اچھے لوگ

شوکت۔ باجی اب آپکی عدت پوری ہو چکی ہے اب آپ میرے ساتھ چلیں اب آپ ہمارے ساتھ رہیں گی ___

باجی خدیجہ۔ میں آپ کے ساتھ؛؛ ابھی ضرور چلوں گی لیکن!

شوکت۔ لیکن کیا؟؟

خدیجہ باجی۔ شوکت میرے پیارے بھائی میرا ان تین بچوں کے ساتھ رہنا؛ ماشاء اللہ تمہارے بچے بھی ہیں؛

شوکت۔ ایسی باتیں مت سوچیں آپ اب ہماری ذمہ داری ہیں؛ ان بچوں کی تعلیم و تربیت اب ہماری ذمہ داری ہے؛ آپ اس شہر میں اکیلی___ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؛ جب تک بھائی جان زندہ تھے اس وقت دوسری بات تھی اب آپ کی بچیاں جوان ہیں؛ ہاں اگر آپ کہیں تو میں اپنا وہ مکان جو کرایہ پر چڑھایا ہوا ہے اسے تمہارے لیے خالی کروادیتا ہوں اس میں آپ آرام سے بچوں کے ساتھ رہیں گی وہ مکان میرے گھر کے نزدیک بھی ہے؛

خدیجہ باجی! تم میرے لیے اتنی تکلیف نہ اٹھاؤ _ میں یہ فلیٹ کرایہ پر دے کر وہاں کوئی چھوٹا سا فلیٹ کرایہ پر لے لوں گی۔

شوکت۔ (:ناراضگی سے) آپ کا بھائی زندہ ہے آئندہ آپ ایسی غیریت والی بات نہیں کریں گی۔

اس طرح شوکت کے پرزور مطالبے پر خدیجہ کراچی شفٹ ہو گئی _ ماہانہ خرچ؛ گاڑی؛ ڈرائیور؛ چوبیس گھنٹے کے لئے نوکر سب کا انتظام شوکت نے اپنی بہن کے لیے کردیا؛ بلکہ اسے شوہر کی زندگی میں جو آسائشیں میسر تھی اس سے بھی زیادہ کا انتظام ہوگیا؛ اس ساری صورتحال میں اسکی بھابھی کا رویہ بھی بڑا مخلصانہ تھا،وقت گزرتے دیر نہیں لگتی بچے پڑھ لکھ کربرسر روزگار ہوگئے بچیوں کی بہت اچھی جگہ شادیاں ہوگئیں تو خدیجہ کو بیٹے کی شادی کی فکر لگ گئی وہ بھی مسئلہ حل ہو گیا؛ ان تمام مراحل میں ماموں شوکت نے اپنی بیوہ بہن کا بھرپور ساتھ دیا __ بلکہ اپنے بچوں کی شادی بیاہ کے موقعوں پر یا عید تہوار ہو ہر موقع پر جس طرح شوکت اپنے بچوں کو خریداری کے لئے رقم اپنے بچوں کو دیتا اسی طرح خدیجہ اور اسکے بچوں بلکہ بہو تک کو رقم دیتا پھر اللہ کیوں نہ اسکی روزی میں برکت دیتا _ایک گھر خدیجہ کو رہنے کے لئے دیا تو دو گھر مزید کا اضافہ رب کی طرف سے ہوگیا __پھر بیوہ بہن کی دعائیں اسے ہر قدم پر تھامے رکھتی اسے یوں محسوس ہوتا کہ میری ماں اب بھی میرے ساتھ ہے.

یہ زندگی عارضی ہے ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے _ خدیجہ کی موت اس کے بچوں کے لئے ہی نہیں بلکہ بھائی کے لیے بھی ایک سانحہ اور دکھ کی گھڑی تھی.

اس ساری صورتحال میں خدیجہ کے بیٹے اور بہو کو ایک فکر کھائے جارہی تھی کہ. اماں کے انتقال کے بعد اب یہ مکان گاڑی اور دوسری تمام سہولیات ماموں ہم سے واپس لے لیں گے گرچہ دونوں میاں بیوی کمارہے تھے لیکن محدود آمدنی تھی بچے؛ انکی پڑھائی؛ گھر؛ پھر گھر کے اخراجات یہ سب کیسے ممکن ہوگا دونوں میاں بیوی انہی فکروں میں تھے کہ اب ہم کہاں جائیں گے ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ کا کرایہ ان میں سے ایک کی تنخواہ میں سے جائیگا تو پھر باقی اخراجات کیسے؟؟؟ آج خدیجہ باجی کا چہلم تھا سب رشتے دار موجود تھے دعائے خیر کے بعد شوکت نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا؛؛ کہ جب تک میں زندہ ہوں باجی کا بیٹا اور بہو اس گھر میں اسی طرح رہینگے جس طرح میری باجی رہتی تھی وہ تمام سہولیات جو باجی کو حاصل تھی وہ ان بچوں کو حاصل رہیں گی ___

منیب اور اسکی بیوی سیرت دونوں اپنی جگہ سے اٹھے (انکی آنکھیں انسووں سے لبریز تھیں) ماموں اور ممانی کی طرف بڑھے دونوں نے انہیں تسلی دی گلے لگایا ماموں نے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا کہ آپ پہلے بھی ہمارے بچے تھے اور ہمیشہ رہیں گے _____

ماموں شوکت کا یہ زبانی عارضی بیان نہیں تھا بلکہ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ انھوں نے جو وعدہ ان دونوں میاں بیوی سے اور انکی بہنوں کے ساتھ کیا اسے آج بھی ایمانداری اور خلوص سے نبھا رہے ہیں ____

بیشک اس دنيا میں ابھی اچھے اور مخلص لوگ موجود ہیں جو رشتوں. کے حقوق کو خوبصورتی سے انجام دے رہے ہیں۔

حصہ