لمبی قطاریں! قصور وار کون؟

آپ نے اکثروبیشتر دیکھا ہوگا یا تجربہ کیا ہوگا کہ یوٹیلٹی بلز جمع کرانے کےلئے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں ایسا کیوں کبھی سوچا! ایک مرتبہ کا واقعہ بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے بجلی کابل ادا کرانے پوسٹ آفس جانے کا اتفاق ہوا جہاں پر چھوٹی قطار لگی تھی میں نے سوچا جلدی کام ہوجائے گا مگر آگے سے قطار سرکنے کانام نہیں لے رہی تھی جبکہ پیچھے کی جانب قطار لمبی ہوتی جارہی تھی ،  معلوم کرنے پر پتا چلا کہ  عملہ اپنا کام سست روی سے انجام دے رہا جس کی وجہ سے قطار لمبی ہورہی ہے ادھر گرمی کی شدت نے لوگوں کا برا حال کررکھا تھا ایسے میں کچھ لوگوں نے عملے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا انہیں لمحات میں دھکم پیل شروع ہوگئی ۔اور بات لڑائی جھگڑے تک جا پہنچی اور جب کچھ لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس وقت تک قطار ٹوٹ گئی اور آگے جو کھڑے تھے وہ پیچھے اور بعدمیں آنے والوں نے فائدہ اٹھایااور  قطار میں آگے آگئے ۔

مجھے ان لوگوں پربہت غصہ آ رہا تھا کہ کیسے پڑھے لکھے لوگ ہیں ،میں بھی  قطار میں بہت پیچھے  چلا گیا تھا  اس تھوڑے سے احتجاج کے بعد اب  عملے کی طرف سے بھی سست روی کا مظاہرہ  ختم ہوا ،کام تیزی سے کرنے لگے ۔ میرے آگے ایک لڑکا تھا جو یونیورسٹی  کا  طالب علم لگ رہا تھا  کافی پڑھا لکھا اخلاق والا محسوس ہو رہا تھا،  اس کی بل جمع کروانے کی باری آئی تو اس نے پہلے  چار بل پوسٹ آفس عملے کو تھما دیے جب وہ جمع ہو گئے تو جناب نے چھ بل اور تھما دیئے پوسٹ آفس میں جو بل جمع کر رہا تھا وہ بزرگ شخص تھا، اس نے بل جمع کرنے سے صاف انکار کر دیا تو ان دونوں میں بحث ہونے لگی ایک دوسرے کو گالم گلوچ دینے لگے کافی وقت مزید ضائع ہونے کے بعد جناب نے جمع کر لیے اب حیرانی کی بات  یہ ہے کہ جب آپ نے جمع کرنےتھے تو پھربحث کیوں کی ؟ اور بحث کی تو گارڈ کو بلا کر اس کو قطار سے کیوں نہیں نکلوایا  باقی لوگوں  کو کیوں پریشان کیا ؟  یہ سوالات ابھی میرے ذہن میں گھوم رہے تھے کہ  جناب نے میرا بل لیا اور جمع کرنے کے بعد مجھے کہنے لگا پیسے کھلے کروا کر لا ؤ میں قطار سے نکلا سامنے دکان پر گیا تو کسی نے مجھے سو کا نوٹ کھلا نہیں دیا ۔ میں واپس آیا تو جناب کے پاس بہت سے کھلے پیسے پڑے تھے میں بھی سمجھ گیا کہ جناب کو غصہ ہے اور اس لیے شریف لوگوں کو بلا وجہ تنگ کیا جارہا ہے۔

 جناب نے بغیر کچھ بولے کچھ پوچھے مجھے بقایا دے دیا اب کہاں سے اتنا جلدی کھلے پیسے آگئے تھے؟ یا کوئی جن تھا جو کھلے لیکر جناب کو دے گیاتھا بس شریف لوگوں کو تنگ کرنا اور لمبی لمبی قطاریں لگوا نا  ان کا معمول بن گیا ہے کہ لوگ یہ کہیں یہ عملہ سارا دن کام میں مصرو ف رہتا ہے اگر بات کی جائے کہ قطاروں میں قصور وار کون ہے ؟ تو  حقیقت میں قصور وار اداروں کے عملہ ہوتا ہے، جان بوجھ کر کام اتنا سست روی سے کرتے ہیں  کہ لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جائیں اور حکومت کو دکھا سکیں کہ کتنا کام کرتے ہیں سارا دن کام میں گزر جاتا ہے۔

میں اپنی اس تحریر کے ذریعے حکومت کو اس بات پر غور کرنے کا مشورہ دونگا عوام کو آسانیاں مہیا کی جائیں، بد اخلاق عملے کو عوام سے دوررکھا جائے، عوامی ڈیسک پرمتحرک اور چاق و چوبند عملہ تعینات کیا جائے تاکہ لمبی لمبی قطاریں کا سدباب ہوسکے۔ جب کہ پڑھے لکھے افراد سے بھی گزارش ہے کہ جب کسی ادارے میں اپنا کام کروانے جائیں تو اپنی جانب سے نظم وضبط کاخیال رکھیں دوسروں کی حق تلفی سے گریز کریں تاکہ سب کا کام ہوسکے ۔جو ایک اچھے شہری کے لئے نہایت ضروری ہے۔

حصہ
mm
نوید احمد جتوئی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں آخری سال کے طالب علم ہیں لکھنے کا شوق، حالات حاضرہ میں نظر رکھتے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا میں متحرک ہیں۔ روزنامہ جسارت کی ویب ڈیسک پر خدمات انجام دے رہیں ہیں۔