” میں فلسطین ہوں “

امید کا دامن تھامے امداد کا منتظر سفاکی اور بر بریت بہت چھوٹے الفاظ ہیں اسرائیلی یہودیوں نے بچوں، عورتوں، اسپتالوں اور اسکولوں پر جو بم گرائے ہیں اس کی تصویر کھلی آ نکھوں سے نہیں دیکھی جا سکتی شکوہ نہی ہے مجھے کافروں سے وہ تو ہیں ہی کافر تم لوگ تو اپنے ہو، مسلمان ہو آ خر کچھ کر نے سے اور کچھ کہنے سے کیوں ہو قاصر؟

 تمھیں مظلوموں سے نفرت ہے یا کافروں سے محبت ؟ فلسطین کی قرب بھر ی پکار پر خدارا اٹھیے مجھے نہیں پتا امت مسلمہ کے حکمران کیوں اتنے خاموش ہیں وہ کیا کرنا چاہیے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں کیوں ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں؟

ہم کون ہیں کیا ہیں باخدا یاد نہیں

اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں

خدارا اٹھیے القدس پر دل نگاہ اور قلم جمائیے ہم کچھ اور نہیں کر سکتے ان کے لیے رب رحیم سےخشوع وخضوع سے دعا کریں، ان کی مالی مدد کریں، ان کو ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلا دیں اور یہودیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہی کر دیں ہم نفس کا جہا د تو کر سکتے ہیں نہ ۔

اگر ہمیں واقعی اللہ اور فلسطین سے دلی اور عملی محبت ہے اور رب العزت کا یہ فرمان یاد ہے تو یہ کچھ مشکل نہیں ۔

“اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ان بےبس مردوں اور عورتوں کی خاطر نہیں نکلتے جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ۔”

غور کریں ہم ہی انہیں سرمایہ فراہم کر رہے ہیں ان کی مصنوعات کا استعمال کر کے اور وہ اس سرمائے سے ابرہا کی طرح ان پر ستم ڈھا رہے ہیں ۔

اللّٰہ رب العزت کے پیغام کو یاد رکھتے ہوئے ان کی مصنوعات کا سختی سے بائیکاٹ کر نا ہے اور ان معصوم بچوں کا ساتھ دینا ہے جو اپنا بیت المقدس بچانے کے لیے ابابیل بن گئے ہیں۔

ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے تجارت کریں اور ان کے کرب میں برابر کے شریک ہو ں سورہ بقرہ آ یت نمبر 262 ” جو لوگ اللّٰہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایزا دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہونگے ۔”

 قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوں اور بچا لیں اپنی جنت کو ۔

حق بات پہ کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں میری

اظہار تو کر دےگا جب ٹپکے گا لہو میرا