انسانی زندگی کا وجود چندخواص اور بعض لوازم کا محتاج ہے۔ انسان کا مادی وجود جہاں مختلف اشیاء کا متقاضی ہے وہیں وہ روحانیت کا بھی طلب گارہے۔انسان اپنی بے پناہ ایجادی قوت اور ترقی کے باوجود روحانیت کے بغیر تسکین اور اطمینان نہیں پاسکتا ۔ مادیت اور استعمار کی دوڑ میں آج انسان جس قدر آگے بڑھتا جارہا ہے اسی قدر اس کی روحانی تشنگی میں بھی اضافہ ہوتا جارہاہے۔روحانیت کے متلاشی انسان کا روحانیت کی آڑ میں استحصال آج ایک عام بات ہے۔اسلام جہاں سائنسی اور مادی طاقتوں کے بے اعتدالیوں پر ہمیں لگام کسنے کی حکمت ، طاقت ا ور توانائی فراہم کرتا ہے وہیں ہر اس منطق کا ابطال کرتا ہے جو انسانیت کے اصولوں کے مغائرہیں اور کائنات کی بقاء کے لئے ایک سنگین خطرہ بنتے جارہے ہیں۔سائنس علم،تحقیق ،مشاہدے اور تجربات کا ایک شعبہ ہے جس کی بے اعتدالی اور بے راہ روی کو صرف مذہب(قرآن) کنٹرول کرتا ہے۔اس حقیقت کے تناظر میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سائنس قرآن کا متابع ہے نہ کہ قرآن سائنس کا۔ سائنس کا مذہبی امور میں کوئی دخل نہیں ہے لیکن روحانیت کی ضرورت کے پیش نظر مذہب کا سائنسی معاملات میں عمل دخل ضروری ہے تاکہ انسانیت کی بقاء اور دنیا کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنانے میں سائنسی علوم کے ماہرین کی بے اعتدالیوں اور علمی بے راہ روی پر روک لگائی جاسکے۔سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ مذہب اور سائنس دونوں بھی انسانی زندگی کے لئے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر کوئی اس حقیقت سے سرموئے انحراف کرتا ہے تو وہ انسانی وجود کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھاجائے گا۔ سائنسی علوم کے فروغ کے بعد تین اقسام کے لوگ منظر عام پر ابھر کر آئے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔اگر ان تینوں اقسام کے لوگوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے انانیت۔سائنس اور مذہب میں فرق کرنے والوں کی اکثر تعداد انانیت کا ہی شکار نظر آتی ہے۔مذکورہ تین قسم کے لوگوں میں ایک قسم ان مذہبی حضرات کی ہے جو سائنس کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے اور ایسے لوگ مسلمانو ں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔دوسری قسم کے لوگ صرف سائنس کو اہمیت دیتے ہیں ان لوگوں نے مذہب کو کبھی اہمیت نہیں دی بلکہ یہ مذہب اور خدا کے وجود کے منکر بھی ہیں۔تیسر ی قسم کے لوگ پورے معقول رویوں سے مذہب کی تائید کرتے ہیں اور مذہب کو بھی سائنس کی طرح معقول رویوں اور استدالال کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔جن کے لئے مذہب قابل احترام اور سائنس قابل قبول ہے۔معقولیت ،غور و فکر اور تدبر ان کا خاصہ معلوم ہوتا ہے۔پہلی قسم دوغلے پن کا شکار ہے جو مذہب کو تو اہمیت دیتے ہیں لیکن سائنس کے فروغ اور سائنسی استدالال کے یکسر منکر ہیں۔سائنس کی ایجادات اور سہولتوں سے ہر پل لطف وحظ اور آرام اٹھاتے ہیں لیکن لوگوں کو قانون فطرت پر غور و خوض سے باز رکھنے میں تسکین پاتے ہیں۔دوسری قسم کے لوگ اپنی علمی بے اعتدالی کے باعث سائنسی علوم بلکہ انسانیت کے لئے ننگ نام بنے ہوئے ہیں۔ان لوگوں کی علمی موشگافیوں کی وجہ سے سائنس عوامی برہمی اور مذمت کے نشانے پر ہے۔یہ لوگ علم کے درپردہ منشائے فطرت و قدرت سے بغاوت میں مصروف ہیں۔اس دوسری قسم کے لوگوں کو اگر کانا دجال سے تشبیہہ دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ لوگ سائنسی علوم کی ایک آنکھ رکھتے ہیں۔دانش و بینش اور عقل و فہم کی دوسری آنکھ سے یہ محروم ہے یاپھر ان کی دوسری آنکھ بند ہے۔سائنس کے فروغ اور ایجادات کے یہ علمبردار تو ہیں لیکن انسانیت ان کی علمی بے راہ روی کی وجہ سے تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔تیسر ی قسم کے لوگ سائنس اور مذہب دونوں کی یکجائی کے موئید ہیں اور اس کام میں ہمہ تن جڑے ہوئے بھی ہیں۔تیسری قسم کے افراد کا یہ کام انسانیت کی بقاء اور جذبے بقائے باہم کے فروغ میں بہت معاون بھی ہے۔سائنس کی جتنی بھی علمی حیثیت ہے وہ بجا ہے لیکن اس پر خدا بیزار طبقے نے جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ سائنس کے اختیار کر دہ رویوں کے مغائر ہے۔کیونکہ ایک متعین علم کسی غیر متعین علم کی تعریف ہر گز نہیں کر سکتا ۔
سائنس اور قرآن:۔ سائنسی علوم اورقرآن کے مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سائنس اور قرآن دونوں بھی دلیل و استدلال کے طلب گار ہیں۔ جہاں سائنس دلیل و حقائق پر مبنی ایک ایسا علم ہے جس میں بغیر دلیل کے کسی کلیے کو شرف قبولیت نہیں بخشا جاتاوہیں قرآن بھی تشکیک و ابہام کو گناہ قراردیتاہے۔اگر سائنس کے اس مزاج کو پرکھاجائے تو یہ عین اسلامی مزاج کے مطابق نظر آتا ہے۔اسلام حق پسندی،صداقت کا علمبردار علم دوست مذہب ہے۔قرآن علم اور صداقت کا حامی ہے۔اسلام روئے زمین پر وہ پہلا مذہب ہے جس نے آفاق و انفس کے مطالعے اور غور و خوض پر لوگوں کو ابھارا ،بلایا بلکہ دنیا کو صداقت اور سچائی کا جویا بنایا۔اسلام کے اسی مشاہدہ بینی اور تحقیقی مزاج نے دنیا کو علم و تحقیق کی جانب مائل و گامزن کیا۔قرآن میں جابجا سائنسی مضامین اور عنوانات کا واضح ثبوت موجود ہے۔قرآن میں اگر سائنسی مضامین کو تلاش کیا جائے تو ہمیں فخر ہوگا کہ قرآن کے مضامین میں حیاتیات(بیالوجی) کے متعلق علوم کا 328،مقامات پر،کیمیاء کے متعلق 37مقامات پر ،ریاضی کے تعلق سے 19،گنتی اور اعداد شماری کا باقاعدہ نظام ،طبیعات (فزکس) کے متعلق قرآن میں 31آیات کی موجودگی سائنسی مضامین کے درس و تدریس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ قرآن ،تدریس سائنس کا شد و مد سے حامی نظرآتا ہے۔قرآن کے بیان کردہ اصولوں کو آج تک سائنس غلط ثابت نہیں کر سکی۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قرآن اور اسلام نے سائنس کے دامن کووسعت اور وقار عطا کیا۔امبریالوجی(Embryology)کے معروف سائنسدان کیتھ ایل مورے(Keith L Moore)نے قرآن میں موجود امبریالوجی کی زیرک نکات پر غور و خوض کرنے کے بعد اسلام اور قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ڈاکٹر کیتھ ایل مورے اپنے ایک مقالے میں یو ں رقم طراز ہیں’’یہ بات مجھ پر عیاں ہوچکی ہے کہ یہ بیانات(انسانی نشوونما سے متعلق امبریالوجی کے زیرک نکات)محمد ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کئے گئے ہیں ،کیونکہ امبریالوجی کی جن باتوں کی آج ہم توضیح و تشریح کر رہے ہیں انھیں چودہ سو سال قبل قرآن نے پیش کردیا ۔اس سے یہ بات مجھ پر ثابت ہوتی ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں‘‘۔قرآن،بائیبل اور سائنس کے مصنف موریس بوکالے(Maurice Buccaille) کااسلام اور قرآن کو سائنسی مزاج کا مذہب اور کتاب تسلیم کرتے ہوئے مسلمان ہونا دنیا کو سائنسی علوم سے لیس کرنے اور فروغ دینے میں قرآن اور اسلام کی خدمات کا ایک اعتراف ہے۔سائنسی علوم کے اکابرین کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ سائنسی ایجادات اور قرآنی تعلیمات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ۔اگر بالفرض کہیں تضاد محسوس بھی کیا جاتا ہے تو یہ تضاد محض قرآنی تعلیمات کی روح تک نارسائی کی وجہ سے ہے یا پھر سائنسی تجربے ،مشاہدے میں پائے جانے والے نقائص اس کا سبب ہیں۔
قرآن کے سائنسی مزاج سے دنیا کو متعار ف کرنے کی ضرورت؛۔کسی بھی شئے کی اہمیت و فضیلت اس کی نفع رسانی پر منحصر ہوتی ہے۔سائنس اپنی نفع بخشی اور ایجادات کی وجہ سے مقبول خاص و عام
ہوچکی ہے۔اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا کہ سائنس آج زمانے کی ضرروت بن چکی ہے۔سائنس نے انسانی زندگی کے ہر شعبے پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔سائنس کی ہمہ گیریت اور اثر پذیر ی کی وجہ سے قرآنی علوم سے نا آشنا بعض نام نہاد جدید علوم کے ماہرین اسلام سے شاکی نظرآتے ہیں۔قرآن صرف شرعی احکام ،دینی امور ،مراسم عبودیت ،عقائد و احکام کا مرجع نہیں ہے بلکہ قرآن سائنسی علوم کے متعلق ہر پل ہماری رہبری و رہنمائی کرتانظرآتا ہے اور قرآنی آیات کی تشریٖح و تفہیم کے تحت کئی سائنسی مواد پرمباحث ہمیں مطالعے قرآن کے دوران ملتے ہیں۔میری نظر میں سائنسی معلومات سے قرآن فہمی میں بہت زیا دہ مدد ملتی ہے۔مثلاً جدید سائنسی نظریات کی رو سے زندگی کاآغاز پانی سے ہوا۔اس تناظر میں سورۃالانبیاء کی آیت نمبر 30’’ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی ہی سے پیدا کیا ہے‘‘۔ہمارے سائنسی مزاج کو نمو دینے کے لئے کافی ہے کیونکہ نطفہ بھی تو مائع ہی کی ایک شکل ہے اگر ہم اسے مجازًپانی کہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ جہاں اس کا ہر لفظ گنجینہ معنی کا پرتو ہے اور نئے معنی اخذ کرنے کی گنجائشرکھتا ہے وہیں اس کے پرانے مفاہیم کو بھی غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ڈاکٹر حمید اللہ صاحب مورخ اسلام و مفسر قرآن کے مطابق جدید سائنسی نظریات سے متاثر ہوکر قرآنی حقائق کو سائنسی علوم کے مزاج کے مطابق ڈھالنا قطعاًدرست عمل نہیں ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ سائنسی علوم ،نظریات و مفروضات دائمی نہیں ہوتے ہیں بلکہ انسانی شعور اور تحقیق کی روشنی میں بدلتے اور ترقی پاتے رہتے ہیں۔علم کی ترقی کے ساتھ سائنسی نظریات اور مفروضات میں تبدیلی اور تغیر پیدا ہونا لازمی ہے۔اس تناظر میں ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کے نصوص کو غیر یقینی اور متبدل نظریات پر محمول نہ کریں۔قرآن انسانیت کی رہنما کتا ب ہے۔قرآن زندگی کے سفر میں انسان کو مصائب ،دقتوں اور پریشانیوں سے بچاتا ہے۔قرآن زندگی سے وابستہ ہر شعبہ علم میں انسانیت کو رہبری فراہم کرتا ہے۔اس ضمن میں علامہ سیوطیؒ رقم طراز ہیں’’کتاب خدا وندی ہر چیز کی جامع کتاب ہے،کوئی علم اور مسئلہ ایسا نہیں جس کی اصل و اساس قرآن کریم میں موجو د نہ ہو، قرآن میں عجائب المخلوقات ،آسمان و زمین کی سلطنت اور عالم علوی و سفلی سے متعلق ہر شئے کی تفصیلات موجود ہیں،جن کی شرح و تفصیل کے لئے کئی جلدیں درکار ہیں‘‘۔(تفسیر جلال الدین سیوطیؒ ،جلد 2, سورۃالمومنون آیت نمبر 12،13،14)۔سائنس کائنات ،حیات انسانی کے جن پہلوؤں کو اپنی تحقیق کے ذریعے اجاگر کرتی ہے ان پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھنے میں قرآن کی آیات ہمار ی مدد کرتی ہیں۔’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی،یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘۔(حم السجدہ53)۔سائنس مظاہر قدر ت پر غور و خوض میں مصروف ہے اور قرآن انسانوں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ انفس اور آفاق کی گتھیوں کو سلمجھانے کے لیے اللہ کی دکھائی گئی نشانیوں کو عبث نہ سمجھیں بلکہ غوو خوض اور تدبر سے کام لیں۔دیگر مذاہب اور ان کی کتابوں میں انسانوں کو غور وخوض اور فکر و تدبر سے روکا گیا ان افکار کے ردعمل میں سائنسی علوم اور سائنسدانوں کا مذہب بیزاری کی جانب مائل ہونا لازمی تھا۔سائنسی علوم کے ماہرین خواہ ان کا تعلق مشرق یا مغرب سے ہو اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور قرآن ہی وہ واحد کتا ب ہے جو انسانوں کو غوروفکر اورمشاہدے و تجربے کی جانب راغب کرتی ہے جو کہ سائنس کا اساسی کلیہ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام اور سائنس کبھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوئے۔اگرسائنس اور اسلام کے تصادم کے حوالے سے چند مسلمانوں کا تذکرہ بھی کیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ یہ ان کی رجعت پسندی تھی نہ کہ قرآنی اور اسلامی تعلیمات۔
سائنسی علوم کے فروغ میں نظام تعلیم اور اساتذہ کا کردار؛۔کسی بھی معاشرے کی ترقی و تنزل کا راست تعلق اس کی علمی صلاحیت اور معیار پر منحصر ہوتا ہے۔حصول علم کے اولین مقاصد میں تحقیق ،جستجو،تجربہ ،مشاہدہ، اور حقائق تک پہنچنے کی سعی و کاوش شامل ہوتے ہیں۔تحقیق ،جستجو،تجربہ اور مشاہدے کاجویا اپنے شاگردوں میں پیدا کرنے میں اساتذہ کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ معاشرے کو اوج کمال تک پہنچانے میں سائنسی انداز فکر اور سائنسی مزاج کا پایا جانا نہایت ضروری ہوتا ہے۔سائنس کی تحقیق ،ترقی و تنزل کا راست تعلق معاشرے کے نظام تعلیم سے جڑا ہوتا ہے۔کسی بھی ملک و معاشرے کا طرز زندگی اس کے نظام تعلیم کا پرتو ہوتا ہے ۔بچوں کی شخصیت بھی اسی نظام تعلیم کے تحت ڈھلنے لگتی ہے۔تعلیم معاشرے کو فرسودہ بندیشوں سے آزادی فراہم کرنے میں کلیدی کردار نبھاتی ہے اسی لئے مقاصد تعلیم میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ آیا ہم تعلیم کو معاشرے کی تبدیلی اور جدید کاری کے ایک ذریعہ بنانا چاہتے ہیں یا پرانی فرسودہ اور غیر معقول روایات پر جمے رہتے ہیں۔اسلام روایات شکن مذہب ہے ۔ فرسودہ ، غیر عقلی اور خلاف انسانیت تعلیمی روش کا اسلام نے سد باب کیا ہے۔اسلام نے ہر مسلمان پر غو و خوض اور فکر و تدبر پر زور دیا۔تعلیم کے حصول کو ہر مسلم پر فرض قرار دیا۔تحصیل علم کے متعلق کہا کہ ’’میری بات دوسروں تک پہنچاو اگر چیکہ وہ ایک بات ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(حدیث)۔عموماًاساتذہ کے بے پروائی اور عدم توجہ کے باعث سائنس کو طلبہ ایک خشک اور غیر دلچسپ مضمون سمجھنے لگے ہیں۔اساتذہ کی معلمانہ جہالتوں کے باعث مضمون سائنس کا مطالعہ آج طلبہ کے لئے ایک سزا سے کم نہیں ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ سائنس کے اساتذہ ،سائنس کے چند ضابطے(فارمولے) خاکے اور بنیادی معلومات کو بغیر کسی تفہیم و تشریح کے طلبہ کے دماغوں میں ٹھونستے رہتے ہیں۔ایک لائق استاد جانتا ہے کہ جس طرح سے کسی سوراخ والے برتن میں پانی یا کوئی بھی مائع ذخیرہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن امر ہے بالکل اسی طرح رٹے بازی کا علم بھی دماغ سے ایسے محو ہوجاتا ہے جس طرح سے سوراخ والے برتن سے پانی خارج ہوجاتا ہے۔سائنسی نظریات و ر جحانات سہل تفہیم و تشریح کے بغیربے کیف اور بے جان ہوجاتے ہیں اور یہ مضمون طلبہ کے لئے سوہان روح بن جاتا ہے۔ہمارے روایتی اور فرسودہ طریقہ ہائے تدریس برائے سائنس کی وجہ سے سائنس اپنی اہمیت اور افادیت سے دور ہوتی جارہی ہے۔سائنس کے اساتذہ کو اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کو سائنسی مضامین کی جانب راغب کیا جاسکے ۔مسلمانوں کا سائنس سے عدم التفات ہی ان کی معاشی اور دیگر پسماندگیوں کا سبب ہے۔اگر ہماری تعلیم میں سائنس کی معیاری تدریس بھی شامل رہیں گی تو یقیناً ہم غیر شعوری طور پر اپنی عمومی زندگیوں میں بھی سائنسی طرز کو اختیار کرنے لگیں گے۔سائنسی مزاج پیدا ہونے کے بعد یقیناًً آدمی جواز ،ثبوت اور شواہد کا مطالبہ کرے گا۔جب کوئی فرد اپنی بات کو جواز ،ثبوت اور شواہد کے بغیر پیش کرے گا تو پھر ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ان اوصاف کی وجہ سے آدمی غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہے گا ۔اپنی غلطی تسلیم کرئے گا اور بے جا انانیت کا اظہار کرنے سے باز رہے گا۔مسلم معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم بات کی تصدیق اور تحقیق کے بجائے اختلاف اور تضاد کو قیاس آرائیوں پر ہوادینے لگتے ہیں اور باہمی مسائل میں پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں۔سائنس ہماری ترقی میں ہی مددگارنہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی رویوں کو بدلنے بھی مددگار ثابت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہماری شخصیت کا جھول ختم ہوجاتا ہے اور ہم معاشرے کے لئے قابل قبول بلکہ قابل تحسین ہوجاتے ہیں۔سائنس صرف ڈاکٹر ،انجینئر یا سائنسدان نہیں پیدا کرتی ہے بلکہ ہماری زندگی کے عام رویوں میں بھی تبدیلی کی نقیب ہوتی ہے۔
عصر حاضر کے مسلمانوں کی سائنس سے عدم توجہ؛۔آج مسلمان سائنسی علوم میں پیچھے رہنے کے باعث مادی اور معاشی ترقی میں بہت پسماند ہ ہوگئے ہیں۔آج زمانے میں جتنی بھی مصنوعات اشیاء خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہوں ان کے ایجادات اور دریافت میں کسی مسلمان کا کوئی عمل دخل اوراعانت شامل نہیں ہے۔آج دنیا میں مسلمانوں کے زیر تصرف 57ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومت ہے۔دنیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک ارب 60(ساٹھ )کروڑ پر مشتمل ہے لیکن یہ ہمارے لئے بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ اب تک صرف تین مسلمانوں نے نوبیل پرائز حاصل کیا
ہے۔دنیا کی پانچ سو (500)یونیورسٹیوں کی لسٹ میں چند مسلم یونیورسٹیز کا نام شامل ضرورہے لیکن دنیا کی 100ٹاپ یونیورسٹیز میں کسی مسلم یونیورسٹی کا نام تک شامل نہیں ہے۔ابھی حال میں کی گئی یونیورسٹیز
کی عالمی درجہ بندی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایشیاء کی ٹاپ10یونیورسٹیز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن یہاں بھی سائنس کی تحقیق اور سائنس علوم کی ترویج و فروغ کی سمت کی جانے والی پیش رفت اطمینان بخش نہیں ہے۔عرب ممالک میں سائنس تو کجا نظام تعلیم ہی ا طمینان بخش نہیں ہے۔اگر یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مسلم جامعات کے عالمی درجے میں کسی قدر اضافہ ضرورہوا ہے لیکن عالمی معیار کی جامعات آج تک ہم قائم نہیں کرسکے۔
کسی بھی چیز کی قبولیت ،فضیلت اس کی نفع رسانی پر منحصر ہوتی ہے۔جاپان میں بد ھ مذہب کا جب اولین دور میں داخلہ ہوا تو اس کے حکمران نے حکم صادر کیا کہ پہلے اس مذہب پر چند لوگوں کو عمل پیرا کیا جائے اگر اس مذہب کے ذریعے ان کے طرز زندگی میں تبدیلی ،معاشی خوشحالی،روحانیت اور پاگیزگی پیدا ہوجائے تو اس کو ہم اپنی پوری مملکت میں نافذ کردیں گے۔یہ قول ہم مسلمانو ں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی ہے کہ کیا آج مذہب ہماری زندگیوں کو تبدیل کر رہا ہے۔کیا ہم اپنے ہاتھوں مذہب کی تذلیل اورمذہب اسلام کے لئے ننگ نام بنے ہوئے نہیں ہیں۔آج کے ہمارے مزاج اور ہماری طرز زندگی دیکھ کر کوئی اسلام قبول کرسکتا ہے ۔ہمیں آج اس بات پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
اہم بلاگز
نئی جماعت آگئی
ملکی سیاست میں نئی جماعتوں کے اضافے ہوتے رہتے ہیں، کوئی بالکل نئی اور کوئی پہلے سے موجود جماعت سے نکل کر سامنے آگئی۔ کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جس میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی ہو، ایسے ہی ن لیگ قیادت سے اختلافات کے بعد خارج ہونے والوں نے مل کر نئی جماعت بنا لی۔ یقینا یہ جماعت بھی موجودہ حکومت کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی تاہم اس سے تھوڑا پیچھے جائیں تو عام انتخابات سے قبل کئی جماعتیں وجود میں آئیں۔
جماعتوں کے وجود میں آنے کے پیچھے کئی طرح کے عوامل رہے ہیں۔ جیسے پارٹی سے اچانک نظریاتی اختلافات ہوگئے یا پھر پسندیدہ قیادت ناپسند آنے لگی، بڑوں پر چھوٹوں کو ترجیح دی تو سینارٹی کا مسئلہ آڑے آگیا، کچھ پیسے والے دوستوں نے کہا کچھ نیا کرتے ہیں اور مل کر الگ شناخت بنانے نکل پڑے، نظام میں تبدیلی بھی ہمیشہ اہم وجہ رہی ۔ نئی جماعت بننے، بنانے یا بن جانے کی ایک دو اور بھی بڑی وجوہات ہیں۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ جو بھی نئی جماعت آئی ہے اس کا منشور کتنا متاثر کن ہے اور وہ خود اپنے منشور پر عمل کرنے والی ہے۔ عوام پاکستان پارٹی کے گزرے دنوں کو مدنظر رکھیں تو بننے کا مقصد بالکل واضح ہے۔ لیکن کیا یہ جماعت اپنے مدمقابل کے لیے مشکلات پیدا کرسکے گی یا نہیں، موجودہ حالات و واقعات میں مدمقابل کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے گی یا پھر گزشتہ دنوں نئی بننے والی کچھ جماعتوں کی طرح سمندر کی جھاگ ثابت ہوگی یہ تو وقت طے کرے گا البتہ اب تک جوش و جذبہ روایتی ہے۔
ایک اور پیش رفت بھی ان دنوں ہوئی ہے وہ بھی ایک سابق نئی جماعت کے حوالے سے ہے۔ اس جماعت نے اپنا تعارف کچھ انوکھے انداز سے پیش کیا تھا۔ لوگوں میں کافی چہ مگوائیاں بھی ہوئیں یہاں تک کہ میڈیا پر ان کے اس طرز تعارف پر حیرت کا اظہار کیا گیا، بس لوگ اندازے لگا رہے تھے۔ کسی نے ن لیگ کا دھڑا بنادیا اور کسی نے نظر انداز کرتے ہوئے صرف ان کے تعارفی انداز پر بات کی۔ تعارف واقعی انوکھا تھا۔
اس جماعت کی تنظیم نو کی گئی اور مختلف اضلاع، صوبوں، شعبوں اور حلقوں کی سطح پر اپنے ذمے داران کے تقرر و تبادلے کیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر باقاعدہ اعلانات بھی کیا گیا مگر اب تک کسی نے تعیناتی پر سوال اٹھایا نہ اپنا حق جتایا۔ اس جماعت کی اب تک کی کارکرگی سے وابستہ لوگ مطمئن ہیں اور کچھ غیر وابستہ بھی ان میں شامل ہیں۔
یہ جماعت مرکزی مسلم لیگ کے نام اس وقت زیر بحث آئی ہے جب ملکی سطح پر اس جماعت کے لوگ اچانک نکلے اور شدید مہنگائی کے وقت جب کسی بھی جماعت کو دوسری جماعت پر بھروسہ نہیں ہورہا تھا اور وہ حکومت کیخلاف نکلنے کے لیے تیار نہیں تھی اکیلے مہنگائی کیخلاف اپنا شدید ترین احتجاج ریکارڈ کروایا۔
عوامی حلقوں سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر پلیٹ فورم پر متاثر کن آواز بلند کی اور یوں لوگوں کو ایک تسلی ملی...
فتنوں سےبچاؤ
فی زمانہ نوجوان نسل کی دین بےزاری نے ہر صاحب فہم وبصیرت کوحیرت وپشیمانی میں مبتلاکررکھا ہے۔غیروں کی کارستانیوں اوراپنوں کی حماقتوں نے، ہمیں اس افسوناک صورتحال سےدوچارکیاہے۔میرا موضوع دوسراسبب ہے۔
دیندارطبقےکی ناکامی کی تین اہم وجوہات ہیں۔
اول: قرآن وسنت سےبراہ راست فیض یاب نہ ہونا۔
دوم: کردارکی پسپائی۔
سوم: ظاہری اعمال کوترجیح دینا۔
قرآن وسنت سےدوری؛مختلف تبلیغی گروہوں نے قرآن وسنت سےبھی بڑھ کراپنےاساتذہ کی تعلیمات کواہمیت دےرکھی ہے۔بدلتےہوےحالات کاساتھ دینا، کسی کتاب کےبس کی بات نہیں۔ مستقبل کےپردے میں جھانک کراسکےمطابق رہنمائی کردیناکسی غیرنبی کےلیےقطعاناممکن ہے۔قرآن مجیدکےاندر قیامت تک برپاہونےوالےہرفتنےسےکامل بچاؤکاواضح راستہ موجودہے۔
آج کانوجوان ہرمعاملےمیں دلیل کاطلبگار ہےاورقرآن میں دلائل کثرت سےموجودہیں۔البتہ اگر کوئی شخص پہلےسےبعض تخیلات کوذہن میں راسخ کرچکاہواورانکےمطابق قرآن کوڈھالناچاہےتواس نےتوخوداپنےلیےہدایت کادروازہ بندکرلیا۔
اللہ تعالیٰ نےانسانوں کی رہنمائی کےلیےکتاب نازل کی اوراسکےساتھ معلم بھی مبعوث فرمایا(النحل:۴۴)۔
حجة الوداع کےموقع پرامت کونصیحت کی گئی تھی کہ دوچیزوں کوتھامےرکھناکبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ایک قرآن اوردوسرےسنت۔امت نےدونوں کوخیرباد کہاتوگمراہی اسکامقدربن گئی۔جس چیزکےلیےلوگ محنت کرتےہیں اسےپالیتےہیں۔لوگ دین کےلیےمحنت کرنےپرآمادہ ہی نہیں۔
تقدیرکےقاضی کایہ فتویٰ ہےازل سے
کہ ہےجرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
کردارکی پسپائی؛جب مکےمیں کوئی بھی اسلام کا نام لیوانہیں تھا،ہرطرف بت پوجےجارہےتھے۔ایسےشدید اجنبی ماحول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس تین عظیم ہتھیارتھےجن کاتوڑکافروں کےبس بات نہیں تھی۔١۔ قرآن مجیدکےدلوں کوچھو لینےوالےٹھوس دلاءںل۔٢۔ کردارکی قوت۔٣۔ گفتگوکابے مثل سلیقہ۔
سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ اپنےنبیﷺ کومخاطب کرکےفرماتےہیں کہ اگرآپ تندخواورسخت مزاج ہوتےتولوگ آپکوچھوڑکرچلےجاتے(آیت١۵٩)۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کےاخلاق وکردار سےمتاثرہوکرلوگ دین سےوابستہ ہوئے تھے۔
ہمارےہاں بہت سےداعی حضرات نصیحت کی مشین بن چکےہیں۔وہ سمجھتےہیں کہ انہیں لوگوں کوٹھیک کرناہے۔ خالانکہ ٹھیک تومجھےاپنےآپ کو کرناہے۔ دوسروں تک توحکمت و دانائی اورنرمی ومہربانی سےبات پہنچانی ہےاورانکی ایذارسانیوں پرصبرکرناہے۔
دینی مدارس میں بجوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پرانکی خوب خبرلی جاتی ہےاوراکثربےدردی سےانہیں کنٹرول کیاجاتاہے۔اس رویےکےباعث کاری حضرات کےساتھ ساتھ وہ قرآن سےبھی دورہو جاتےہیں۔بہت سےباعمل اورمخلص مبلغین بھی اپنے جھگڑالوپن اورعدم دانائی کی بدولت دوسروں کی دین بےزاری کاباعث بن جاتےہیں۔بھلااس شخص کی بدنصیبی کاکیاکہناجسکی حماقتوں کےباعث لوگ دین ہی سےدورچلےجائیں۔
ظاہری اعمال کوترجیح دینا؛ایمان کی کمی دراصل ہربرائی کی جڑہے۔ایمان کےبغیرعمل صالح دراصل نقش برآب ہے۔ہمارےہاں ظاہری اعمال پربہت زوردیاجاتاہے۔ مثلاٙٙ ڈوپٹہ لو،نمازپڑھووغیرہ۔جڑکےاندرچھپی خرابی کی اصلاح کی کم ہی فکرکی جاتی ہے۔برائی کوبہت آرائش اورخوبصورت دلائل کےساتھ پیش کیاگیاہے۔
تیرہ سالہ مکی قرآن میں عقائد کی مضبوطی پرزوردیاگیااوردس سالہ مدنی قرآن میں بھی احکام کےساتھ ساتھ کثرت سےتوحیداورآخرت کی یاددلائی گئی۔دراصل کردارکی تشکیل فہم وشعورپرہوتی ہےاورفہم وشعورکی تعمیرمیں عقیدےہی کوسب سےبڑھ کراہمیت حاصل ہے۔
یہاں عقیدہ ہی مختلف شکوک وشبہات کاشکارہوکرغیراہم ہوگیاہےیہاں تک کہ اسکومان لینایاانکارکردیناتقریباًیکساں ہوچکاہے،ایسےماحول میں منافقانہ ذہنیت ہی پروان چڑھ سکتی ہےاورعملاً بھی یہی مناظرہرطرف بکھرے ہوےہیں۔
ہمارےہاں برائی کوبہت آرائش اورخوبصورت دلائل کےساتھ پیش کیاگیاہے۔جنت کی سچی تڑپ اور دوزخ کابےپناہ خوف ہی ان فتنوں سےبچاؤکا سبب بن سکتاہے۔
ماں کے لیے صرف ایک دن؟
جی ہاں ماؤں کے لیے ایک دن مختص کرنے سے ماں اور ممتا کے احساس اور ماں بننے سے بچے کی پرورش تک کے سلسلے میں ماں کے کردار اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ مغرب کی ماں اور مشرق کی ماں میں بہت فرق ہے۔
مغرب میں عورت ماں تو بن جاتی ہے لیکن ممتا کے احساس اور تقاضوں سے پوری طرح واقف نہیں ہوتی یا انہیں پوری طرح سمجھ نہیں پاتی کیونکہ اسکا ماحول اور معاشرے اسے یہ سب سیکھنے اور سمجھنے ہی نہیں دیتا ۔ اسکے برعکس مشرق میں عورت ماں کے روپ میں ایک عظیم ہستی ہے جو بیک وقت مربیہ بھی ہے معلمہ بھی ہے ہمدرد و غمگساربھی ہے معاون و مددگار بھی ہے۔
ماں در حقیقت ممتا کے جذبات و احساسات سے لبریز محبت کا پیکر ہے۔ مشرقی ماں خصوصا مسلم ماں ماں کے لیے امی ماما مما ممی ام مدر اماں مائے بے بے ماؤ رے مورے اور ایسے بہت سے الفاظ مستعمل ہیں۔ دنیا میں ماں کا یہ رشتہ یہ منصب صرف عورت کو ہی نصیب ہوا ہے یہ رشتہ اتنا اہم اور قریبی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی اپنے بندوں سے محبت کو ستر ماؤں کی محبت سے بڑھ کر قرار دیا۔ ماں نو ماہ بچے کو اپنے بطن میں رکھتی ہے تکلیف اٹھاتی ہے اسکے بعد دو سے ڈھائی سال دودھ سے اس بچے کی آبیاری کرتی ہے۔
بچے کے آنے کے بعد ماں کی زندگی کا محور بچہ ہو جاتا ہے اسے سنبھالنا نہلانا دکھانا کھلانا پلانا اسکا گند صاف کرنا اسکی ضرورتوں کو پورا کرنا اسکے ساتھ سونا اسکے لیے راتوں کو جاگنا دعائیں کرنا ۔بچہ اگربیمار ہو جائے تو ماں تیمار داری میں دن رات ایک کر دیتی ہے جب بچہ صحتیاب ہو جاتا ہے تو ماں کھل اٹھتی ہے۔ بچے کی خوشیاں منانا ۔ سالگرہ ( گو یہ اسلامی شعار نہیں لیکن معاشرے میں مروج ضرور ہے) پہلی عید ۔بسم اللہ ۔ آمین روزہ کشائی وغیرہ ۔ بچے کے اچھے مستقبل کی فکر کرنا تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا اس کام میں باپ اور دیگر گھر والے بھی اسکی معاونت کرتے ہیں۔
دین کی چیدہ باتوں سے آگاہ کرنا کلمے اور دعائیں یاد کروانا نماز سکھانا وغیرہ بھی اسی کا کام ہے۔ لیکن ماں اس سب کے صلے میں کچھ نہیں چاہتی سوائے اسکے کہ اسکی اولاد ایمان اور صحت کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔ یعنی ماں کی خدمت اور اطاعت سے جنت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ہمارا تو ہر دن اپنی ماں کے لیے محبت کے اظہار ۔ دعاؤں اور ماں کے لیے مسکراہٹ انکی دل جوئی خبر گیری ضرورتوں کا خیال رکھنے اور خدمت و اطاعت کرنے کا دن ہونا چاہیے۔
ماں ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس میں پورا جہان آباد ہے۔ اگر ہم سمجھیں اور محسوس کریں۔ کیوں نہ ہم عزم کریں کہ اس...
وزیر اعلیٰ کا شوق
جب جب کرے گا ایک منصف مزاج مورخ اورنگ زیب عالمگیر کے روشن کردار اور سادگی و حسن عمل سے مزین اس کی شخصیت کا تذکرہ ، تو بھلے لفظوں ہی میں کرے گا۔ مغلیہ سلطنت کے اس چھٹے بادشاہ نے تقدیر امم کا راز پالیا تھا جبھی تو دیگر کئ اصلاحات کے ساتھ یہ بھی حکم جاری کیا کہ ، موسیقار اور گوییے اور رقاص اپنی راہ لیں۔
اب یہ فنکار بھی تو بڑے چالاک ہوتے ہیں انھوں نے کیاکیا موسیقی کاجنازہ تیار کیا جنازے کو لیے آہ و بکا کرتے شاہی محل کے سامنے سے گزرنے لگے۔ اورنگزیب عالمگیر نے جب دیکھا تو پوچھا،، کس کا جنازہ ہے، بتایا گیا موسیقی کا،،
اورنگزیب نے کہا ،، قبر ذرا گہری کھودنا،،،،
تاریخ گواہ ہے یہ قبر گہری کھدنے کے بعد سلطنت نے خوب ترقی کی۔ اچھی معاشرت کے ساتھ مضبوط معاشی نظام نے لوگوں کی زندگی آسان کردی ۔۔۔ مگر۔۔ افسوس اسی سلطنت کے ساتویں بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے اس قبر کو پاٹ ڈالا ۔ ۔۔۔۔ بس پھر کیاتھا طوائفیں ،گلوکار، رقاص فن اور تفریح کے نام پہ پوری معاشرت کو اپنی گرفت میں لینے لگے ۔ پچھلے بادشاہ نے جو مقام شمشیروسناں کو دیاتھا رنگیلے شاہ نے وہ مقام طاوس و رباب کو دے ڈالا۔ دشمن کو ایسے ہی موقعے کی تلاش ہوتی ہے۔ نادرشاہ کیسے یہ موقع گنواتا اس نے گائیکی و رقص کی دلداہ سلطنت پہ کر دیا زور دارحملہ۔ اور ۔۔۔۔قارئین۔۔۔ اسی سلطنت کی ایک ،مایہ ناز فنکارہ ،، نے اپنے ،فن، ہی کے کسی مظاہرے کے دوران نادرشاہ کے گوش گزار کیا کوہ نور کاراز۔ یوں سلطنت کی دیگر قیمتی اثاثہ جات کے ہمراہ کوہ نور جیسا قیمتی ترین ہیرا پہنچا نادر شاہ کے قبضے میں۔ داستان یہاں ختم نہیں ہوتی مگر یہاں موقع نہیں کہ ہم اس اندوہناک داستان کے آگے کے ابواب کی ورق گردانی کریں ۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔مگر ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے کہ پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز شائد اس داستان کے انھی رنگین کرداروں سے متاثر ہیں جبھی تو چاہتی ہیں قوم کے نونہالوں کو راگ رنگ کا رسیا بنا دیا جائے۔
جی ہاں! پنجاب بھر میں میوزک فیسٹیولز اور تعلیمی اداروں میں موسیقی کے مقابلہ جات کرانے کا فیصلہ یہی تو بتا رہا ہے۔
ہم سا مُتَلَوِّن المِزاج بھی آپ نے کسی کو پایا ہو تو بتاییے گا۔ جب وقت ملے بتاییے گا فی الحال تو ہماری ظرافت کی رگ پھڑک اٹھی ہے۔ اب جب کہ یہ رگ پھڑک اٹھی ہے تو ہمیں نوجوان نسل کے مستقبل میں بہت، ٹھاٹھ، دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ کیسے؟ دیکھیں جی موسیقی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ انہیں ’ٹھاٹھ‘ کہتے ہیں۔ جب ہمارے نوجوان یہ سیکھ جائیں گے تو ان کے ٹھاٹھ بڑھ جائیں گے۔ جب ٹھاٹھ بڑھیں گے تو آپ خود اپنے بچوں کو دیکھ کر کہیں گے بڑے ٹھاٹھ باٹھ ہیں بھئی۔۔۔!
قارئین! ان ٹھاٹھوں سے نکلتے ہیں مختلف راگ مثلاً،،،،،،راگ بھوپالی، راگ ملتانی، راگ مالکونس اور راگ میاں کی ٹوڈی۔۔
ہمیں لگتا ہے پنجاب حکومت کا ’نوجوان‘ وزیرِ اعلیٰ کے ویژن پر پورا اترنے کی خاطر میاں کی ٹوڈی...
درسگاہیں بنیں تھیٹر
سیلاب سے پہلے ماحول ایک آلارم دیتا ہے دریا ساکن ہو جاتا ہے اور فضا سیلاب کی آمد کی اطلاع دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے میں علاقے کےعقلمند اور سمجھدار لوگ پھاؤڑے،بیلچےاور کسیاں اٹھائے دریا کا رخ اختیار کرتے ہیں تاکہ بند مضبوط کیا جاسکے اور رہائشی آبادی کو سیلاب کی تباہی کاریوں سے بچایا جاسکے۔
ایسے ہی طوفان کی آمد سے قبل بھی ہوا رک جاتی ہے،درخت ساکن ہو جاتے ہیں جو پیش خیمہ ہوتی ہے طوفان کا اور اطلاع ہوتی ہے زمانے والوں کےلئے کہ اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کر لیں۔
ہمیشہ زمانے کے دانا بینا لوگ فضا کو دیکھ کر سیلاب،طوفان یا بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اب عوام میں سے جو لوگ ان کی بات کااعتبار کر کے اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کا بندو بست کر لیتے ہیں، وہی تباہی کاری سے بچ جاتے ہیں اور جو ان کی بات کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ان کو بچانے کے لیے کوئی فرشتے آسمان سے نہیں اترتے ۔
چند روز قبل لاہور سے واپسی پر ایک فیملی نظر سے گذری جس میں ایک شریف النفس ماں جو چادر میں لپٹی تھی ایک معزز دکھنے والاباپ اور تین بیٹیاں تھیں ۔سب سے بڑی بیٹی جس نے لان کے سوٹ کے ساتھ ایک کندھے پر نیٹ کا دوپٹہ اٹکایا ہوا تھا اور بچی کے تمام نشیب و فراز واضح تھے۔۔۔۔۔۔وہ فیملی اترنے سے قبل ہماری سیٹس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ اب اس بچی نے جو بولنا شروع کیا تو میں اور ناظمہ بہن منہ میں انگلیاں دابے اس کے انداز ملاحظہ کرنے لگیں۔وہ مسلسل والد کو ڈکٹیٹ کر رہی تھی کبھی کہتی پاپا ادھرہو جاؤ اور کبھی کہتی ادھر ہو جاؤ ،کبھی کہتی فلاں کو گذرنے دو اور کبھی کہتی ویسے کرو۔ اور اچھا خاصا صحتمنداور معزز پاپا اس کے اشاروں پر ایسے عمل کر رہا تھا جیسے کٹھ پتلی ہو۔
پنسرہ جیسے پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے یقیناً نیا نیا کالج ،یونیورسٹی کا منہ دیکھا ہو گا اور نیا نیا ترقی کی راہ پر قدم رکھا ہو گا۔
اسے دیکھ کر سچ میں قرب قیامت کی وہ نشانی یاد آگئی کہ عورت اپنی مالکن کو جنے گی ۔۔۔۔۔۔۔اور مرد کے لیے استعمال شدہ لفظ "دیوث" کو عملاً سمجھ لیا۔
ابھی تو یہ رسمی تعلیم کی کارستانی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
ہم سے تو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے اثرات بد ہی سنبھالے نہیں جا رہے تھے کہ وزیراعلی صاحبہ کے نئے حکم نے ہوش اڑا دیے ۔۔۔۔۔ ۔۔یعنی اب درسگاہیں ،درسگاہیں نہ رہیں گی ۔۔۔۔۔۔مجرا گاہیں اور تھیٹرز بنیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے وطن کے خرد مندو! دھویں کو شعلہ بننے سے قبل پانی ڈال دو،،سیلاب سے پہلے بند باندھ لو،طوفان سے قبل بستر سمیٹ لو،گھروں کے لٹنے سے قبل کنڈیاں لگا لو،عزتوں کے جنازے نکلنے سے قبل بیٹیاں سنبھال لو،درسگاہیں کوٹھے بننے سے قبل منہ سے چوسنیاں نکال دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...