شکر گزاری‎

جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق پر راضی ہوگیا اصل میں وہی کامیاب ہے۔

دانیال اپنے دوست عمیر جو اسکا کزن بھی تھا اس کو دیکھ کرحیران رہ جاتا کہ مختصرآمدنی میں کیسے سکوں اورآرام سے زندگی گزاررہا ہےبچوں کی تعلیم گھر کےاخراجات مہمان نوازی بیماری وغیرہ پھرعزیزواقارب کا خیال بھی رکھنا یہ سب کیسے ممکن ہے، جبکہ دانیال کی آمدنی عمیر کی آمدنی سے دگنی سے بھی زیادہ تھی لیکن اسکے باوجود اس کی بیوی اکثر مہنگائی اور میاں کی کم آمدنی کا رونا روتی تھی گھرمیں بھی بےسکونی کی فضا قائم تھی آج بھی اسکی اپنی بیوی کے ساتھ اسی بات پر تکرار ہوگئی۔

دانیال! عجیب عورت ہو ساری تنخواہ تمہارے ہاتھ میں آکر رکھتا ہوں سوائے اپنے ضروری خرچ کے لئیے لیکن تم ناشکری اور بدسلیقہ عورت سنبھال نہیں سکتی عالیہ بھابھی اور عمیر کو دیکھو کس طرح کم آمدنی کے باوجود خوش وخرم زندگی گزار رہیں ہیں کبھی دونوں کے منہ سے ناشکری کے الفاظ نہیں سنائی دیئے۔

امبر ! مجھے دوسروں کی مثالیں مت دو ضرور عمیر بھائی کی آمدنی کے کچھ اور ذرائع بھی ہونگے۔

دانیال ! یار عمیر بس کسی کام سے نکلے تھے تو میں نے امبر سے کہا کہ آج ویسے ہی چھٹی کا دن ہے آپ لوگوں سے بھی ملنے اگئے۔

عالیہ ! بہت اچھا کیا آپ لوگوں نے کافی دن سے امبر سے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی کیسی ہو امبر؟ امبر نے چاروں طرف اس چھوٹے مگر صاف ستھرےگھر کا ایک سرسری جائزہ لیا اور کہا میں بالکل ٹھیک ہوں تم تو کبھی آتی نہیں میں نے کہا ہم ہی چکر لگاتے ہیں۔

عالیہ ویسے بہت اچھے موقع پرآئی ہوآج درس قرآن کی محفل بھی ہے اچھی بات ہے اس میں بھی تمہاری شرکت ہوجائے گی۔

پندرہ سولہ خواتین کے درمیان عالمہ صاحبہ نے سب خواتین سے انکی خیر خیریت پوچھی اور بڑے خوشگوار انداز میں کہا کہ یہ محفل ہم سب کی ہے آج کی اس محفل میں ہم اپنی روزمرہ زندگی کے بارے میں گفتگو کریں گے کہ کس طرح اسلامی تعلیمات کے مطابق ہم اپنی زندگی کو پرسکون گزار سکتے ہیں اور اس سلسلے میں آپ سب شامل ہوسکتی ہیں اپنی اپنی رائے بھی دے سکتی ہیں پھر عالمہ صاحبہ نے تلاوت قرآن پاک کے بعد امہات المومنین اور صحابیات کی زندگی کے چند پہلوؤں پر گفتگو کی کہ کس قدر سادگی اور شکر گزاری انکی ذات میں شامل تھی جس کی بناء پر وہ پرسکون زندگی زندگی گزارتی تھیں اماں خدیجہ رضی تعالٰی عنہا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں شامل ہوئیں تو مکہ کی اس مالدار اور معزز خاتون کی زندگی میں انکساری وعاجزی آگئی جو سب کے لئے ایک مثال بن گئی یہی خوبی انکی بیٹی سرداران جنت کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ہستی مبارک میں دیکھی جاسکتی ہے مشقت بھری زندگی لیکن کبھی زبان پراللہ سے شکوہ نہیں-

اللہ رب العزت کے ارشادات اور آپکی احادیث مبارکہ سے صبر شکر کی فضیلت واضح ہے آج میری بہنوں ہماری ہر دوسری بہن مہنگائی اور کم آمدنی کا رونا روتی نظرآرہی ہے ہمیں اپنا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم فضول خرچ تو نہیں بیشک اللہ کنجوسی کو پسند نہیں کرتا لیکن فضول خرچ کو بھی شیطان کا بھائی کہا گیا ہے اس بات کو زہن میں رکھو کہ اللہ نے جو مال دیا اس کا آخرت میں حساب لیا جائے گا کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا صرف یہ سوچ زہن میں رکھیں تو بندہ نہ صرف بہت سے گناہوں سے بلکہ پریشانیوں سے بھی بچ سکتا ہے اور آخر میں میری بہنوں ایک بات ضرور کہوں گی کہ آج ہم اپنے سے اونچے والوں کو دیکھ کر ان سے ریس اور انکی دیکھا دیکھی میں فضول خرچی کے مرتکب تو ہورہے ہیں لیکن اپنے سے نیچے والوں کو دیکھ کر سبق حاصل نہیں کر رہے ہیں۔عالمہ کی گفتگو کے بعد خواتین نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

امبررات میں سونےکےلئے بستر پر لیٹی توعالمہ صاحبہ کی باتیں ایک ایک کرکے اسکے زہن میں دستک دے رہی تھیں، جیسے وہ برائے راست اسی سے مخاطب ہوں، وہ جو کل تک اپنے آپ کو مظلوم سمجھ رہی تھی حقیقت میں تو وہ خود اپنی ذات پر ظلم کرنے کے مترادف تھی دوسروں کو دیکھا دیکھی اس نے بہت سی فضول چیزوں سے اپنی زات کو آراستہ کر رکھا تھا پھر اتنا کچھ ہونے کے باوجود نہ وہ شوہر کی شکر گزار تھی نہ اپنے رب کی۔

آنے والے دنوں میں اسکی زندگی میں کچھ مثبت تبدیلیاں نظر آنے لگیں جس کی وجہ سےاسے زہنی سکوں بھی ملنے لگا۔