یہ نظام کب بدلے گا

میرا وطن پاکستان بہت خوب صورت ہے۔ اس کے حصول کےلیے کوششیں اور زندگیاں قربان کرنے والے بڑے محترم تھے۔ مگر یہ جو نظام ہم پر مسلط کیا گیا وہ اس کے حامی تو نہیں تھے؟  وہ تو نظام چاہتے تھے کہ جہاں امیر غریب برابر ہوں! جہاں چھوٹے بڑے کی تمیز ہو!  جہاں معاشرہ ایسا بنے جو دنیا کے لیے مثال ہو! مگر ایسا تو نہیں ہوا۔ ہم پہ جو نظام مسلط کیا گیا۔ اس کو کب بدلو گے؟

اس کو کون بدلے گا؟

یہ ایسا نظام ہے یہاں غریب کا بچہ پہلے تو پڑھ نہیں سکتا اگر پڑھے تو سرکاری اسکولوں میں جہاں پہ نہ وہ معیار نہ وہ پوچھ گچھ، امیر کا بچہ ایجوکیٹر، الائیڈ یا آکسفورڈ اسکولوں میں پڑھے جہاں معیار بھی ہے اور پوچھ گچھ بھی! اگر غریب کا بچہ میٹرک تک پڑھ لیتا ہے تو اس کے پاس وسائل نہیں کہ وہ آگے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی سکت رکھتا ہو، مگر مشکل حالات میں زندگی بسر کر کے وہ کالج میں قدم رکھتا ہے تو ہمارے گورنمنٹ کالج میں جہاں پر استاد میسر تو ہوتے ہیں بس حاضری کی حد تک، کیونکہ وہ بچہ کسی اکیڈمی میں نہیں جا سکتا۔

اس کے برعکس ایک امیر کا بچہ ہے تو لارنس کالج، پنجاب کالج، سپیریئر کالج کی زینت بنتا ہے، جہاں پر اس کو ہر قسم کی لیبارٹریز میں مشق کروائی جاتی ہے اور اسے عملی طور پر تعلیم دی جاتی ہے۔ کیونکہ اس نے پیسے ادا کیے ہوتے ہیں۔ تعلیم میں اگلا مرحلہ یونیورسٹی لیول ہوتا ہے وہاں پر غریب کے بچے کے لیے ناممکن عمل ہوتا ہے کہ وہ کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکے۔ 2 فیصد غریب لوگ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتے ہیں مگر پھر بھی آگے نہیں جا سکتے۔

امیر کا بچہ کیمبرج یونیورسٹی، آکسفورڈ یونیورسٹی، بریڈفورڈ یونیورسٹی سے پڑھتا ہے اور وطن واپس آتا ہے۔ تو یہاں پر ایک ہی ٹیسٹ لیا جاتا ہے جس میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والا بھی اور کیمبرج سے فاضل بھی اسی ٹیسٹ میں شرکت کرتے ہیں۔ آخرکار وہ ٹیسٹ بڑے اداروں سے پڑھ کر آنے والے لوگ پاس کر جاتے ہیں اور غریب کا بچہ پھر رہ جاتا ہے۔ وہ بندہ ملک کا اے سی، ڈی سی، بیوروکریٹ بن جاتا ہے۔ مگر یہ درجہ چہارم کا ملازم بھی نہیں بن پاتا۔ حکومتیں بہت گزر گئیں سب کو پرکھا، سب کو دیکھا کوئی غریب کا آسرا نہیں! کوئی ان کا سہارا نہیں!

کیا یہ لوگ اپنی اجارہ داری نہیں ختم کرنا چاہتے؟ کیا یہ غریبوں کو ذہنی غلام بنانا چاہتے ہیں؟ حکومت کوئی بھی ہو ملک میں ایسا نظام مرتب کیا جائے کہ کوئی پرائیویٹ ادارہ نہ ہو سب سرکاری ادارے ہوں۔ غریب کا بچہ ہو یا امیر کا سب ایک ہی ادارے میں پڑھیں۔ایک ہی ٹیسٹ دیں۔ ایک ہی میدان میں آئیں۔ تاکہ یہ نسلی امتیاز تو ختم ہو سکے۔ تاکہ یہ لوگ بھی خوش حال زندگی بسر کر سکیں۔

کیا ان کو جینے کا حق نہیں؟ کیا یہ نسل در نسل ایسے ہی رہیں؟ اگر یہ حکومتیں نظام نہیں بدلتیں تو خود اس کے خلاف اٹھ جاؤ۔ ملک کے ساتھ ساتھ اپنا آپ بچاؤ۔ شعور پیدا کرو۔خود کو بدلو، نظام کو بدلو۔ معاشرہ پھر بہتر ہوگا۔ رواداری لاو، یہ انصاف ہے۔ یہ نظام مصطفیٰ ہے۔ یہ نظام عمر فاروق کا ہے۔

ہم خود نہیں بدلیں گے تو کچھ نہیں گا۔