عمر ابن خطاب

جہالت کا دور تھا،وقت کمزور تھا
ہر طرف شور تھا،ظلم کا زور تھا
بے کسوں کے لیے کوئی چاہت نہ تھی
خادموں کے لیے کوئی راحت نہ تھی
پتھروں پہ سبھی سر ٹکائے ہوئے
نفرتیں دل میں سب ہی چھپائے ہوئے
ابن آدم پہ رب مہرباں ہوگیا
حمد باری سے روشن جہاں ہوگیا
پھر غارحرا سے یہ آئی صدا
پڑھ اس کے لیے جس نے پیدا کیا
جس نے پیدا کیا اور تعلیم دی
جس نے دنیا بنا کر نہیں چھوڑدی
خاتم انبیاء کو نبوت ملی
ہرطرف تھی بغاوت، نہ مانو نبی
ان کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے
ان کے دشمن بھی اپنے دکھائے گئے
چھپ چھپا کر نبی نے یہ تبلیغ کی
چھوڑ دو تم طاغوت کی بندگی
جنتوں کی بشارت سنائی گئی
جو بھی نعمت ہےاس میں بتائی گئی
کچھ کمزور ایمان والے بھی تھے
جن کے آقا مسلسل جبر کررہے
گرم صحرا میں وہ سب ستائے گئے
ان کے سینوں پہ پتھر سجائے گئے
نبی نے تڑپ کر یہ مانگی دعا
یاالہی ! عمر سے مدد فرما
وہ نکلے نبی کے تھے دشمن جانی
وہ پہنچے تو بن گئے خلیفہ ثانی
قبول اسلام سے سب کو طاقت ملی
ان پہ نازاں ہوئے عرب کے مکیں
نبی کے وہ خوابوں کی تعبیر تھے
جرآت و بہادری کی وہ جاگیر تھے
ان کی ہیبت سے باطل لرزنے لگا
ان کی راہوں سے شیطان ڈرنے لگا
علم ،حکمت، دانائی،بصیرت ملی
ان کی باتیں تھی قرآن کی روشنی
وہ مطلوب تھے ،وہ محبوب تھے
عمل ان کے سبھی مشعل راہ بنے
ان کا مقصد اصلاح کے کام تھا
عدل و انصاف میں ان کا نام تھا
اک دفعہ انہیں یہ بشارت ملی
آسماں کے تارے عمر کی نیکیاں
خود نبی نے یہ ارشاد فرمادیا
میرے بعد ہوتا کوئی نبی خدا
وہ عمر فاروق اعظم ہی تھا
جس سمت چلتے اٹھاتے عزم
فتوحات نے ہیں چومے قدم
عاجزی و انکساری کا عالم تھا یہ
کوئی بھوکا نہ ہو عمر کے دور میں
کاندھے پر کچھ بوجھ اٹھائے ہوئے
ارادے تھے سب سے چھپائے ہوئے
کہیں سے جو رونے کی آئی صدا
گئے اس طرف اور ساماں دیا
غریبوں، یتیموں کا سہارا بنے
ہر اک آنکھ کا وہ تارا بنے
ان کے ذریعے سے اسلام پھیلا بہت
ان کے آنے سے ہر سو اجالا بہت
اگر ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا
تو دنیا میں کوئی بھوکا نہ سوتا
دعاؤں کومقبول رب نے فرمایا
شہادت کا اعزاز انہوں نے پایا