باصلاحیت باکردار قیادت

مزمل کے بچپن کا دوست عفان آج اس کےگھر کھانے پر آیا ہواتھا۔

مزمل ! کیا ہوا کہاں غائب ہو گئے ہو یار؟ اب تو دعوت نامہ بھیج کر بلانا پڑتا ہے (مزمل نے عفان سے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا)۔

عفان؛ (لمبی سانس لیتے ہوئے) آ ھا ! اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

کیا بتائیں پہلے ہم اسکول سے فارغ ہوئے، پھر کالج اور یونیورسٹی سے فارغ ہوئے اور اب ملازمت کے سلسلے میں خوار ہو رہے ہیں۔

مزمل: لیکن تمہاری تو جاب لگ گئی تھی نا پھر خواری کیسی؟

عفان: ہاں ہاں اللہ کا شکر ہے جاب لگ گئی ہے تبھی تو مصروفیت بہت زیادہ ہو گئی ہے یہاں تک کہ بچپن کے دوستوں کے ساتھ ملنے کا بھی وقت نہیں ہے

مزمل ! اچھا آؤ اندر تو بیٹھو تفصیل سے باتیں کرتے ہیں پھر کھانا وغیرہ کھائیں گے

عفان ! ہاں ہاں کیوں نہیں

(دونوں آکر ڈرائینگ روم میں صوفے پر بیٹھ گئے)

مزمل ! اور سناؤ زندگی کیسی گزر رہی ہے جاب کے سلسلے میں کہاں جا رہے ہو سائٹ ایریا کی طرف؟

عفان ! نہیں یار سائٹ ایریا تو گھر سے قریب ہے میں تو کورنگی کے سائیڈ جا رہا ہوں وہ تو میرے گھر سے بہت زیادہ دور ہے وہاں تو آنے جانے میں ہی ہڈیوں کے جوڑ جوڑ کی سلامی دینی پڑتی ہے۔ تمہیں تو پتہ ہے کراچی کی سڑکوں کا کیا حال ہے اچانک سے گہرے گڑھے اجاتے ہیں، کہیں گٹر کا ڈھکن غائب ہےاور کہیں نالے ابلے پڑے ہیں ان سے بچتے بچاتے گھر پہنچنے کی کوشش کرو تو موبائل چھیننے والوں کا خوف الگ دماغ پر سوار رہتا ہے گھر پہنچو تو کبھی بجلی غائب کبھی گیس غائب یار تنگ آگیا ہوں میں تو۔۔۔

مزمل ! ( مسکراتے ہوئے ) صبر میرے بھائی صبر تم نے کبھی اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آج ہم اس حال تک کیوں پہنچے؟

عفان ! ہاں یار اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہمیں خود ہی اپنی حالت بدلنے کا خیال نہیں ہے تب ہی تو ہر بار الیکشن میں ہم ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر کامیاب کر دیتے ہیں جو نہ عوام سے مخلص ہیں نہ پاکستان سے حالانکہ ہمارے ملک میں بے انتہا قدرتی وسائل موجود ہیں دریا، پہاڑ، معدنیات، جنگلات، قدرتی گیس کے ذخائر، زراعت کے لئے مناسب موسم، انسانی وسائل۔ لیکن آج تک کسی حکومت نے عوام کی فلاح وبہبود کا سوچا ہی نہیں۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے جس کو دیکھو اپنی ہی جیب بھرتا ہے۔

مزمل ! یہی بات تو میں تمہیں یونیورسٹی میں بھی سمجھاتا تھا مگر اس وقت تم پر شخصیت پرستی کا بھوت سوار تھا تم ووٹ کردار کے بجائے شخصیت کو دیکھ کر دینے کے قائل تھے یاد ہے نا ،

عفان ! ہاں یار اس کا تو اب مجھے بے حد افسوس ہو رہا ہے حالانکہ تم نے ہر لحاظ سے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی تھی یہاں تک بھی بتایا تھا کہ انسان “جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا” مگر اس وقت اپنے لیڈر کی محبت میں اتنا اندھا تھا کے مجھے اس کےعلاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا بغیر عقل استعمال کئے ان کے پیچھے زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتا تھا۔

مزمل ! چلو صبح کا بھولا شام کو اگر گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے اب بتاؤ آٹھ فروری کو جو الیکشن ہوں گے تم کس کو ووٹ دو گے؟

عفان ! ظاہر سی بات ہے اس دفعہ تو ووٹ جماعت اسلامی ہی کو دوں گا تم بالکل ٹھیک کہتے ہو یہی وہ جماعت ہے جو اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتی ہے اس کے لیڈران بھی اعلی اخلاق اور کردار کے حامل باصلاحیت لوگ ہیں ایسے ہی مخلص لوگ پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

مزمل ! شکر ہے تمہیں میری بات سمجھ میں تو آگئی اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے اب اپنے گھر والوں کو بھی قائل کرو تاکہ وہ بھی آٹھ فروری کو ترازو کو ہی ووٹ ڈالیں۔

عفان ! ہاں ہاں کیوں نہیں امی ابو تو پہلے ہی ترازو کے حامی تھے وہ تو میں اور افنان بھائی اور ہمارے چند کزنز ان سے اختلاف کرتے تھے مگر اب شکر ہے مجھے بھی عقل آ گئی ہے۔

مزمل ! “دیر آید درست آید” چلو امی آوازیں دے رہی ہیں لگتا ہے انہوں نے کھانا لگا دیا ہے ان شاءاللہ اس بار جیت ترازو کی ہوگی

عفان! ان شاءاللہ۔