امتحانات کی آمد سے ہی طلبہ ،اساتذہ اور منتظمین مدارس کی پریشانیاں نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہیں۔امتحانات کا سامنا تو طلبہ کرتے ہیں لیکن امتحانات کی وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ کا سامنا طلبہ کے علاوہ، اساتذہ اکرام اور منتظمین مدرسہ کو بھی کرنا پڑتا ہے ۔ طلبہ کے ذہنوں میں اکثر ایک سوال گردش کرتا ہے کہ آخر امتحان کی کیا ضرورت ہے۔ امتحان طلبہ کے علمی صلاحیتوں کی جانچ، علمی پختگی،گہرائی و گیرائی کے علاوہ تعلیم کے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کامیابی کے تناسب کی جانچ کے لئے ضروری ہوتا ہے۔امتحانات علمی بیداری و ،چستی کے ساتھ ساتھ طلبہ میں نظم و ضبط پیدا کرتے ہیں۔امتحان کے ذریعے سماج کے لئے مطلوب افراد کی تیاری کا کام بھی انجام پاتا ہے ۔ خوشگوار زندگی اور تابناک مستقبل کے لئے امتحان کا سامنا ضروری ہوتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کے خواہش مندطلبہ امتحان کو ایک بوجھ کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو ،بہتر بنانے اور ثابت کرنے کا ایک وسیلہ سمجھتے ہیں۔ جو طلبہ طالب علمی کے زمانے میں ہر سبق کے بعد امتحان کی تیار ی کو خود پر لازم کر لیتے ہیں وہ زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی کا خود کو اہل پاتے ہیں۔ امتحان طلبہ کے لئے ایک مشکل آزمائش ضرور ہے لیکن جب وہ امتحان کا خوش دلی سے سامنا کرتے ہیں تو یہ آزمائش ایک گوناگوں سکون و انبساط میں تبدیل ہوجاتی ہے۔امتحان کی تیاری و تحریر کے مناسب طریقہ کار سے عدم آگہی کے سبب طلبہ امتحان کا خوف،اضطراب ، بے چینی،عدم اعتماد اور احساس کمتری جیسے متعدد مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ ناکامی و رسوائی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔سال بھر سخت محنت و تیاری کے باوجود طلبہ امتحان کی آمد سے خوف و پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات ہر طالب علم کی زندگی میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔کم عمری و نا تجربہ کار ی کی بناء پر بورڈ امتحان طلبہ کے لئے ایک تلخ اور اذیت ناک تجربہ ہوتا ہے۔طلبہ مثبت سوچ اورسخت محنت کے ذریعہ امتحانی خوف پر نہ صرف قابو پانے میں کامیابی حا صل کر سکتے ہیں بلکہ نمایا ں کامیابی کو بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔طلبہ کی ذہنی سطح چاہے کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو وہ امتحانات کے خوف کا شکار ہوسکتے ہیں۔امتحانات کے خوف سے نجات کے لئے طلبہ ماہرین تعلیم کے مشوروں اور تجاویز پر عمل کر یں۔امتحان کی شب جلد سونا طبی اور نفسیاتی نکتہ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔مکمل نیند لینے سے آپ امتحان کی صبح اپنے آپ کو تر و تازہ چاق و چوبند پائیں گے برخلاف اس کے اگر رات دیر تک مطالعہ یا کسی اور وجہ سے بیدار رہیں گے تو اگلی صبح آپ خو د کو تھکا ہوا اور تناؤ کا شکار محسوس کریں گے۔ تناؤ اور تھکاوٹ کی وجہ سے امتحا نی مظاہرے پر خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔امتحان کے دباؤ کی وجہ سے اکثر طلبہ غذا سے لاپروائی برتے ہیں جس کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوجاتی ہے جس سے کارگردگی متاثر ہونے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ہلکی پھلکی غذا کارکردگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔بسیار خوری(زیادہ کھانے سے)سے پرہیز کریں جس سے غنودگی پیدا ہوتی ہے اور ہاضمہ کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔امتحان سے قبلمذکورہ امور پر توجہ دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ذیل میں امتحان لکھنے کے چند کارگر طریقوں کو پیش کیا جارہا ہے جو طلبہ کی کامیابی میں کلیدی کردار کے حامل ہیں۔
(1)امتحان کے لئے درکار اشیاء کا انتظام؛۔امتحان سے ایک یوم قبل امتحان کے لئے درکار ضروری اشیاء و سامان کو تیار کرلیں۔امتحان گاہ کو لے جانے والی اشیاء کی ایک فہرست مرتب کر لیں مثلا ہال ٹکٹ،پین،پنسل ،امتحانی پیڈ ،ربڑ،پٹری،جیو میٹری بکس وغیرہ امتحان گاہ روانہ ہونے سے قبل اپنے ساتھ رکھ لیں۔وقت سے پہلے کم از کم آدھا گھنٹہ قبل امتحان گاہ پہنچ جائیں۔امتحان گاہ میں فراہم کردہ اپنی نشست و کمرہ کی صحیح جانچ کر لیں تاکہ امکانی افراتفری سے خود کو محفوظ رکھا جا سکے۔کسی بھی قسم کی افرا تفری امتحان سے قبل ذہنی سکون کو درہم برہم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
(2)تنظیم اوقات؛۔امتحان کے دوران وقت کے بہتر استعمال کے لئے اپنے ہاتھ پر گھڑی باندھیں ۔وقت کے زیاں سے بچیں اورقت کی تنظیم کو ملحوظ رکھیں۔سوال کے لئے مختص نشانات کے حساب سے جواب پر وقت صرف کریں۔طویل جوابات اور مختصر جوابات کو تحریر کرنے سے پہلے ان پر کتنا وقت صرف کرنا ضروری ہے طئے کرلیں ۔
(3) امتحانی پرچے میں دی گئی ہدایات کا غور سے مطالعہ کریں اور ہدایات کے مطابق عمل درآمد کریں۔سوالات کے پرچے کو اچھی طرح سے پڑھیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ سے کیا پوچھا جارہاہے۔سوال کے عین مطابق اپنے جواب کو تحریر کریں غیر متعلق تفصیلات بیان کرنے سے مکمل احتراز کریں۔
(4)بہترین سے بہتر کی سمت پیش قدمی؛۔ جوابی بیاض میں پہلے تحریر کیئے جانے والے سوال کا جواب ممتحن(Examiner) پر آپ کی قابلیت اور ذہانت کی چھاپ ڈالتا ہے۔آپ کے پہلے جواب کا تاثر ممتحن کی توجہ آپ کی جانبمبذول کرنے میں کار گر ثابت ہوتا ہے۔آپ کے جواب کی گہرائی و گیرائی کے باعث ممتحن آپ کی مضمون پر گرفت کا اندازہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر آپ اپنے پہلے ہی جواب کے ذریعہ ایک بہتر تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بعد کے دیگر سوالات کے جوابات تحریر کرنے میں آپ سے سرزد ہونے والی معمولی غلطیوں کو وہ نظر انداز کر سکتا ہے۔اسی لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے پہلے جواب کو تحریر کرنے میں گوناگوں توجہ سے کام لیں اور دھیان رہے کہ معمولی سی معمولی غلطی آپ سے سرزد نہ ہونے پائے۔کانٹ چھانٹ اور کتر بیونت سے آپ ممتحن کو غلط تا ثر دیں گے۔سوالات کے جوابات تحریر کرتے وقت سلسلہ وار جوابات تحریر کرنے کو ترجیح دیں۔لیکن سلسلہ وار جوابات کوتحریر کرنا ضروری نہیں ہے۔جن سوالات کے جوابات آپ بہتر جانتے ہیں پہلے شروعات ان سوالات سے ہی کریں ۔ایسے سوالات کے جوابات کوپہلے تحریر کرنے سے اجتناب کریں جن کے متعلق آپ کا اعتماد متزلزل ہے۔پہلے آسان سوالات کی طرف توجہ کریں پھر مشکل سوالات کو حل کریں۔ایک بھی سوال کو ہر گز نہ چھوڑیں۔
(5)ممتحن(Examiner) کی توجہ کو مہمیز کریں؛۔ممتحن ہی وہ واحد شخص ہوتا ہے جس کو علم ہوتا ہے کہ آپ نفس مضمون کو بہتر جانتے ہیں کہ نہیں۔اگر آپ ممتحن کو اپنے پہلے جواب کے ذریعہ ہی قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ آپ نفس مضمون سے کما حقہ واقف ہیں تب یقیناًوہ آپ سے بعد میں سرزد ہونے والی دیگر جوابات کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کر دے گا۔امتحانات میں اعلی پوزیشن حا صل کرنے والے طلبہ اکثر پہلے ان سوالات کے جوابات تحریر کرتے ہیں جن پر ان کی بہترین دسترس ہوتی ہے۔اگر ممتحن صرف سرسری جائزہ لینے کا عادی ہوتو آپ کے بعد والے جوابات پر بھی وہ سرسری نظر ہی ڈالے گا۔اگر آپ اپنے جوابات کی تنقیح و جانچ سے ممتحن کو باز رکھنا چاہتے ہیں تب ضروری ہے کہ پہلے آپ وہ جوابات تحریر کریں جن پر آپ کو مکمل عبور ہو بعد ازاں ان جوابات کی جانب توجہ دیں جن پر پہلے تحریر کردہ جواب سے کم عبور ہو اور اسی طرح جوابات کی تحریر کو ممکن بنائیں۔اردو،انگریزی،ہندی،تلگو،ریاضی،سائنس،اور سماجی علم تمام مضامین میں یہ طریقہ کار سود مند ثابت ہوتا ہے۔
(6)پرچے کو عمدہ طریقہ سے پیش کریں؛۔ممتحن آپ کے کسی اہم اصطلاح کو خط کشیدہ نہ کرنے پر یا عدم خوش خطی کی بنا ء پر آپ کو نشانات سے محروم نہیں کر سکتا ہے۔لیکن آپ کے اہم اصطلاحوں کو خط کشیدہ کرنے اورجوابات کوبہتر اور خوش خط تحریر کرنے سے ممتحن کو نشانات دینے میں سہولت و آسانی ہوتی ہے۔ بعض طلبہ غیر ضروری طور پر اپنے پرچے کو رنگین قلموں سے سجانے سنوارنے میں اپنا وقت ضائع کر تے ہیں جس کی قطعی ضرور ت نہیں ہوتی ہے۔ تحریرکردہ جواب کے نفس مضمون سے بخوبی واقف ہونے کا ممتحن کو تاثر دینے میں اگر آپ کامیاب ہوجاتے ہیں تب آپ نشانات کو حاصل کرنے میں بھی یقیناًکامیا ب ہوجائیں گے۔ہر جواب کے بعد چند سطر لکھنے کی جگہ چھوڑدیں خاص طور پر تفصیل طلب جوابات کے لئے چند سطر لکھنے کی جگہ چھوڑنا سود مند ہوتا ہے۔اس طریقے سے نہ صرف آپ کی پیش کش واضح نظر آئے گی بلکہ بعد میں اگر آپ اپنے جواب میں مزید اضافے کے متمنی ہیں تو آپ کو جگہ کی قلت کا اندیشہ نہیں ر ہے گا۔دو سطروں (لائینوں) کے درمیان مزید ایک سطر لکھنے کی گنجائش ہمیشہ رکھیں۔اس طریقہ کار کے ذریعہ جوابی بیاض کی دوبارہ جانچ کے وقت آپ جواب میں ضرورت کے مطابق تبدیلیا ں لاسکتے ہیں بھولے یا چھٹے ہوئے الفاظ و جملے بھی تحریر کر سکتے ہیں اور اس عمل سے جوابی بیاض کی خو ب صورتی پر کوئی اثر بھی نہیں پڑے گا اور وہ پہلے ہی کی طرح صاف اور اچھی نظر آ ئے گی۔
(7)نفس مضمون پر خصوصی توجہ دیں؛۔ریاضی ، سائنس اور سماجی علم کے پرچوں میں جوابات کو مناسب اکائیوں میں تقسیم کرتے ہوئے نکات کی شکل میں جواب تحریر کریں۔منظم سلسلہ وار درجہ بہ درجہ ہر سوال کے حل کو تحریر کریں۔جہاں بھی ضابطوں کے استعمال کی ضرورت درپیش ہو استعمال سے گریز نہ کریں۔گراف کو اتارتے وقت پیمائش کا خاص خیال رکھیں ۔آخر میں جواب کو نمایاں کرنے سے نہ چوکیں۔توضیح و تشریح کے لئے متوازن مساوات تحریر کرنا ضروری ہوتا ہے۔رے (Ray)اور سرکٹ(Circuit) کے خاکوں میں تیروں کا صحیح استعمال کریں۔سوالات جیسے وجوہات بیان کر و،مختصر جوابات ،نمایاں خصوصیات اور استعمالات میں جوابی نکات مختص کردہ نشانات کے مطابق ہی تحریر کریں زیادہ نکات تحریر کرتے ہوئے وقت ضائع نہ کر یں۔
(8)جامع و مفصل جوابات تحریر کریں؛۔موضوعاتی (نفسیSubjective) پرجہ میں ممتحن کو بہت زیادہ متن کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے ۔بہت سارے جوابی بیاضات جو کہ طویل متن پر مشتمل ہوتے ہیں ممتحن کے لئے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔جہاں کہیں بھی ممکن ہو اپنے جوابات کو اہم نکات کے ذریعہ درجہ بہ درجہ سلسلہ وار پیش کریں۔ہمیشہ موزوں توضیح و تشریح مختصر پیراگراف کی شکل میں انجام دیں۔بالکل ہی اختصار سے کام نہ لیں اور نہ ہی حد سے زیادہ طوالت کو اختیار کریں۔ممتحن کے فرائض انجام دینے والے اکثر اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس طر ح کی ایک غلطی کی وجہ سے طلبہ کو پرچے میں (4-5)نشانا ت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔آپ خود کو ایسی غلطی سے محفوظ رکھیں۔
(8)سیدھا سادھا صاف خاکہ اناریں؛۔ امتحان میں خا کہ اتارنے کا مقصد ممتحن پر خاکے کے مختلف اعضاء کے محل وقوع اور ان کے ناموں سے آپ کی واقفیت کو واضح کر نا ہوتا ہے ۔اکثر طلبہ اپنے خاکوں کو پیچیدہ طریقے سے اتارنے کی وجہ سے نشانات سے محروم ہوجاتے ہیں۔انتہائی تفصیل کے ساتھ آرٹس کی طر ح اتارے گئے خاکے سے آپ کا سیدھا سادھا صاف ایک منٹ میں اتا را گیاخا کہ بہتر ہوتا ہے۔اعضاء کی نامزدگی کو جلی حروف میں انجام دینے کے ساتھ خا کے کا عنوان تحریر کرنے سے نہ چوکیں۔
(10)پرچہ کی دوبارہ جانچ کرلیں؛۔ممتحن آپ کے سو(۱۰۰)فیصدی پر چے کو لفظ بہ لفظ نہیں پڑھتے ہیں وہ کلیدی الفاظ کو تلاش کر تے ہیں۔ اکثر اوقات امتحانی دباؤ کی بناء پر دوران امتحان ہم چند کلیدی الفاظ کو جانتے ہوئے بھی نہیں لکھتے ہیں ۔آپ ایسے اغلاط کو صرف اپنے پرچے کی دوبارہ جانچ کے ذریعہ ہی درست کر سکتے ہیں۔
(11)اضافی سوالات کے جوابات بھی تحریر کریں؛۔ہر سال طلبہ امتحان ہال سے مقررہ وقت سے پہلے نکل جاتے ہیں جبکہ امتحان ہال سے وقت سے پہلے نکلنے پر کو ئی نشانات نہیں دیئے جاتے ہیں۔وقت سے پہلے امتحان ہال سے نکلنے سے بہتر ہے کہ اضافی سوالات کے جوابات تحریر کیئے جائیں۔اگر آپ کے کسی جواب میں کوئی نقص یا کوتا ہی واقع ہوگئی ہے تو آپ اس کا ازالہ اضافی سوال کے جواب تحریر کرتے ہوئے انجام دے سکتے ہیں۔ہر سال اعلیٰ نشانات حاصل کرنے والے طلبہ کی جانب سے اضافی سوالات کے جوابات تحریر کرنے کی حکمت عملی نہایت ہی سود مند ثابت ہوئی ہے۔لیکن یہ کام آپ کو تبھی انجام دینا چاہئے جب آپ اپنے جوابی بیاض کی مکمل طریقے سے دوبارہ جانچ کرچکے ہوں۔
(12)جوابی بیاض کی حوالگی؛۔اپنے جوابی بیاضات کو ٹھیک طریقے سے ترتیب وار باندھنے کے بعد پرچے کی دوبارہ جانچ کرتے ہوئے جوابات کے درمیان لکیر کھینچتے ہوئے اہم جملوں کو خط کشیدہ کرتے ہوئے آپ اپنے پرچے کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔اس طر ح کے اختتامی اضافے آپ کو تبھی انجام دینے چاہئے جب آ پ نے اپنے پرچے کی مکمل ددوبارہ جانچ کر لی ہو اور اس طرح کے کام کے لئے آپ کے پاس فاضل وقت بچا ہوا ہو۔اس طریقہ کار سے آپ اپنے پرچے کو بہتر اور قابل توجہ بنا سکتے ہیں۔مذکورہ بالا امور پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہر طالب علم وہ کامیاب حا صل کرسکتا ہے جس کی اس نے تمنا کی ہویا جس کا وہ مستحق ہے۔
اگر امتحان میں کم نشانات حا صل ہوں تو مایوس نہ ہو ں اور اپنے کسی بھی استاد سے بدگمان نہ ہوں۔اچھی پوزیشن حاصل کرنے والے ساتھیوں سے حسد کے بجائے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر غور کریں اور اللہ سے دست بدعا ہوجائیں۔ خدانخوستہ نا کامی کا سامنا کرنا پڑے تو بھی مایوس ہونے کی قطعی ضردرت نہیں ہے۔اللہ جسے چاہتا ہے کامیاب و کامران کرتا ہے صرف تیاری اور اسباب پر نظر رکھنے سے کامیابی ہاتھ نہیں آتی ہے بلکہ کامیابی کے لئے پڑھائی کے ساتھ ساتھ اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگنا بھی ضروری ہے۔اللہ کے فیصلے پر راضی ہوجائیے اور عزم مصمم،بلند ہمتی او ر بلند حوصلگی سے مستقل محنت جاری رکھیئے۔
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
ماں کی تمنا
یہ 2010 کی بات ہے جب مجھے اللہ رب العزت نے پہلی مرتبہ حج کرنے کی توفیق عطا کی الحمداللہ ! ہمارے گروپ میں بوڑھے، جوان یہاں تک کہ کچھ نوعمربھی شامل تھے، حج کی مشقت کے بارے میں تقریبا سب ہی جانتے ہیں، لیکن ہم حاجیوں کو اس وقت سخت حیرانی ہوئی جب ہمیں اپنے گروپ میں اس عمر رسیدہ خاتون کے بارے میں معلوم ہوا، جسکی عمر تقریبا اسّی برس تو یقینا ہوگی وہ چلنے پھرنے یہاں تک کہ پوری طرح بیٹھنے سے بھی لاچار تھی، منی میں اسے اسکا بیٹا وہیل چیئر کے ذریعے خواتین کے خیمے میں چھوڑ گیا جہاں اسکی بہو اور باقی خواتین کی مدد سے اسے بستر پر لٹا دیا گیا اسکے ہاتھ میں تسبیح تھی، وہ سارا دن لیٹ کر اشاروں سے ہی نماز وغیرہ پڑھتی، اسکی بہو کا تعاون بھی اس خاتون کے ساتھ اتنا ہی تھا جتنا کہ ہم دوسری خواتین کا تھا لیکن بیٹا جو تقریبا چالیس بیالیس سال کا ہوگا اسکی اپنے ماں کے ساتھ محبت اور اسکی خدمت دیکھ کر ہم سب کی زبان سے سے بے اختیار جملہ نکلا کہ بیشک اسکا حج تو مقبول ہوگیا بلکہ یہ بندہ تو دگنا ثواب حاصل کر رہا ہے، وہ والدہ کا منہ ہاتھ تک خود دھلواتا، وضو کرواتا، کھانا اپنے ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے نوالے بناکر یوں کھلاتا جیسے کہ ایک شیر خوار بچے کو پیار سے ماں کھلاتی ہے، مِنیٰ سے مزدلفہ کے سفر میں ہم نے اس بیٹے کو کبھی ماں کے پاوں دباتے دیکھا، کبھی اسے پیار سے وہیل چیئر سے اپنے بازوں میں اٹھاکر زمین پر سلاتے دیکھا، اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پاوں، بازو وغیرہ سہلاتا، پھر کبھی پیشانی پر بوسہ دیتا، یعنی ان چار پانچ دنوں میں ہمیں ماں کے ساتھ اس کا حسن سلوک دیکھ کر قرآن پاک کی یہ آیت یاد آگئی،،،
! رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا
سبحان اللہ !
ہم سب حاجیوں کو ایک تجسس یہ بھی تھا کہ اس عمر میں اتنی مشقت سے بہتر تھا کہ وہ کچھ عرصے پہلے ہی حج کرلیتی جب اسے اسکی طاقت تھی۔
اس سلسلے میں اسکے بیٹے نے حج کی ادائیگی کے بعد حاجیوں کو بتایا کہ میری ماں کی شروع ہی سے یہ دلی تمنا و خواہش تھی کہ وہ حج کی سعادت حاصل کرے لیکن ہمارے پاس وسائل نہ تھے، یہ بات میں جانتا تھا،اور سوچتا کہ جب بھی میں اس قابل ہوا تو میں ماں کو ضرور حج کرواوں گا، اور اب میں اس قابل ہوچکا ہوں کہ میں اپنی ماں کی یہ خواہش پوری کرسکوں، لیکن میں سوچ رہا تھا اب تو وہ معذوری کی وجہ سے نہیں چل سکے گی لیکن جب اس نے مجھے کہا کہ وہ آج بھی یہ تمنا رکھتی ہے، تو میں انکار نہ کرسکا، میرا باپ تو اس دنیا میں نہیں رہا لیکن ماں زندہ ہے، لہٰذا میں آج اس سعادت سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہتا، میری تکلیف اس تکلیف سے یقینا نہ ہونے کے برابر ہے جو اس نے میری پیدائش...
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
مصنف نے بہت اچھی گاوش کی ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اللہ رحمن انکے زور قلم میں میں اضافہ فرماۓ، آمین۔
شکریہ