یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے پنجاب کے ایک وزیر نے ایک بیان میں یہ کہہ دیا کہ جس طرح NCC کی تربیت کے تحت طلبہ کو خصوصی مارکس دیے جاتے تھے اسی طرح کالجوں اور یونیورسٹی کی طالبات کو حجاب کی طرف راغب کرنے کے لیے خصوصی مارکس سے نوازا جاسکتا ہے۔ اس بیان پر سیکولر اور لبرل لوگوں نے ہنگامہ کردیا۔ ایک ٹی وی کے پروگرام میں تو حد ہی ہوگئی۔ حسن نثار نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ پردے کا حکم امہات المومنین کے لیے تھا اس کا تعلق دوسری مسلم خواتین سے نہیں تھا۔ یہ قرآن کی نص صریح کا انکار تھا اور پوری امت کا اجماع ہے کہ قرآن کی نص صریح کا انکار کافر ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ حسن نثار نے جو کچھ کہا ہے کہ یہ ان کی شخصی رائے ہے۔ لیکن چند روز پیشتر جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم کے کالم میں حسن نثار کے خیال کی تکرار موجود تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے شاگردوں اور پنجاب کے اہل قلم میں قرآن کی نص صریح کا انکار ایک عمومی رجحان کے طور پر موجود ہے۔ لیکن خورشید ندیم کے کالم میں صرف قرآن کی نص صریح کے انکار ہی کا مسئلہ موجود نہیں۔ انہوں نے کئی اور گمراہیوں کا بھی مظاہرہ فرمایا ہے۔ ’’کیا عبایہ ایک مذہبی مسئلہ ہے؟‘‘ کے عنوان کے تحت خورشید ندیم نے لکھا۔
’’اس باب میں مجھے اس تفہیم سے اتفاق ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کے لیے کوئی لباس طے نہیں کیا۔ پردے کی اصطلاح بھی اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان ایک خاص اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے۔ یہ شعور اس کی شخصیت اور فطرت کا حصہ (in built) ہے۔ یہ شعور اس کی رہنمائی کرتا ہے کہ لباس کے باب میں گھر اور گھر سے باہر کا فرق پیش نظر رہے۔ یہ بات اتنی بدیہی ہے کہ اس پر دلیل کی ضرورت نہیں۔ تہذیب اور مذہب اسی شعوری احساس کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہر آدمی گھر سے نکلتے وقت اس کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کا لباس باہر جانے کے لیے مناسب ہے یا نہیں۔ آج صبح ٹی وی اسکرین پر نظر پڑی تو ایک مارننگ شو جاری تھا۔ شو میں کوئی اداکارہ بطور مہمان شریک تھیں جن سے سوالات کیے جارہے تھے۔ ایک سوال تھا: آپ کی والدہ جب باہر جاتی ہیں تو کیا لباس پہنتی ہیں؟ نوخیز اداکارہ نے بغیر کسی تاخیر کے جواب دیا: اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ وہ کہاں جارہی ہیں؟ کسی شادی پر یا کسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے؟ یہ جواب دراصل اسی شعور کا اظہار ہے جو فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ مذہب نے یاد دہانی کرائی ہے کہ لباس کا انتخاب انسان کے اخلاقی شعور اور جمالیاتی ذوق کا نتیجہ ہے۔ مدینہ میں جب مسلمان معاشرہ اہل فساد کا خصوصی ہدف تھا تو شریف گھرانوں کی خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا تھا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ان شریر لوگوں نے امہات المومنین کو بھی معاف نہیں کیا۔ مسلمان خواتین گھروں سے نکلتیں تو اوباش انہیں تنگ کرتے۔ ریاست، اس وقت اتنی مضبوط نہیں تھی کہ فسادیوں کو طاقت سے روک سکتی۔ اس موقع پر مسلمان عورتوں سے یہ کہا گیا کہ اگر انہیں گھروں سے باہر نکلنا پڑے تو اپنے اوپر ایک چادر ڈال لیا کریں تا کہ پہچانی جائیں اور انہیں اذیت نہ دی جائے۔ امہات المومنین کو چوں کہ خاص سماجی حیثیت حاصل تھی اس لیے ان کے لیے اس کے علاوہ بھی ہدایات دی گئیں جن کا مخاطب عام مسلمان خواتین نہیں تھیں۔
(روزنامہ دنیا۔ 21 ستمبر 2019ء)
خورشید ندیم کا یہ بیان اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے انکار کے مترادف ہے کہ اسلام نے مردوں اور خواتین کے لیے کوئی لباس طے نہیں کیا۔ بلاشبہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ ساری دنیا کے مسلمان اہل عرب کے لباس کی پیروی کریں۔ مگر اسلام میں ستر ڈھانپنے کی شرط اتنی بنیادی ہے کہ اسے نظر انداز کرکے اسلامی معاشرے میں لباس کے مسئلے پر بات ہی نہیں کی جاسکتی۔ اب اگر ستر کو ڈھانپنے کے تقاضے عربی لباس سے پورے ہوتے ہیں تو عربی لباس بھی اسلامی ہے۔ ستر ڈھانپنے کے تقاضے شلوار قمیص سے پورے ہوتے ہیں تو شلوار قمیص بھی ’’اسلامی لباس‘‘ ہے۔ ستر ڈھانپنے کے تقاضے اگر کسی اور ’’طرز‘‘ کے لباس سے پورے ہوتے ہیں تو اس لباس کو بھی اسلامی لباس کہا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لباس کے سلسلے میں اسلام ’’صورت‘‘ پر نہیں ’’معنی‘‘ پر اصرار کرتا ہے۔ لباس معنی سے ہم آہنگ نہ ہو تو پھر عربوں کا لباس بھی غیر اسلامی ہوجائے گا۔ اس کی ایک عصری مثال یہ ہے کہ بعض خواتین اتنا چست برقع پہنتی ہیں کہ اس سے جسم نمایاں ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ایسا برقع بھی غیر اسلامی ہو جاتا ہے۔ صورت اور معنی کا یہ معاملہ اسلام کی پوری تہذیبی کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال مساجد کا فن تعمیر ہے۔ پاکستان اور بھارت کی مساجد، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور چین کی مساجد سے مختلف ہیں۔ مگر ان میں ایک چیز مشترک ہے۔ ان کی روح۔ ان کا ’’مسجد پن‘‘۔ یہی معاملہ اسلامی لباس کا ہے۔مسلمان مردوں اور مسلمان خواتین کا لباس ہر صورت میں ’’ساتر‘‘ ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں یہ کہنا کہ اسلام نے مسلمانوں کے لیے کوئی لباس طے نہیں کیا نری جہالت ہے۔
خورشید ندیم کی یہ بات بھی جہالت انگیز ہے کہ پردے کی اصطلاح اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ ویسے تو غامدی اور ان کے شاگرد الفاظ پرستی یا ’’Literalism‘‘ کو پسند نہیں کرتے مگر یہاں خورشید ندیم لفظ ’’پردے‘‘ کو ایک اصطلاح کے طور پر بروئے کار لاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ذرا قرآن و سنت کی لغت سے پردے کا لفظ نکال کر دکھائو۔ ارے بھائی مسئلہ لفظ یا اصطلاح کا نہیں ’’تصور‘‘ کا ہے۔ قرآن و سنت میں پردے کا تصور وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ اصل بات یہی ہے۔ خورشید ندیم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ ایک انسان خاص اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے۔ یہ شعور اس کی فطرت اور شخصیت کا حصہ ہے۔ یعنی Inbuilt ہے۔ یہ شعور رہنمائی کرتا ہے کہ گھر اور باہر کا لباس مختلف ہوگا۔ ان فقروں میں بھی لاعلمی اور جہالت کا سمندر پوری طرح موجزن ہے۔ بلاشبہ اسلام چاہتا ہے کہ انسان اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے مگر اسلام اخلاقی شعور کے تعین کا کام انسان کی نام نہاد مجرد باطنی زندگی پر نہیں چھوڑتا۔ وہ ٹھوس تعلیمات کی صورت میں انسان کو بتاتا ہے کہ حرام کیا ہے؟ حق کیا ہے؟ باطل کیا ہے؟ حسن کیا ہے قبح کیا ہے؟ جھوٹ کیا ہے؟ سچ کیا ہے؟۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اسلام یا اپنی اصل فطرت پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ ماحول کا جبر ایک بہت بڑا جبر ہے اور اسلام انسان کو ماحول کے جبر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خورشید ندیم انسان کے جس اخلاقی شعور کی بات کررہے ہیں وہ کہیں موجود ہی نہیں۔ مغرب میں کروڑوں لوگ ناجائز جنسی تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں، اب وہاں ہم جنس پرستوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ یہاں تک کہ تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلق یا Incest بھی مغرب میں عام ہے۔ اس کے تحت باپ بیٹیوں اور بھائی بہنوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کررہے ہیں۔ آخر مغرب کے کروڑوں لوگوں کا ’’Inbuilt‘‘ اخلاقی شعور کہاں چلا گیا؟ سوال یہ ہے کہ مغرب کا جو ’’اخلاقی شعور‘‘ اہل مغرب کو جنسی تعلقات کے بارے میں حلال و حرام نہیں سمجھا رہا وہ لباس کے سلسلے میں انسانوں کی کیا رہنمائی کرے گا؟ بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں بھی مغرب زدگی عام ہے اور مسلم دنیا کے مغرب زدگان میں بھی ’’اخلاقی شعور‘‘ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ بلاشبہ انسان کے نفس پر نیکی
اور بدی کا علم الہام کیا گیا ہے مگر انسان کے اندر موجود تقوے یا نیکی کو اُبھارنے اور قوی کرنے کے لیے انسان کے ’’خارجی ماحول‘‘ کا سازگار ہونا ضروری ہے۔ ورنہ رسول اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق ماحول کا جبر ایک اسلامی فطرت کے حامل بچے کو عیسائی، یہودی، مجوسی، کافر، مشرک یا آج کی اصطلاحوں میں سیکولر اور لبرل بنا سکتا ہے۔ انسان کافر، مشرک سیکولر یا لبرل ہوجائے گا تو اس کا لباس بھی بدل جائے گا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں ابھی حیا کا تصور موجود ہے۔ چناں چہ مسلم خواتین کے لباس سے بھی کچھ نہ کچھ حیا جھلکتی ہے۔ اس کے برعکس مغرب میں حیا کا تصور موجود نہیں۔ چناں چہ مغرب کی عورت کا لباس اسکرٹ بلائوز اور بعض صورتوں میں ’’بکنی کلچر‘‘ کا ترجمان بن گیا ہے۔ مغرب کی عورتوں کو کوئی ’’باطنی آواز‘‘ نہیں بتاتی کہ تمہارا لباس ٹھیک نہیں۔ اس کے برعکس مغرب کی خواتین اسکرٹ بلائوز اور بکنی کے استعمال کو اپنے ’’Cultured‘‘ ہونے کی علامت سمجھتی ہیں۔ کیا غامدی صاحب اور ان کے شاگرد چاہتے ہیں کہ مجرد داخلی شعور پر انحصار کرکے مسلم معاشرے بھی مغربی معاشروں کی طرح ہوجائیں؟ بلاشبہ غامدی اور ان کے شاگردوں کا مذہب مغرب پرستی کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام کا نعرہ ہے دنیا کو اسلام کے مطابق بنائو۔ غامدی اور ان کے شاگردوں کا نعرہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو مغرب کے مطابق بنائو۔
خورشید ندیم نے مذکورہ بالا اقتباس میں ملفوف انداز میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پردے کا حکم امہات المومنین کے لیے تھا۔ عام مسلم خواتین اس حکم کی مخاطب نہیں تھیں۔ یہی بات حسن نثار نے ٹی وی پروگرام میں بہ انداز دیگر کہی تھی۔ یہ بات کہہ کر خورشید ندیم اور حسن نثار نے قرآن کی نص صریح کا انکار کیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس تدبیر سے یہ بات زیادہ متوقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انہیں ستایا نہیں جائے گا‘‘۔
(سورئہ الآحزاب:59-33، باحوالہ پردہ مولانا مودودی، صفحہ248)
اس سورئہ مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ پردے کا حکم صرف امہات المومنین کے لیے نہیں تھا بلکہ تمام مسلم خواتین کے لیے تھا۔ مگر حسن نثار اور خورشید ندیم معاذ اللہ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں اور خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیکولر اور لبرل لوگ صرف ملائوں، مولویوں اور مذہبی جماعتوں کے دشمن ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام سے بغض رکھتے ہیں اور انہیں ’’موقع‘‘ ملے تو قرآن کی نص صریح کے انکار سے بھی نہیں چوکتے۔ ہم نہ مفتی ہیں، نہ فتویٰ دینا ہمارا منصب اور مزاج ہے۔ مگر اتنی بات ہمیں معلوم ہے کہ قرآن کی نص صریح یا واضح حکم کا انکار کفر ہے۔ اس پر پوری امت کا اجماع ہے۔ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی عالم اور کوئی مفتی ایسا ہے جو بتائے کہ خورشید ندیم اور حسن نثار کا پردے سے متعلق بیان کیا کہلانے کا مستحق ہے اور شریعت اس سلسلے میں کیا سزا تجویز کرتی ہے؟۔
خورشید ندیم نے پردے کے تناظر میں یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ کیا ریاست کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایک خاص طرح کا لباس پہنائے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خورشید ندیم کو یہاں ریاست اور اس کا حق تو یاد آیا مگر اسلام اور اس کا حق یاد نہ آیا۔ حالاں کہ ایک اسلامی ریاست میں اصل سوال ریاست کے حق کا نہیں اسلام کے حق کا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کو ’’ساتر لباس‘‘ کا پابند بنائے اور قرآن و سنت کے احکامات کو ہر صورت میں نافذ کرے۔ جہاں تک ریاست کا تعلق ہے تو ہمیں معلوم ہے کہ چین میں انقلاب کے بعد 40 سال تک پوری قوم کو ایک لباس پہنایا گیا۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت کی ’’کوئی‘‘ تخصیص نہیں تھی۔ جدید سیکولر اور لبرل یورپی ریاستیں برقع اور اسکارف پر پابندی لگا کر یہ ثابت کرچکی ہیں کہ جدید ریاست اپنے شہریوں کے لباس اور وضع قطع پر اعتراض کرسکتی ہے اب اگر ایک سیکولر اور لبرل ریاست برقع اور اسکارف اُترواسکتی ہے تو ایک جدید اسلامی ریاست مسلم خواتین کو برقع اوڑھنے یا اسکارف پہننے کا پابند بھی بناسکتی ہے۔ کیا ہمارے بعض انگریزی میڈیم اسکولوں میں ایک خاص طرح کا یونیفارم رائج نہیں ہے؟ کیا ان اسکولوں میں کوئی طالب علم شلوار قمیص پہن کر اسکول جاسکتا ہے؟ بلکہ کیا اِن اسکولوں میں کوئی طالب علم ٹائی پہننے سے انکار کی جرأت کرسکتا ہے؟ مغرب میں تو ریاست اپنے شہریوں کے ٹیلی فون ٹیپ کررہی ہے، ان کے کمپیوٹرز کی نگرانی کررہی ہے، ان کی ڈاک پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ریاست کو ان کاموں سے روکنے والا کوئی نہیں۔ بلاشبہ اسلام کا ایک ’’ڈریس کوڈ‘‘ ہے اور ریاست معاشرے کو اس ڈریس کوڈ کا پابند کرسکتی ہے۔
اہم بلاگز
درسگاہیں بنیں تھیٹر
سیلاب سے پہلے ماحول ایک آلارم دیتا ہے دریا ساکن ہو جاتا ہے اور فضا سیلاب کی آمد کی اطلاع دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے میں علاقے کےعقلمند اور سمجھدار لوگ پھاؤڑے،بیلچےاور کسیاں اٹھائے دریا کا رخ اختیار کرتے ہیں تاکہ بند مضبوط کیا جاسکے اور رہائشی آبادی کو سیلاب کی تباہی کاریوں سے بچایا جاسکے۔
ایسے ہی طوفان کی آمد سے قبل بھی ہوا رک جاتی ہے،درخت ساکن ہو جاتے ہیں جو پیش خیمہ ہوتی ہے طوفان کا اور اطلاع ہوتی ہے زمانے والوں کےلئے کہ اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کر لیں۔
ہمیشہ زمانے کے دانا بینا لوگ فضا کو دیکھ کر سیلاب،طوفان یا بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اب عوام میں سے جو لوگ ان کی بات کااعتبار کر کے اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کا بندو بست کر لیتے ہیں، وہی تباہی کاری سے بچ جاتے ہیں اور جو ان کی بات کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ان کو بچانے کے لیے کوئی فرشتے آسمان سے نہیں اترتے ۔
چند روز قبل لاہور سے واپسی پر ایک فیملی نظر سے گذری جس میں ایک شریف النفس ماں جو چادر میں لپٹی تھی ایک معزز دکھنے والاباپ اور تین بیٹیاں تھیں ۔سب سے بڑی بیٹی جس نے لان کے سوٹ کے ساتھ ایک کندھے پر نیٹ کا دوپٹہ اٹکایا ہوا تھا اور بچی کے تمام نشیب و فراز واضح تھے۔۔۔۔۔۔وہ فیملی اترنے سے قبل ہماری سیٹس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ اب اس بچی نے جو بولنا شروع کیا تو میں اور ناظمہ بہن منہ میں انگلیاں دابے اس کے انداز ملاحظہ کرنے لگیں۔وہ مسلسل والد کو ڈکٹیٹ کر رہی تھی کبھی کہتی پاپا ادھرہو جاؤ اور کبھی کہتی ادھر ہو جاؤ ،کبھی کہتی فلاں کو گذرنے دو اور کبھی کہتی ویسے کرو۔ اور اچھا خاصا صحتمنداور معزز پاپا اس کے اشاروں پر ایسے عمل کر رہا تھا جیسے کٹھ پتلی ہو۔
پنسرہ جیسے پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے یقیناً نیا نیا کالج ،یونیورسٹی کا منہ دیکھا ہو گا اور نیا نیا ترقی کی راہ پر قدم رکھا ہو گا۔
اسے دیکھ کر سچ میں قرب قیامت کی وہ نشانی یاد آگئی کہ عورت اپنی مالکن کو جنے گی ۔۔۔۔۔۔۔اور مرد کے لیے استعمال شدہ لفظ "دیوث" کو عملاً سمجھ لیا۔
ابھی تو یہ رسمی تعلیم کی کارستانی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
ہم سے تو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے اثرات بد ہی سنبھالے نہیں جا رہے تھے کہ وزیراعلی صاحبہ کے نئے حکم نے ہوش اڑا دیے ۔۔۔۔۔ ۔۔یعنی اب درسگاہیں ،درسگاہیں نہ رہیں گی ۔۔۔۔۔۔مجرا گاہیں اور تھیٹرز بنیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے وطن کے خرد مندو! دھویں کو شعلہ بننے سے قبل پانی ڈال دو،،سیلاب سے پہلے بند باندھ لو،طوفان سے قبل بستر سمیٹ لو،گھروں کے لٹنے سے قبل کنڈیاں لگا لو،عزتوں کے جنازے نکلنے سے قبل بیٹیاں سنبھال لو،درسگاہیں کوٹھے بننے سے قبل منہ سے چوسنیاں نکال دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ...
ماں کی تمنا
یہ 2010 کی بات ہے جب مجھے اللہ رب العزت نے پہلی مرتبہ حج کرنے کی توفیق عطا کی الحمداللہ ! ہمارے گروپ میں بوڑھے، جوان یہاں تک کہ کچھ نوعمربھی شامل تھے، حج کی مشقت کے بارے میں تقریبا سب ہی جانتے ہیں، لیکن ہم حاجیوں کو اس وقت سخت حیرانی ہوئی جب ہمیں اپنے گروپ میں اس عمر رسیدہ خاتون کے بارے میں معلوم ہوا، جسکی عمر تقریبا اسّی برس تو یقینا ہوگی وہ چلنے پھرنے یہاں تک کہ پوری طرح بیٹھنے سے بھی لاچار تھی، منی میں اسے اسکا بیٹا وہیل چیئر کے ذریعے خواتین کے خیمے میں چھوڑ گیا جہاں اسکی بہو اور باقی خواتین کی مدد سے اسے بستر پر لٹا دیا گیا اسکے ہاتھ میں تسبیح تھی، وہ سارا دن لیٹ کر اشاروں سے ہی نماز وغیرہ پڑھتی، اسکی بہو کا تعاون بھی اس خاتون کے ساتھ اتنا ہی تھا جتنا کہ ہم دوسری خواتین کا تھا لیکن بیٹا جو تقریبا چالیس بیالیس سال کا ہوگا اسکی اپنے ماں کے ساتھ محبت اور اسکی خدمت دیکھ کر ہم سب کی زبان سے سے بے اختیار جملہ نکلا کہ بیشک اسکا حج تو مقبول ہوگیا بلکہ یہ بندہ تو دگنا ثواب حاصل کر رہا ہے، وہ والدہ کا منہ ہاتھ تک خود دھلواتا، وضو کرواتا، کھانا اپنے ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے نوالے بناکر یوں کھلاتا جیسے کہ ایک شیر خوار بچے کو پیار سے ماں کھلاتی ہے، مِنیٰ سے مزدلفہ کے سفر میں ہم نے اس بیٹے کو کبھی ماں کے پاوں دباتے دیکھا، کبھی اسے پیار سے وہیل چیئر سے اپنے بازوں میں اٹھاکر زمین پر سلاتے دیکھا، اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پاوں، بازو وغیرہ سہلاتا، پھر کبھی پیشانی پر بوسہ دیتا، یعنی ان چار پانچ دنوں میں ہمیں ماں کے ساتھ اس کا حسن سلوک دیکھ کر قرآن پاک کی یہ آیت یاد آگئی،،،
! رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا
سبحان اللہ !
ہم سب حاجیوں کو ایک تجسس یہ بھی تھا کہ اس عمر میں اتنی مشقت سے بہتر تھا کہ وہ کچھ عرصے پہلے ہی حج کرلیتی جب اسے اسکی طاقت تھی۔
اس سلسلے میں اسکے بیٹے نے حج کی ادائیگی کے بعد حاجیوں کو بتایا کہ میری ماں کی شروع ہی سے یہ دلی تمنا و خواہش تھی کہ وہ حج کی سعادت حاصل کرے لیکن ہمارے پاس وسائل نہ تھے، یہ بات میں جانتا تھا،اور سوچتا کہ جب بھی میں اس قابل ہوا تو میں ماں کو ضرور حج کرواوں گا، اور اب میں اس قابل ہوچکا ہوں کہ میں اپنی ماں کی یہ خواہش پوری کرسکوں، لیکن میں سوچ رہا تھا اب تو وہ معذوری کی وجہ سے نہیں چل سکے گی لیکن جب اس نے مجھے کہا کہ وہ آج بھی یہ تمنا رکھتی ہے، تو میں انکار نہ کرسکا، میرا باپ تو اس دنیا میں نہیں رہا لیکن ماں زندہ ہے، لہٰذا میں آج اس سعادت سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہتا، میری تکلیف اس تکلیف سے یقینا نہ ہونے کے برابر ہے جو اس نے میری پیدائش...
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...