مریم ایوون ریڈلے کا پاکستانی قوم پر یہ احسان تاقیامت رہے گا کہ اس نے عافیہ کی بگرام کے امریکی عقوبت خانے میں موجودگی کے بارے میں سب سے پہلے پاکستانی قوم کو آگاہ کیا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی وہ جنگ جس کے کوئی اصول و ضوابط نہیں تھے، عروج پر تھی۔ اس وقت امریکہ کا پاکستان کے حکمرانوں پر اثرورسوخ اور دباؤ بھی نقطہ عروج پر تھا۔ پاکستان میں امریکی جاسوس اور بلیک واٹر کے ایجنٹ دندناتے پھرتے تھے۔ ایسے وقت میں مریم ریڈلے کو پاکستانی سیاسی قیادت میں کوئی قابل اعتماد لیڈر نظر آیا تو وہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تھے جن کے ہمراہ انہوں نے لاہور میں پریس کانفرنس کرکے انکشاف کیا تھا کہ بگرام، افغانستان کے خفیہ امریکی ٹارچر سیل میں قیدی نمبر 650 آپ کی قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی ہے۔گذشتہ دنوں سوشل میڈیاکے توسط سے معروف ٹی وی اینکر معید پیرزادہ کی عمران خان اورمریم ریڈلے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس سے متعلق 8 سال قبل کے ایک انٹرویو کی وڈیو دیکھنے کا موقع ملا جو کہ اس کالم کے لکھنے کا محرک بنا۔
میں پہلے عمران خان اور مریم ریڈلے کے اس انٹرویو کا لفظ بہ لفظ متن پیش کررہا ہوں پھر اس کے بعد پاکستان کی سیاسی قیادت کی خدمت میں اپنی عرضی پیش کروں گا۔ معید پیرزادہ نے انٹرویو کی ابتداء اس سوال سے کیا کہ : پاکستان میں کچھ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ عافیہ کی ساری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے… تو مریم ریڈلے نے معید پیرزادہ سے سوال کیا کہ : وہ کون سے ذرائع ہیں۔ ان لوگوں کا نام بتائیں؟… تو اس موقع پر عمران خان نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ … کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ایک عورت جو اپنے 3 بچوں کے ساتھ لاپتہ ہوگئی ہے …جبکہ اس کی ماں اور بہن یہ کہہ رہی ہے کہ ’’ان کی بہن 3 بچوں کے ساتھ اغواء کرلی گئی ہے…کیا حکومت کو اس کی باقاعدہ تحقیقات نہیں کرنی چاہئے بجائے اس کے وہ اس کو جھوٹ قرار دے۔یہ حکومت کی ذمہ داری ہے … یہ انتہائی زیادتی ہے ایک MIT گریجویٹ عورت اور اس کے 3 بچوں کے ساتھ ۔اس پر سینیٹ میں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی بحث ہوئی ہے۔(معید پیرزادہ) حکومت نے اس عافیہ کے مقدمے کے لئے 2 ملین ڈالر بھی خرچ کئے ہیں اور امریکہ میں پاکستانی سفیر نے وہاں سب سے ملاقاتیں کیں اور پھر وہ پاکستان بھی آئے کراچی میں عافیہ کی ماں سے ملاقات کی تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا؟سب جانتے ہیں کہ عافیہ کی ماں اور اسکی بہن حکومت کے کردار کے بارے میں کیا کہہ رہی ہیں اور پاکستانی سفیر کو تو امریکہ کا سفیر کہنا چاہئے وہ تو امریکی مفادات کی نگرانی کررہے ہیں…اور شاہ سے بڑھ کے شاہ کے وفادار کا کردار ادا کررہے ہیں …اس لئے ان سے ہمیں کوئی توقع نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کے متاثرہ خاندان یعنی عافیہ کی ماں اور بہن کو عدالت میں جانے کی اجازت دی جائے …تاکہ وہ اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کرسکیں اور اس کی مکمل تحقیقات کی جائے …اصل مجرم وہ ہیں جنہوں نے اسے اغواء کیا اور پھر امریکہ کے حوالے کیا۔ (معید پیرزادہ) کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اگر پاکستان میں تحقیقات کی جائیں اور یہ ثابت کیا جائے کہ عافیہ صدیقی کو پاکستانی ایجنسیوں نے اغواء کیا اور امریکہ کے حوالے کیا …تو کیا امریکہ کا عدالت میں کیس بہت کمزور ہوجائے گا۔ (مریم ایوون ریڈلے) امریکی کیس کی کوئی بنیاد نہیں ہے …ایک پاکستانی عورت پر افغانستان میں ہونے والے … جرم پر امریکی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک بے بنیاد مقدمہ ہے۔ ہمیں یہاں بیٹھ کر یہ سوال پوچھنے کے بجائے ہمیں چاہئے کہ حکومت سے کہیں کہ وہ امریکی حکومت سے عافیہ صدیقی کو…پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرے۔ (معید پیرزادہ) اب جب کہ امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ چاہے کیس کچھ بھی ہو …تو اب حکومت پاکستان امریکی حکومت سے عافیہ کی واپسی کا مطالبہ کیسے کرسکتی ہے۔ (عمران خان) حقیقت یہ ہے کہ جیوری کے سامنے تمام حقائق نہیں رکھے گئے … بنیادی سوال یہ کہ وہ پاکستان سے کیسے اغواء ہوئی … اور افغانستان 3 بچوں کے ساتھ کیسے پہنچی جب تک اس کی باقاعدہ تحقیقات نہیں ہوتی سچ … سامنے نہیں آئے گا آپ کو سچ تک پہنچنے کے لئے اس کی تحقیقات کرنی ہوں گی … اور یہاں ی صورتحال ہے کہ حکومت نے اب تک اس کی کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ اس حکومت (زرداری) کو مشرف کی پالیسیوں پر نہیں چلنا چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ سارے معاملے کی تحقیقات کریں کم ازکم عافیہ کی ماں اور بہن سے جاننا چاہئے … (معید پیرزادہ) کیا آپ چاہتے ہیں کہ اعلیٰ سطح پر اس کی عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائی جائیں کہ مارچ 2003 میں کیا ہوا تھا؟ (عمران خان) بالکل اگر آپ کو حقیقت پتہ چل جاتی ہے کہ عافیہ پاکستان سے کس طرح لاپتہ ہوئی تو نیویارک میں چلنے والا سارا کیس ختم ہوجائے گا …کیوں کہ سارا کیس اسی جھوٹ پر کھڑا کیا گیا ہے کہ یہ عورت 3 بچوں کے ساتھ جن میں ایک 6 ماہ کا (بچہ ) ہے پاکستان سے افغانستان پہنچتی ہے … امریکیوں پر حملہ کرنے کے لئے اوریہ ساڑھے 4 فٹ کی کمزور سی عورت گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملہ کرتی ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے اور یہ جو ہم کہہ رہے ہیں یہ سچ ہے اور اس کے گواہ موجود ہیں … اس کی ماں اور انکل نے مجھے 2003 میں فون کیا تھا… اور مجھے ساری صورتحال یاد ہے کہ کیاہوا تھا۔ اس کا نام FBI کی لسٹ میں شامل ہوا تھا اس لئے وہ اسلام آباد آنا چاہتی تھی۔ (معید پیرزادہ) یہ تو پہلا قدم ہوا مگر اس کے علاوہ اور کیا کرنا چاہئے اس سلسلے میں۔(عمران خان) میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو ایک اعلیٰ سرکاری وفد بنانا چاہئے جو امریکہ جائے اور نہ صرف امریکہ …کے کانگریس کے اراکین سے ملیں بلکہ میڈیاسے بھی ملیں … اور انہیں بتائیں کہ اس سے امریکہ کے تشخص کو نقصان پہنچ رہا ہے … اور اس سے امریکہ کے خلاف انتہا پسندی اور دہشتگردی کو فروغ مل رہا ہے کیوں کہ …جس طرح سے عافیہ اور اس کے بچوں کے ساتھ سلوک کیا گیا …اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ امریکی شہریوں کے لئے قانون اور ہے اور مسلمانوں کے لئے اور ہے …اس سے امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچ رہا ہے… آپ اسی صورت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں … جب آپ لوگوں کے دل جیتیں گے۔اس طرح سے تو دہشت گردوں کو فائدہ ہورہا ہے۔ امریکی میڈیاکو اس پاکستانی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے قائل کیا جائے اور … امریکی قانون سازوں کو بھی۔ (معید پیرزادہ) ایوون، عمران کے خیال میں ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہئے اور ایک سرکاری وفد … امریکہ بھیجنا چاہئے۔ آپ کے خیال میں اب عافیہ پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد کیاکیا جاسکتا ہے؟ (مریم ایوون ریڈلے) اسے امریکہ میں انصاف نہیں ملے گا اور پاکستانی حکومت بھی اسے انصاف دلانے کے لئے کچھ … نہیں کررہی ہے۔ اس لئے یہ پاکستانی عوام کو ہی کرنا ہوگا جیسے لانگ مارچ اور احتجاجی ریلیاں وغیرہ … جب تک سیاستدان اس پر توجہ نہ دیں کیوں کہ جو لوگ حکومت میں ہیں … وہ میڈیا کے سامنے آکر تو کہہ دیتے … مگر اصل میں وہ کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس معاملے… میں اپنی جان چھڑالیں گے۔ اور ہم نے دیکھا کہ برطانیہ کے لارڈ نذیر احمد نے … واشنگٹن جا کر وہاں سے لوگوں س اس معاملے پر بات کی …اور انہیں وہاں جاکر معلوم ہوا کہ پاکستانی حکومت نے اس معاملے پر کچھ کیاہی نہیں اور نہ ہی سرکاری … طور پر عافیہ صدیقی کو پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست کی ہے۔ پاکستانی حکومت جو کہ عوام کے ٹیکسوں سے 2 ملین ڈالر کی رقم عافیہ کے کیس پر خرچ کررہی ہے اس نے عافیہ کو پاکستان کے حوالے …کرنے کی درخواست ہی نہیں کی ہے۔ (معید پیرزادہ) آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی حکومت صرف عوام کو مطمئن کرنے کے لئے یہ سب کر رہی ہے؟ (مریم ایوون ریڈلے) ہاں مگر میں یہ ضرور جاننا چاہتی ہوں کہ آخر عافیہ صدیقی ایسا کیا جانتی ہے … جو پاکستانی حکومت عافیہ کو واپس نہیں بلانا چاہتی ؟(معید پیرزادہ) عمران صرف عافیہ صدیقی ہی نہیں جیسا کہ مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے سینکڑوں کی تعداد …میں پاکستانی امریکہ کے حوالے کئے گئے۔ تو ایسا کیا کرنا چاہئے کہ یہ سب دوبارہ نہ ہوکہ پاکستانی گرفتار … کئے جائیں اور بغیر کسی قانونی کاروائی کے غیرملکیوں کے حوالے کئے جائیں … (عمران خان) ہمارے پاس اتنا مضبوط عدالتی نظام ہونا چاہئے جو کہ پاکستانی شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے … جو کچھ ہوا ہے وہ غیرآئینی ہے غیرقانونی اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مختلف الزامات کی بنیاد پر یہاں لوگوں کو اٹھایا گیا ۔ کچھ امریکہ کو بیچ دیئے گئے۔ اور بہت سے مار دیئے گئے۔ ماورائے عدالت قتل پاکستان میں اب بھی جاری ہیں۔ ڈرون حملے بھی ماورائے عدالت قتل ہیں۔ کوئی قانونی جواز نہیں ہے کہ آپ خود ہی جج ہوں اور خود ہی سزا دیں۔ کچھ لوگ امریکی CIA بیس پر بیٹھے فیصلہ کررہے ہیں کہ فلاں جگہ بمباری کرنی ہے۔ کوئی پرواہ نہیں کہ کتنی معصوم جانیں ضائع ہور ہی ہیں … اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 44 ڈرون حملوں میں مرنے والے 708 افراد میں سے 700 عام شہری تھے اور صرف 8 دہشت گرد۔ لہٰذا اس طرح ماورائے عدالت اقدامات پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ ہماری اپنی فوج کو رہائشی علاقوں میں بمباری نہیں کرنی چاہئے۔ ایسا تب ہی ہوتا ہے جب حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھیں۔ اور امریکہ اسی بات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ایک آمر کے جانے کے بعد دوسرا NRO آمر ہم پر مسلط ہے۔ اور چونکہ یہ کٹھ پتلی حکمران ہیں اس لئے … پاکستانی قانون کی توہین کرتے ہیں۔
اس انٹرویو کا لنک https://www.youtube.com/watch?v=Y6cW_zHNBvI یوٹیوب پر آج بھی موجودہے۔2 مارچ،2010 کو یہ انٹرویو عافیہ کی 38ویں سالگرہ کے موقع پر ایک نیوز چینل سے نشر کیا گیا تھا۔ اس وقت امریکی عدالت نے عافیہ کی 86 سالہ سزا کا فیصلہ محفوظ کرلیاتھا۔اب عافیہ کی قیدناحق کو 15 سال مکمل چکے ہیں اس دوران وہ اپنے تین کمسن بچوں سمیت 5 سال تک لاپتہ بھی رہی تھی۔ان 15 طویل سالوں کے دوران پاکستان کی تین قومی اسمبلیوں نے اپنی مدت معیاد مکمل کرلی ہے۔ اب چوتھے عام انتخابات کے دن نزدیک آتے جارہے ہیں۔مشرف کے ماتحت حکومت اور اسمبلی دونوں ہی آزاد نہ تھی اسی لئے اس دورکی جمہوری حیثیت کو تسلیم نہیں کی جاتا ہے اس لئے اس پر بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے مگراس کے بعد زرداری اور نوازشریف کا دوربھی کچھ کم آمرانہ نہیں گذرا۔ اس پورے دس سالہ دور میں حکمرانوں، اس کے اتحادیوں اور سرکاری حکام نے مالی بدعنوانی اوراختیارات کے ناجائز استعمال کے بدترین ریکارڈ قائم کئے ۔ انہوں نے ملک سے غیرقانونی طور پر اربوں ڈالر کی بدترین منی لانڈرنگ کے ذریعے مختلف ممالک میں ناجائز دولت کے انبار لگا دیئے گئے ، اربوں روپے کی جائیدادیں اور کاروبار بنائے ۔ حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی یہ مالی اور اختیاراتی کرپشن جب ملک کی سلامتی اور بقاء کیلئے خطرہ بن گئی تو ریاست کو حرکت میں آنا پڑا۔پانامہ لیکس اسکینڈل نے برسراقتدار سیاسی قیادت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنے کی بنیاد فراہم کی جس کا سہرا تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے سر جاتا ہے جو عرصہ دراز سے ملک میں انصاف پر مبنی نظام قائم کرنے اور کرپشن کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کررہی تھیں۔ اس معاملے میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی قیادت کے کردار کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔
ڈاکٹر عافیہ بھی حکمرانوں اور سرکاری حکام کی کرپشن کی متاثرہ ہے جسے انصاف فراہم کرنے کا فریضہ ریاست اور ریاستی حکام کو ادا کرنا باقی ہے۔ یہ فرض اور قرض پاکستانی قوم پر ہی نہیں پوری امت مسلمہ پر واجب الاداہے۔جماعت اسلامی کے موجودہ و سابق امیر اور دیگر اکابرین عافیہ کے معاملے کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اب جبکہ دینی جماعتوں نے ’’ متحدہ مجلس عمل ‘‘کو ایک مرتبہ پھر فعال کردیا ہے تواس خالص دینی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کو ڈاکٹر عافیہ کی باعزت وطن واپسی کو اپنے دستوراور جدوجہد میں اولین ترجیح دینی چاہئے۔جماعت اسلامی کے امیر جناب سرج الحق کو اپنی سابقہ روایت کے مطابق فوری کردار ادا کرنا چاہئے۔ جہاں تک بات ہے تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کی تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ عافیہ کی وطن واپسی کیلئے عملی جدوجہد کا آغاز آپ نے ہی کیا تھا اب وقت آگیا ہے کہ عافیہ کو واپس لا کر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں۔میرے یہ الفاظ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ عافیہ کی وطن واپسی کیلئے تمام سیاسی قیادت کو ایک پیج پر آجانا چاہئے ۔ یہ کسی ایک دینی یا سیاسی جماعت کا ایشو نہیں ہے۔ یہ اقوام عالم میں پاکستان کی عزت اور وقار کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے عوام تو اسی طرح سوچتے ہیں اب یہ سوچ سیاسی قائدین کو بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ عمران خان صاحب، خدارا اس نیک مقصد کیلئے پاور میں آنے کا انتظار نہ کریں ، اس کی ابتداء ابھی سے کردیں کیونکہ اقتدار میں آکر آپ کو یہ کام سرکاری حکام سے لینا ہے۔ان کو ابھی سے آئین اور قانون کا پابند بنائیں۔
اہم بلاگز
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...