے لگا لیتی، اس کا بچہ تو دنیا کا سب سے پیارا بچہ تھا، اتنی خوبصورت ترچھی آنکھیں، جو اتنی کمزوری اور بیماری میں بھی کتنی متاثر کن تھی، سلمہ پہروں اس کے چہرے کو دیکھتی، پھر ساس کی آواز پر وہ اسے گودمیں دبا کر گھر کے کام کاج میں لگ جاتی، اسے اٹھا کر جھاڑو دیتی، کھانا پکاتی، بس برتن اور کپڑے دھوتے وقت وہ اسے ٹھنڈ سے بچانے کے لئے کسی کی مدد کی طلب گار ہوتی، جو اسے بہت باتیں سنا کر ملتی، اگر یہ سب باتیں اس کی ذات کے لئے ہوتیں تو شاید وہ برداشت کر لیتی مگر وہ اپنے منے کے لئے محبت کے سوا کوئی کلمہ نہ سننا چاہتی تھی، گھر والوں کی بیزار نگاہیں اور چبھتے جملے اسے اندر تک زخمی کر دیتے، شام کو شوہر گھر لوٹتے تو وہ انکا بہترین وقت ہوتا، وہ دونوں اور منا، پہاڑوں میں رات سرِ شام ہی اتر آتی ہے وہ مغرب سے پہلے کھانا تیار کر لیتی، کھانا کھا کر کچھ دیر وہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھتے، اور سلمہ حیران رہ جاتی جب ساس امی ہاتھ بڑھا کر وقاص کو اٹھانے کی خواہش کا اظہار کرتی، شاید یہی وقت اسکے دادی کی محبت پانے کا ہوتا، سلمہ خاموشی سے دن بھرکی باتیں پی کر بچہ انہیں دے دیتی۔
آزمائش انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، جیسے وہ ہر آن طوفانوں کی زد میں ہو، اور ایسے میں ایک تنکا بھی شہتیر جتنا بڑا سہارا بن جاتا ہے، یہی حال سلمہ کا تھا، اسے جہاں بھی کسی ماہر ڈاکٹر کا پتا چلتا وہ اسکے علاج کے لئے جا پہنچتی، کبھی ڈاکٹری علاج کو چھوڑ کر حکیم کا اور کبھی ہومیو پیتھک، اگر اسے کوئی ڈاؤن سینڈروم بچہ نظر آجاتا تو وہ بھاگ کر اسکی ماں کے پاس پہنچ جاتی، اور پھر اس کے سارے اندیشے سوالوں میں ڈھل جاتے، اور ان کے جوابوں سے امید کشید کرنے لگتی، اس نے ایک چھ سالہ ڈاؤ ن سینڈروم بچے کو چلتے دیکھا تو فوراً اسکی ماں کے پاس جا پہنچی اور اس کے بتانے پر کہ وہ چار سال میں چلنے لگاتھا، اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا کہ میرا منا بھی چلے گا، کیا ہوا چار سال میں چلنے لگے،اور کتنے دن وہ اسی سرشاری میں رہی۔
ان دنوں وہ راولپنڈی میں تھی جب وقاص پر نمونیے کا حملہ ہوا، اور وہ بالکل لاغر ہو گیا، اب تو اس سے رویا بھی نہ جاتا تھا، کھانسی بھی بہت تکلیف سے آتی، وہ کچھ بہتر ہوا تو وہ واپس سسرال چلی گئی، اور ابھی سردیاں ختم نہ ہوئیں تھیں کہ ایک رات منے کی طبیعت بہت خراب ہو گئی، وہ اسے لے کر ہسپتال بھاگے مگر اس نے والد کی گود میں دم توڑ دیا، سلمہ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے شوہر کی طرف دیکھا جو انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہہ کر الحمد ﷲ کہہ رہے تھے، اور اﷲ سے اس صبر پر جنت میں ’’بیت الحمد‘‘ کی دعا کر رہے تھے ۔۔
سلمہ کی گود خالی ہو گئی تھی، رشتہ دار عورتوں اور محلے کی خواتین نے اسے رلانا چاہا مگر وہ خاموش رہی، بس خاموشی سے اﷲ سے دعا مانگتی رہی، اسی عرصے میں اسے اپنے اندر کچھ تبدیلی کا احساس ہوا، ڈاکٹر نے خوش خبری سنائی اور اسے طاقت کی کچھ دوائیں دیں، چند ماہ بعد بچے کے نارمل ہونے سے متعلق ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی۔
اس روز سلمہ ماہر گائناکالوجسٹ کے کلینک میں بیٹھی تھی، انتظار کا ایک ایک لمحہ گراں تھا، ایسے جیسے جان سولی پر ٹنگی ہو، ایک گھنٹے کے انتظار کے بعدباری آئی، ڈاکٹر نے ساری رپورٹس بہت توجہ سے دیکھیں، اور مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’بی بی آپ کی رپورٹس کے مطابق آپ کے فوت شدہ بچے کے مرض کا سبب آپ کے اندر تھا، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ بچہ بھی ڈاؤن سینڈروم ہی ہو گا‘‘ کیونکہ یہ مرض ماں کی عمر سے متعلق ہے، تیس سال کی ماؤں میں ہزار میں سے کوئی ایک اس کا موجب بنتی ہے ۔ سلمہ کے لئے یہ خبر ایسی تھی جیسے اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ گرا ہو، اس کے بعد ڈاکٹر نے کیا کہا، اسکے کان گویا بہرے ہو چکے تھے، اس کے شوہر نے ڈاکٹر سے صحت کے تمام امکانات پر تفصیلی بات کی، ڈاکٹرنے صاف صاف بتا دیا کہ بچے کی صحت جانچنے کے لئے تین ادوار میںیعنی ہر ٹرائسمسٹر میں ٹیسٹ ہوگا، آخری ٹیسٹ میں بچے کے ڈاؤن سینڈروم ہونے کے بارے میں سکریننگ کے ذریعے معلوم ہو سکے گا، لیکن یہ ٹیسٹ ہے ذرا رسکی، بعض اوقات بچے کو ٹیسٹ سے نقصان پہنچتا ہے، ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا، ہاں والدین کی ذہنی تیاری ہو جاتی ہے، ڈاکٹر اور بھی نجانے کیا کہہ رہی تھی، سلمہ کو کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔
ڈاکٹر کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ چند ماہ ماہ بعد ایک ٹیسٹ کروا لیا جائے جو بچے کی صحت کا تفصیلی ٹیسٹ ہے، اور اگر بچہ نارمل نہیں ہے تو ماں بچے کو مزید تکلیف میں ڈالنے کے بجائے ابارٹ کر دیا جائے۔
چند دن انتہائی پریشانی میں گزارنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس بارے میں ہم کسی عالمِ دین سے رائے لے لیتے ہیں، انہوں نے جن عالم سے رائے لی انہوں نے ساری بات سننے کے بعدایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا:
۔ ’’آپ کی ساری بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا ہے، خاص طور پر آپ نے اپنے ننھے منے بچے کی تکلیف کا جس طرح ذکر کیا ہے اس سے میرا دل پسیج گیا ہے اور میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ بحیثیت ماں باپ آپ کو کس قدر تکلیف پہنچی ہو گی، خاتون نے بتایا کہ دس ماہ تک آپ کا پہلا بچہ زندہ رہا اور اس نے ایک دن بھی مکمل صحت کے ساتھ نہیں گزارا، اور یہ مامتا کی ماری اسے گود میں اٹھا کر گھر کے کام کاج بھی کرتی رہی، اور اس کی دیکھ بھال بھی، اور اب نئے آنے والے بچے سے متعلق آپ کی تشویش اور پریشانی بجا ہے، اور اﷲ اپنے بندے کا کب تک امتحان لے گا اور کب اسے امتحان سے نکال لے گا، اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔
کیا ڈاکٹرز کی رائے کے بعد بھی میری آزمائش ختم ہو سکتی ہے؟ سلمہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
۔ ’’جی بالکل میری بہن، اﷲ جب کسی پر رحم کرنا چاہے تو وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، اور اﷲ کا دامنِ رحمت بہت وسیع ہے ۔۔ ‘‘۔
مولانا صاحب کہنے لگے:
۔ ’’مجھے ان دنوں کی تکلیف کا بھی احساس ہے جو آپ نے برداشت کی، دس مہینے تک بچے کا مسلسل تکلیف میں رہنا اعصاب تھکا دیتا ہے، لیکن پھر بھی یہ دن مکمل مایوسی کے نہیں ہوں گے، آپ اس بچے کو دیکھ کر مسکرائے ہوں گے، خوش ہوئے ہوں گے، اسکی خاطر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے ہوں گے، رب سے کچھ مانگا ہو گا، اس لئے یہ مت سوچئے کہ سب کچھ ضائع ہو گیا، وہ دعائیں جو اس وقت اس صورت میں قبول نہیں ہوئیں وہ زندگی میں کسی اور مقام پر قبولیت پائیں گی، یا جنت کا توشہ بن جائیں گی ۔۔ ‘‘۔
وہ ذرا دیر کو رکے اور پھر کہنے لگے:
۔ ’’میری بہن، یہ بھی یاد رکھئے کہ اگر یہ بچہ آپ کی زندگی میں نہ آتا، تو یہ اجر بھی نہ ملتا، یہ تو آپ کا جنت کا سفارشی ہے ۔۔ ‘‘۔
اور جب وہ مولانا صاحب کے مکتب سے نکلے سلمہ ایک فیصلہ کر چکی تھی کہ اب ڈاکٹروں اور لیبارٹریوں کے چکر لگا کر اس مستقبل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کریگی ، وہ صحت مند ہے یا ڈاؤن سینڈروم وہ اپنے ہاتھوں اسکی زندگی کا خاتمہ نہیں کرے گی۔
رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں اس نے قرآن سمجھنے کے لئے ایک کلاس جائن کر لی، اور سحر کی گھڑیوں میں رب کو بڑے الحاح سے پکارا، وہ رب جو رات کی آخری گھڑیوں میں ساتویں آسمان پر آتا ہے اور پکارنے والے کی پکار سنتا ہے، اور جواب دیتا ہے، وہ جس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں، اور سب کی حاجات پوری کرنے کے بعد بھی ان خزانوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
وہ زیادہ تر وقت خاموش رہتی، گھر کے کام کاج میں مگن رہتی، اسے لگتا جیسے اسکے وجود میں ان کمزور دنوں میں بھی طاقت بڑھ رہی ہے، رمضان کے بعد بھی اس نے رب سے جڑے اس تعلق کو کمزور نہ پڑنے دیا، وقاص کی یاد کے ساتھ ہی اسے مولانا صاحب کے بتائے ہوئے انعامات یاد آجاتے، رات گہری ہوتی تو وہ دونوں مل کر اﷲ کے حضور جھک جاتے۔
اس نے شہرکے ایک کلینک میں رجسٹریشن کروالی، اور باقاعدہ چیک اپ کرواتی رہی۔
نرس نے اسے بیٹے کی خوشخبری سنائی تو اس نے اﷲ کا شکر ادا کیا، وہ ہسپتال سے ملحق مسجد میں بھاگا اور سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کئے، سپیشلسٹ ڈاکٹر نے تفصیلی معائنے کے بعد اسے بچے کی صحتیابی اور نارمل ہونے کی خبر سنائی، اس نے سلمہ کے چہرے کی جانب دیکھا، اس کا چہرہ قبولیتِ دعا کی خوشی سے چمک رہا تھا، انہیں اور کیا چاہئے تھا، اﷲ نے مضطرب دلوں کی پکار سن لی تھی، اور انکی تکلیف کا مداوا کر دیا تھا، اس نے بچے کو گود میں لے کر اسکے کان میں اذان دی، اور اسکا نام اسماعیل رکھا، ایک مماثلت تو تھی دونوں میں، اﷲ تعالی نے پہلے کو دنبہ بھیج کر قربان ہونے سے بچا لیا تھا، اور دوسرے کے ماں باپ کے دل میں توکل کی شمع روشن کر کے اسے ابارٹ ہونے سے بچا لیا تھا ۔۔
***
اہم بلاگز
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...