نیا سال اور میرا حال

؎کھو نا جا اس سحروشام میں اے صاحبِ ہوش

اک جہاں اور بھی ہے جس میں نافردہ ہےنا دوش

نئے اور پرانے سال کی دھلیز پہ بیٹھی کچھ سوچوں، کچھ یادوں، کچھ خواہشوں اور کچھ دعاؤں کی مالا پہنے میں ایک اضطراب اور غم کی کیفیت میں اپنے اردگرد ہونے والے حالات اورخود اپنے ساتھ گزرنے والے معاملات کا طائرانہ جائزہ لے رہی ہوں۔ نئے سال کی آمد میرے دل میں کوئی خوشی کی لہر کیوں پیدا نہیں کر رہی۔ کیا میں یاسیت کا شکار ہوں؟ کیامیں ماحول کے منفی اثرات سے متاثر ھو کر اپنا توازن کھو چکی ھوں؟ کیا میں خود اذیتی میں مبتلا ہوں؟

میرا بچپن میرا شباب اور اب یہ ڈھلتی عمر یقیناً دن کے ڈھلتے سائے کی طرح بہت جلد یہ زیست کی ناؤ بھی ڈوب جائے گی۔ یہ اعضاء کا مضمحل ہونا۔ یہ قویٰ کا کمزور پڑ جانا۔ یہ رشتوں کے کمزور بندھن یہ اپنے پیاروں کی جدائی کے سلسلے، یہ سنگتوں کا بچھڑ جانا، یہ بہاروں کا خزاں رُت ہو جانا۔ اگر یہ کائنات میں ہونے والے قدرتی عوامل میں سے ہیں تو پھر:

کُلُّ مَنْ عَلِیْھَا فَانٍ۞وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِ کْرَام۞

ترجمہ: سب کچھ فانی ہے۔ بلا شبہ باقی رہنے والی ذات تمہارے رب کی ہے جو عظیم اور کریم ہے۔

لہذا ہر چیز کو فنا ہے، ہر بہار کی خزاں ہے، ہر حیات کی موت ہے، ہر دن کی رات ہے، ہر خوشی کے ساتھ غم ہے، ہر یسر کے ساتھ عسر ہے۔اور یقیناً یہ تضاد ہی ہماری پہچان ہے۔ یہ ہماری اصل ہے۔ اور چیزیں یقیناً اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں۔

آج صبح کے اذکار کرتے ہوئے میں نے دعا پڑھی،،،،،،،اَلَّھُمَّ اِنِّی اعوذ بک من الکسل وسوء الکبر۔

یہ سوء الکبر کیا ہے۔عقائد کا فساد،گناہوں پہ اصرار،گناہوں کی تکرار،دنیا کو ترجیح اور آخرت سے بےرغبتی، اور موت کا خوف اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ مال،اولاد اور دنیاوی اسباب کی ہوس۔پھر انسان کیا سے کیا ہوجاتا ہے،ہوس کا کتا،جانور یا اس سے بھی بدتر یا پھر بقول اقبال

؎ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

مسلماں نہیں راکھ کا,ڈھیر ہے

مسلمانوں کی دھاک کبھی عالم چار سو میں ببانگ دھل تھی اور اب مسلمان لاچار ہے، محکوم ہے، مجبور ہے غلامی کے طوق پہنے اسیر ہے۔ وہ اپنا دین کھو چکا ہے۔ خود کو غیروں کے ہاتھ بیچ کر جشن نیو ائیر کے چکر میں اوچھی حرکات اور بے غیرتی کے اطوار اختیار کر کے خود کو پاگل پن کے لبادے میں چھپا رہا ہے۔

ایک طرف غزہ لہولہان ہے۔ صیہونی افواج بم گرا رہی ہیں۔ معصوم بچوں نہتے شہریوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ انہیں سرعام میدانوں میں پھانسی پے لٹکا کر دنیا کو تماشہ دکھایا جا رہا ہے۔ تو دوسری طرف کشمیر ظلم وستم کی چکی میں پس کر اب راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے۔ وہ کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ تھا۔ اب پاکستان اور پاکستانی اس شہ رگ کے ٹوٹنے پہ بھی خوشیوں کے اندھے سودے کر رہے ہیں۔بقول شاعر

؎ شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

وضح میں تم ہو نصارٰی تو تمدن میں ھنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

جب اسلام ذندہ تھا تو مسلمانوں کی قلت بھی کثرت پے غالب تھی اب مسلمانوں میں چونکہ اسلام مر چکا ہے۔ لہذا اب مسلم ممالک بس تن مردہ کی طرح اسلام اور مسلمانوں کی حالت زار پہ خاموش تماشائی بن کر امریکہ کی راگنی الاپتے اورمستی میں محو رقصاں ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ اور یورپ کی مذمت تک کرنے پر تیار نہیں۔ آج میں اور آپ خدارا اور کچھ کریں نہ کریں کم از کم قرآن پاک کی ایک مختصر سی سورة العصر کے معانی اور اسباق کو پڑھیں سمجھیں ان کا ادراک حاصل کریں۔اور ان کی عملی تفسیر بنیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس حیات مستعار سے جب حیات ابدی پائیں تو خسارہ اور نقصان پانے والوں میں سے نہ ہوں۔ وہ چار کلیدی اصول جو اس اہم مقصد کے لیے مجھے اور آپ کو اپنانے ہیں۔

☜ ایمانیات کی درستگی

☜ اعمال صالحہ کی مداومت

☜ حق کی نصیحت

☜ صبرو استقامت کی تلقین

آئیے آج ہم اس نئے اور پرانے سال کی دہلیز پے کھڑے ہو کر وعدہ کریں کہ ہم اپنی محبتوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کے تابع کریں گے۔اور اپنے دنیاوی مفاد پہ اخروی مفاد کو ترجیح دیں گے۔

اللہ کرے کہ نیا سال ہماری ہدایت، عافیت، رضائےالٰہی اور اتباع رسولﷺ والا سال ہو اور ہم دنیا و آخرت کے خسران سے بچ جائیں۔

نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے

خدا کرے کہ نیاسال سب کو راس آئے ۔