ریلوے پھاٹک بند تھا۔ مسافر ٹرین کے گزرنے کا وقت ہورہا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف میں ٹریفک کا ہجوم جمع ہورہا تھا۔ اس ہجوم میں تنویر بھی شامل تھا۔ وہ اپنی موٹر بائیک پر سوار تھا۔ کل شام وہ اپنے والدین سے ملنے گاؤں پہنچا تھااور آج وہ اپنے کام پر واپس لوٹ رہا تھا۔ چند عجلت پسند لوگ پھاٹک کے اطراف میں سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس خطرے سے غافل کہ ان کی ذراسی بے احتیاطی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی تھی۔ تنویر دوسرے لوگوں کے ہمراہ انتظار کی کیفیت میں اپنے گرد و پیش کے مناظر دیکھ رہا تھا کہ ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ’’بھائی صاحب۔۔۔ کیا آپ میری مدد کریں گے۔۔۔‘‘ تنویر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ دیکھنے میں وہ ایک سلجھا ہوا نوجوان نظر آتا تھا۔
’’میرا نام رفیق ہے۔ میں ایک مسافر ہوں۔ لیکن یہاں کوئی مسافر گاڑی موجود نہیں ہے۔ آپ اگلے اسٹاپ تک مجھے اپنے ساتھ لے لیجیے۔ آپ کی عنایت ہوگی‘‘ اس سے پہلے کہ تنویر اس سے کوئی سوال پوچھے اس نے خود ہی تمام سوالات کے جوابات دے دیے تھے۔ تنویر جانتا تھا کہ اگلا اسٹاپ تقریباً دس کلومیٹر دور ہے۔ اس نوجوان کا انداز ایسا تھا کہ تنویر اسے انکار نہ کرپایا۔ بس آنکھ کے اشارے سے تنویر نے اسے اپنے پیچھے بیٹھنے کی اجازت دے دی تھی۔ بیٹھتے ہوئے رفیق اک خاص انداز میں مسکرایا تھا کہ جیسے بات بن گئی ہو۔ پھر ٹرین شور مچاتے ہوئے آئی اور چھک۔۔۔ چھک کرتے سامنے سے گزرگئی۔ اب پھاٹک کھل چکا تھا۔ ٹریفک پھر سے رواں دواں ہوچکی تھی۔ تنویر نے بھی اپنی موٹر بائیک آگے بڑھادی تھی۔ ابھی تین کلومیٹر کا سفر طے ہوا تھا کہ تنویر کو اپنی کمر میں کچھ چبھنے کا احساس ہوا۔ تنویر فوراً سمجھ گیا تھا کہ یہ چبھن کس چیز کی ہے لیکن تنویر گھبرایا نہیں۔ اس وقت موٹر بائیک اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی ر فتار سے سفر کررہی تھی۔ ارد گرد کا علاقہ اجاڑ و سنسان تھا۔ پھر رفیق نے سانپ جیسی پھنکار کی آواز میں تنویر کے کان میں سرگوشی کی۔
’’موٹربائیک روکو۔۔۔ ورنہ گولی ماردوں گا ۔۔۔‘‘ اس نے ریوالور کی نالی تنویر کی کمر سے لگا رکھی تھی۔ رفیق ایک عادی چور تھا لیکن اس کا طریقہ کار عام چوروں سے بہت مختلف تھا۔ وہ صرف اور صرف موٹرسائیکلیں چراتا تھا اور پھر چور بازار میں ان کا ایک ایک پرزہ مہنگے داموں بیچ دیتا تھا۔ چور بازار کے چند دکان دار اس کے واقف تھے۔ موٹرسائیکلیں چھیننے کی ان وارداتوں میں اس نے جانے کتنے لوگوں کو زخمی کیا تھا۔ موٹرسائیکل کا مالک اس کا پیچھا نہ کرے اس لیے وہ مالک کی ٹانگ میں ایک گولی کا تحفہ ضرور دیتا تھا۔ اور آج تنویر اس کا بہت آسان شکار تھا۔ ایسا رفیق سوچ رہا تھا۔ پھر رفیق حیران رہ گیا۔ اس کی وجہ دو باتیں تھیں۔ ایک تو تنویر نے موٹربائیک روکی نہیں تھی اور دوسرے وہ مسکرا رہا تھا۔
’’میں نے کہا فوراً بائیک روکو ورنہ گولی مار دوں گا‘‘ رفیق نے دوبارہ دھمکی تھی تھی۔
’’تو روکا کس نے ہے مارو گولی۔۔۔ موٹر سائیکل کی رفتار بہت زیادہ ہے ۔ میں مروں گا تو بچو گے تم بھی نہیں۔۔۔ یہ بات تو طے ہے۔۔۔‘‘اب رفیق کو احساس ہواکہ وہ بہت بری طرح پھنس چکا ہے۔ اگر تنویر کو کچھ ہوجاتا تو حادثہ ہوجاتا اور اس حادثہ میں رفیق کا زخمی ہونا یا پھر مر جانا سامنے کی بات تھی۔
’’سوچ کیا رہے ہو۔۔۔ ہتھیار جیب میں رکھ لو کسی اچھی سی جگہ پر رک کر بات کرتے ہیں۔ ‘ تنویر نے اسے بات کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اس پیشکش میں دم تھا۔ موٹربائیک ہاتھ نہ بھی لگتی جان بچنے کا امکان تھا۔ پھر کچھ سوچ کر رفیق خوف زدہ ہوگیا۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف تھا۔ آگے نہر پر پولیس کی چیک پوسٹ تھی۔ وہاں اکثر موٹرسائیکل سواروں کی چیکنگ ہوتی تھی۔ اگر وہاں پہنچ کر بات کھل گئی تو کیا ہوگااور اگر وہ اسلحہ سمیت گرفتار ہوگیا تو کیا ہوگا۔ بہت سارے صدمات نے اسے ایک ساتھ گھیر لیا تھا۔ تنویر بہت مہارت کے ساتھ ڈرائیونگ کررہا تھا۔ بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ پھر رفیق نے اپنے ہتھیار سڑک کنارے اگی ہوئی جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ یہاں سے ہتھیار واپس لینے کی صورت باقی رہتی۔ اب چیک پوسٹ کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ لیکن تنویر نے موٹر بائیک کی رفتار آہستہ نہیں کی تھی۔ اب سڑک کنارے پولیس ٹیم نظر آنے لگی تھی۔ سڑک کا نصف حصہ آمد و رفت کے لیے کھلا تھا۔ موٹربائیک اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پولیس والوں کے پاس سے شوں کرکے گزری تھی اور پھر رفیق دھک سے رہ گیا۔ جبکہ تنویر کی مسکراہٹ اور زیادہ گہری ہوگئی تھی۔ پولیس ٹیم نے ایڑھیاں بجا کر تنویر کو سلامی دی تھی۔ ’’کک۔۔۔ کک۔۔۔کون ہو تم۔۔۔‘‘ رفیق حد سے زیادہ خوف زدہ ہو چکا تھا۔
’’میں بھی اک پولیس آفیسر ہوں۔۔۔‘ اب کی بار تنویر ہنس پڑا تھا۔
’’اب ۔۔۔ اب ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔‘‘ خوف سے رفیق کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’تم بتاؤ۔۔۔ مجرم کی جگہ کہاں ہوتی ہے؟ ‘‘ سوالیہ انداز میں تنویر نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ پھر وہ ہواجس کی تنویر کو بھی امید نہیں تھی۔ رفیق نے چلتی بائیک سے چھلانگ لگا دی تھی۔ اس کا جسم رول کرتاہوا سڑک کے ساتھ نشیب میں جا گرا تھا۔ اب تنویر نے بائیک کی رفتار آہستہ کی اور یوٹرن لیا۔ وہ رفیق کو اس حال میں کبھی چھوڑ نہیں سکتا تھا۔رفیق نشیب میں بے ہوش پڑ اتھا۔ پھر تنویر نے امداد کے لیے متعلقہ ادارے کو فون کردیا۔
جب رفیق کو ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں موجود تھا۔ چند لمحوں تک وہ ساکت لیٹا چھت کو گھورتا رہا۔ پھر اسے سب کچھ یاد آگیا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ خوش قسمتی سے اس کے جسم کی ہڈیاں سلامت رہی تھیں اور اسے کوئی گہری چوٹ بھی نہیں آئی تھی۔ اس نے اپنے ارد گرد دیکھا اور پھر شرم کے احساس سے اس کی آنکھیں جھک گئیں۔ اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی جو بیڈ کے ساتھ مقفل تھی اور دائیں طرف اس کی بوڑھی ماں اور اکلوتی بہن بیٹھی سوالیہ نظرں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ انہیں اب جا کر معلوم ہوا تھا کہ اس ماں کا بیٹا ‘ اس بہن کا بھائی اک چور ہے۔ آج رفیق تنویر کو بھی دیکھ رہا تھا۔ وہ اس وقت فل یونیفارم میں موجود تھا۔ نفرت سے رفیق نے اپنا چہرہ دوسری سمت میں پھیر لیا۔ جب ایک گم راہ انسان خود کو حق پر سمجھتا ہے تو یہ اس کے لیے بہت بدقسمتی والی بات ہوتی ہے۔ وہ اپنے موجودہ حالات کا ذمہ دار تنویر کو سمجھ رہا تھا۔ رفیق کی ماں تنویر سے کہہ رہی تھی ’’اے بیٹا۔۔۔ اب میں جان چکی ہوں کہ میرا بیٹا گناہ گار ہے۔ اس نے بہت سے لوگوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ اسے ان مظالم کی سزا ملنی ہی چاہیے مگر بیٹا ہمارا یہ آخری سہارا ہے۔ اسے سزا ہو جائے گی۔۔۔ یہ جیل چلا جائے گا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ہم ماں بیٹی تو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔۔۔ ہماری حالت پر رحم کرو اور اسے معاف کر دو۔۔۔‘‘ اس ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
’’ماں جی۔۔۔ میں آپ کے درد کو سمجھ سکتا ہوں لیکن فرض اور قانون کے ہاتھوں میں مجبور ہوں۔ خود ہی سوچیے اگر مدد کے نام پر اسی طرح لوگوں کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رہا تو کون کس کی مدد کرے گا۔۔۔‘‘ اس سوال کا جواب رفیق کی ماں کے پاس نہیں تھا۔
’’اور رہی بات سہارے کی ۔۔۔تو ہم سب کا ایک ہی سہارا ہے۔۔۔‘‘تنویر نے اوپر کی طرف انگلی اٹھادی تھی۔ تنویر کا کہنا درست تھا۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کے علاوہ کون ہے جو کسی کو سہارا دے۔ اب رفیق سانپ کی مانند پھنکار رہا تھا۔
’’انسپکٹر۔۔۔ وقت وقت کی بات ہے۔ وقت تمہارا تھا تو میں پکڑا گیا۔ لیکن وقت پھر آئے گا۔ میں واپس لوٹوں گا اور تمہیں ٹارگٹ کروں گا۔ میرا انتظار کرنا۔۔۔‘‘ بات ابھی رفیق کے منہ میں تھی کہ رفیق کی ماں نے اس کے منہ پر زور سے طمانچہ دے مارا۔
’’چور تو تم ہو ہی۔۔۔ اب خونی بننے کا بھی سوچ رہے ہو۔۔۔‘‘ تنویر کی طرف سے رفیق کی ماں نے اسے جواب دیا تھا۔
’’ماں جی ایسے لوگوں پر باتوں کا اثر نہیں ہوا۔ ایسے لوگوں کو راستے پر لانے کا راستہ کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔‘‘ پھر وہ رفیق کی طرف پلٹا۔
’’میں تمہارا انتظار کروں گا۔۔۔‘‘ تنویر اتنی بات کہہ کر وارڈ میں سے باہر نکل گیا۔ اس کی ماں اور بہن تنویر کے پیچھے گئے تھے اور رفیق کو اس صدمے نے گھیر لیا تھا کہ اس کے زخمی ہونے اور گرفتار ہونے کا کوئی اثر اس کی ماں اور بہن پر نہیں ہوا تھا۔ رفیق کو کوئی گہری چوٹ تو نہیں آئی تھی مگر بائیک سے گرنے اور پھر سڑک پر لڑھکنے کی وجہ سے جسم کی جلد جگہ جگہ سے پھٹ گئی تھی اور پٹھوں پر بھی دباؤ آیا تھا۔ اگلے ایک ہفتے تک ہسپتال میں اس کا علاج ہوا۔ پھر اسے حوالات میں منتقل کر دیا گیا۔ پھر عدالت میں اس پر مقدمہ چلا۔ عدالت میں اُن لوگوں نے اس کے خلاف گواہی دی تھی جو اس سے مختلف حالات اور اوقات میں متاثر ہوئے تھے۔ایسے میں صرف ایک آدمی رفیق کی پیروی کرتا رہا تھا۔ وہ رفیق کا رشتہ دار تھا۔ پھر رفیق کو اس کے جرم کے مطابق قید کی سزا سنا دی گئی۔ اب رفیق کے روز و شب جیل کی قید‘ مصیبت اور مشقت میں گزررہے تھے۔ ایسے میں اسے اپنی ماں اور بہن کا خیال شدت سے ستاتا تھا۔انہیں سہارا کون دے گا۔ پھر یہ بات سوچ کر اس کے دل کو سکون مل جاتا کہ ان کا رشتہ دار اس مصیبت کی گھڑی میں ضرور انہیں سہارا دے گا۔ پھر اسے تنویر پرغصہ آنے لگتا۔ اس کے مطابق اس کے ایسے حالات کا ذمہ دار تنویر ہی تو تھا۔ اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ جیل میں سے نکلنے کے بعد وہ تنویر کو ضرور ٹارگٹ کرے گا ۔ وقت کا اپنا ایک نظام ہے۔ اچھا ہو یا بُرا یہ گزر ہی جاتا ہے اور پھر رفیق کو جیل کی قید سے رہائی مل گئی۔ اب وہ آزاد تھا لیکن قید کے دنوں میں اس کی ماں اور بہن اس سے ملاقات کے لیے نہیں آئے تھے۔وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس کے لواحقین اس سے ناراض ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اپنے گھر جا کر وہ اپنی ماں اور بہن کو منالے گا۔ لیکن اس سے پہلے اسے ایک اور کام کرنا تھا۔ اسے تنویر کو ٹارگٹ کرنا تھا۔ اس نے اپنے جرائم پیشہ دوستوں سے رابطہ کیا۔ یہاں سے اسے ہتھیار بھی مل گیا اور تنویر کے گھر کر پتہ بھی۔ اب وہ رات کے وقت تنویر کے گھر کے پاس چھپا تنویر کی واپسی کا انتظار کررہا تھا۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے اسے بہت کم روشنی میں تنویر آتا دکھائی دیا۔ اس وقت لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی بند تھی۔جب تنویر پاس پہنچا تو رفیق نے ایک کے بعد ایک اس پر تین فائر داغ دیے۔ تنویر گر پڑا تھا۔ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کررفیق فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ پہلے تو وہ اپنے جرائم پیشہ دوستوں کے پاس گیا۔ ہتھیار واپس کیا۔ اور اب وہ پیدل ہی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ وہ اپنے دشمن کو ٹارگٹ کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ پھر وہ پریشان ہوگیا۔ گھر کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے اور گھر پر تالا لگا تھا۔ بات تو پریشانی والی تھی۔ پھر رفیق نے پڑوسی کے دروازے پر دستک دی۔ پڑوسی باہر نکلا اور پھر رفیق کو دیکھ کر طنز سے بولا ’’آگئے تم۔۔۔ بچے تو والدین کا سہارا ہوتے ہیں۔ اور تم نے اپنی حرکات کی وجہ سے انہیں بے سہارا کر دیا۔ وہ تو بھلا ہو تمہارے اس رشتہ دار کا جس نے تمہاری ماں اور بہن کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچا لیا۔ اب اس کی جان خطرے میں ہے۔ تمہاری ماں اور بہن اس کی خبر گیری کے لیے ہسپتال گئی ہیں۔۔۔‘‘ یہ خبر سن کر رفیق پریشان ہوگیا۔
’’میں جانتا تھا کہ میرا تایا زاد ہی اس مشکل وقت میں ہماری مدد کرے گا۔ لیکن اسے کیا ہوگیا۔۔۔‘‘ وہ سوچ میں گم ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا۔وہ ایمرجنسی کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اس کے کانوں سے اپنی ماں اور بہن کے رونے کی آواز ٹکرائی۔ ان آوازوں میں بڑا درد تھا۔
’’میرا بچہ۔۔۔ ہائے میرا بچہ۔۔۔‘‘ اب رفیق کے لیے رکنا مشکل تھا۔ وہ دوڑ کر اپنی ماں کے قریب پہنچا۔
’’عاطف کو کیا ہوا۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں بے چینی تھی۔ ماں نے پلٹ کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ تقریباً دو سال بعد ماں اور بیٹا آمنے سامنے آئے تھے۔ رفیق کا خیال تھا کہ ماں اسے اپنے سینے سے لگا لے گی۔ لیکن پھر جو ہوا وہ رفیق کی سمجھ سے بھی باہر تھا۔ ماں نے اس پر تھپڑوں کی بارش کر دی تھی۔ ساتھ ہی وہ رفیق کو بددعائیں دے رہی تھی۔
’’تیرا بیڑہ غرق ہوجائے۔ تو نے ہم سے ہمارا سہارا چھین لیا۔ ایک تو بیٹا ہے خبیث اور ایک وہ بیٹا ہے فرشتہ۔۔۔ جس نے ہماری آنکھوں میں موجود آنسوؤں کو مسکراہٹوں میں بدل دیا۔ جس نے تیری ماں کو اپنی ماں اور تیری بہن کو اپنی بہن سمجھ کر ایک فرماں بردار بیٹے اور بھائی کا فرض ادا کیا۔ اس پر تم نے جان لیوا حملہ کیا۔۔۔ ‘‘ رفیق دیوار سے جا لگا تھا۔ پھر آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا۔ سٹریچر پر تنویر موجود تھا۔ یہ وہی تنویرتھا جس نے اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ فرض اور پیار کے رشتوں کو بھی نبھایا تھا۔
’’ماں جی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک گولی جلد کو چیر کر نکل گئی تھی۔ اب کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔۔۔‘‘ انچارج ڈاکٹر رفیق کی ماں کو بتا رہا تھا۔ اس وقت تنویر ہوش میں تھا۔ اس کے ہونٹوں پر اب بھی مسکراہٹ موجود تھی۔ اک خاص قسم کی لہر رفیق کے وجود میں اٹھی تھی۔ پھر رفیق کی آنکھوں کے سامنے موجود منظر دھندلا گیا۔ اچانک ہی آنسوؤں کا ایک سیلاب رفیق کی آنکھوں میں موجزن ہوگیا تھا۔ پھر وہ تڑپ کر آگے بڑھا اور پھر تنویر کے قدموں کو تھام کر رونے لگا۔ یہ پچھتاوے کے آنسو تھے۔ یہ دکھ کے آنسو تھے۔ رفیق کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اس کا راستہ غلط تھا۔
’’میں نے جرم کیا ہے۔۔۔ مجھے جیل بھیج دو۔۔۔ لیکن اب مجھے اس بات کی تسلی رہے گی کہ ایک نالائق بیٹا اگر جیل میں ہے تو دوسرا لائق بیٹا میری ماں کے پاس موجود ہے۔ ‘‘ رفیق روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ایسے میں اس کے کانوں سے تنویر کی آواز ٹکرائی۔ وہ ماں سے کہہ رہا تھا۔ ’’دیکھا ماں جی۔۔۔ میں نا کہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو راستے پر لانے کا راستہ کچھ اور ہے ۔۔۔پیار‘ اچھے سلوک اور محبت کے راستے پر چل کر ہی ہم ان اپنوں کو اپنے پاس لاسکتے ہیں۔۔۔‘‘ اب بات رفیق کی سمجھ میں آئی تھی۔ ایک ہی وقت میں وہ دونوں ایک دوسرے کو ٹارگٹ بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ علیحدہ بات تھی کہ تنویر اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔
اہم بلاگز
ماں کی تمنا
یہ 2010 کی بات ہے جب مجھے اللہ رب العزت نے پہلی مرتبہ حج کرنے کی توفیق عطا کی الحمداللہ ! ہمارے گروپ میں بوڑھے، جوان یہاں تک کہ کچھ نوعمربھی شامل تھے، حج کی مشقت کے بارے میں تقریبا سب ہی جانتے ہیں، لیکن ہم حاجیوں کو اس وقت سخت حیرانی ہوئی جب ہمیں اپنے گروپ میں اس عمر رسیدہ خاتون کے بارے میں معلوم ہوا، جسکی عمر تقریبا اسّی برس تو یقینا ہوگی وہ چلنے پھرنے یہاں تک کہ پوری طرح بیٹھنے سے بھی لاچار تھی، منی میں اسے اسکا بیٹا وہیل چیئر کے ذریعے خواتین کے خیمے میں چھوڑ گیا جہاں اسکی بہو اور باقی خواتین کی مدد سے اسے بستر پر لٹا دیا گیا اسکے ہاتھ میں تسبیح تھی، وہ سارا دن لیٹ کر اشاروں سے ہی نماز وغیرہ پڑھتی، اسکی بہو کا تعاون بھی اس خاتون کے ساتھ اتنا ہی تھا جتنا کہ ہم دوسری خواتین کا تھا لیکن بیٹا جو تقریبا چالیس بیالیس سال کا ہوگا اسکی اپنے ماں کے ساتھ محبت اور اسکی خدمت دیکھ کر ہم سب کی زبان سے سے بے اختیار جملہ نکلا کہ بیشک اسکا حج تو مقبول ہوگیا بلکہ یہ بندہ تو دگنا ثواب حاصل کر رہا ہے، وہ والدہ کا منہ ہاتھ تک خود دھلواتا، وضو کرواتا، کھانا اپنے ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے نوالے بناکر یوں کھلاتا جیسے کہ ایک شیر خوار بچے کو پیار سے ماں کھلاتی ہے، مِنیٰ سے مزدلفہ کے سفر میں ہم نے اس بیٹے کو کبھی ماں کے پاوں دباتے دیکھا، کبھی اسے پیار سے وہیل چیئر سے اپنے بازوں میں اٹھاکر زمین پر سلاتے دیکھا، اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پاوں، بازو وغیرہ سہلاتا، پھر کبھی پیشانی پر بوسہ دیتا، یعنی ان چار پانچ دنوں میں ہمیں ماں کے ساتھ اس کا حسن سلوک دیکھ کر قرآن پاک کی یہ آیت یاد آگئی،،،
! رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا
سبحان اللہ !
ہم سب حاجیوں کو ایک تجسس یہ بھی تھا کہ اس عمر میں اتنی مشقت سے بہتر تھا کہ وہ کچھ عرصے پہلے ہی حج کرلیتی جب اسے اسکی طاقت تھی۔
اس سلسلے میں اسکے بیٹے نے حج کی ادائیگی کے بعد حاجیوں کو بتایا کہ میری ماں کی شروع ہی سے یہ دلی تمنا و خواہش تھی کہ وہ حج کی سعادت حاصل کرے لیکن ہمارے پاس وسائل نہ تھے، یہ بات میں جانتا تھا،اور سوچتا کہ جب بھی میں اس قابل ہوا تو میں ماں کو ضرور حج کرواوں گا، اور اب میں اس قابل ہوچکا ہوں کہ میں اپنی ماں کی یہ خواہش پوری کرسکوں، لیکن میں سوچ رہا تھا اب تو وہ معذوری کی وجہ سے نہیں چل سکے گی لیکن جب اس نے مجھے کہا کہ وہ آج بھی یہ تمنا رکھتی ہے، تو میں انکار نہ کرسکا، میرا باپ تو اس دنیا میں نہیں رہا لیکن ماں زندہ ہے، لہٰذا میں آج اس سعادت سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہتا، میری تکلیف اس تکلیف سے یقینا نہ ہونے کے برابر ہے جو اس نے میری پیدائش...
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...