ہمارا متوازن روّیہ

آج ہر شخص دوسرے سے نالاں نظر اتا ہے بیوی شوہر سے ،شوہر بیوی سے ، والدین اولاد سے، اولاد والدین سے ساس بہو سے بہو ساس سے وغیرہ وغیرہ، مجھ ناقص علم کی رائے میں ہم نے رشتوں اور ناطوں میں توازن رکھنا چھوڑ دیا ہے اور سامنے والے سے توقعات زیادہ رکھنا شروع کر دیں ہیں چاہے ہم خود ان کے معیار پر پورا اتریں یا نا اتریں۔

ایک خاتون نے بڑے دکھ سے اپنی بہو کی شکایت کی اور مجھ سے کہنے لگی اپکی ماشاءاللہ تین بہوئیں ہیں اپ مجھے بتائیں میں کیا کروں؟ میں نے اپنی دوست کی اطمینان سے مکمل بات سنی اور مسکراتے ہوئے کہا اپ کو اس کے اندر کچھ خامیاں نظر ارہی ہیں ہوسکتاہے، آپ میں بھی کچھ خامیاں ہوں جسے وہ درگزر کر رہی ہو کیونکہ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور ہوتی ہیں جسے وہ خود اپنی خامیاں نہیں سمجھتا، دوسری بات یہ کہ اپ کسی مناسب موقع پر مثبت طریقے سے اس کی اصلاح بھی کر سکتی ہیں۔

میری والدہ مرحومہ (اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ) کہتی تھیں کہ ایک جگہ رکھے دو برتن بھی ٹکرائیں گے تو آواز تو ضرور ائے گی اسی طرح ایک چھت تلے رہنے والے اپنے اپنے خیالات طبعیت کے حامل ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ہر ایک اپکی بات اور سوچ سے متفق ہو کہیں نہ کہیں اختلاف ضرور ہو سکتاہےاسلئے تحمل سےسامنے والے کی بات کو مکمل سن کر پھر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے ،میرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس پر لاکھوں درود سلام اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔

کسی بھی رشتے اور ناطے سے کس طرح خوبصورت تعلق استوار کئے جاسکتے ہیں وہ اپکی زات مبارکہ سے مکمل طور پر واضح ہیں۔ اپ کا اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ تعلق ہو یا بیٹیوں کےساتھ، غلاموں کے ساتھ ہو یا عام صحابہ کرام کے ساتھ ہو، یہاں تک کہ غیر مسلمانوں کے ساتھ بھی اپکا رویہ قابل تعریف اور ہمارے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے سبحان اللہ۔

مخالفت برائے مخالفت تعلقات میں دوریاں پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے، اس لئے کوشش ہونی چاہئے کہ سامنے والے پر ایک دم اعتراض کرنے کے بجائے ٹھنڈے دل سے اسکی مکمل بات سنی جائے اگر اس میں کوئی خامی نظر ائے تو تحمل سے کام لیکر اس کی اصلاح کریں نہ کہ بحث کرکے مسائل پیدا کریں، ایک خاتون نے کہا کہ میرے شوہر میری ہر بات پر اعتراض کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں شروع میں تو مجھے انکی بات پر بہت جھنجھلاہٹ ہوتی تھی کہ میں بھی انکے ساتھ بحث کروں لیکن پھر میں نے سوچا اس طرح بحث مباحثے میں مزید کشیدگی پیدا ہوگی اور پورا گھر متاثر ہوگا ماحول خراب ہوگا لہٰذا میں نے مناسب یہی سمجھا کہ میں بحث نہ کروں اور مناسب وقت پر ان کو انکی غلطی کا احساس دلاوں۔

والدین اور اولاد کے رشتے سے زیادہ خوبصورت کوئی رشتہ نہیں، لیکن بعض جگہوں پر اس رشتے میں بھی کمی نظر اتی ہے مثلا بے جا سختی اور بے موقع پر سختی، اولاد کو والدین سے دور لے جاتی ہے اسی طرح حد سے زیادہ لاڈ پیار اور بچوں کی ہر جائز اور ناجائز مطالبے پر سر تسلیم خم کرنا۔ماں باپ کی کمزوری ہے جسکا اثر اگے چلکر سامنے اسکتا ہے ۔ دوران تدریس اس بات کا مشاہدہ کئی بار ہوا۔

مثلاً ایک خاتون اپنے بیٹے کا رزلٹ دیکھ کر رونے لگی کہ ہم تو اسکے شہزادوں کی طرح لاڈ اٹھاتے ہیں اج تک اسکے ساتھ اونچی اواز سے بات نہیں کی اسکی پسند کے مطابق اسکے لئے ٹیوٹر کا انتظام کیا گیا ہے اسکے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی اس کی ہر فرمائش پوری کی جاتی ہے لیکن یہ،،، میں نے اس خاتون سے کہا اپ۔ اس کے ساتھ اپنے تعلق اور رویئے میں توازن رکھیں اگر دو باتیں اسکی مان رہیں ہیں تو ایک بات مثبت طریقے سے اپنی بھی منوائیں اور اسکی غلط بات پر مثبت انداز سے اسے موقع دیکھ کر سمجھائیں لیکن ہر وقت نہیں۔غرض کہ والدین کے غیر متوازن طریقوں کی وجہ سے اکثر والدین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح کسی بھی تعلق اور رشتے کو سختی سے اگے نہیں بڑھایا جا سکتا ہے یہاں تک کہ اپکے زیر سایہ لوگ یا ماتحت کام کرنے والے بھی اپکے تلخ رویئے سے مایوس ہوجاتے ہیں، مثلاً ایک ماسی سے میں نے پوچھا کہ وہ خاتون تو اپکی مرضی کے مطابق تنخواہ بھی دے رہی تھی پھر اسکا کام کیوں چھوڑا، ماسی نے بتایا کہ ہر بات پر مالکن چیختی۔ ڈانٹتی اور ناراضگی کا اظہار کرتی تھی ،اس لئے میں نے انکا کام چھوڑ دیا، باجی ہماری بھی کوئی عزت ہوتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ سامنے والے کا رویہ مناسب ہو تو انسان اس کی عزت بھی کرتا ہے اور تعلقات بھی برقرار رکھتا ہے۔لہٰذا دوسروں کو برا بھلا کہنے یا نقص نکالنے سے بہتر ہے کہ اپ پہلے اپنا محاسبہ کریں اود اپنی اصلاح کریں۔