ووٹ کا درست استعمال

ایک دفعہ پھر بلدیاتی انتخابات کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے اور الیکشن کی گہما گہمی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے مختلف سیاسی جماعتوں نے سیاسی بازار میں اپنی اپنی دکانیں کھول کر اسے سجانے کی بھی کوششیں شروع کردی ہیں جیسے برسات کے موسم میں برساتی مینڈک باہر آجاتے ہیں بلکل اسی طرح یہ جماعتیں بھی جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو سیاست کے تالاب میں چھپ کر حکمرانی کی چادر اوڑھے سو رہی ہوتی ہیں اور جیسے ہی الیکشن کا زمانہ آتا ہے تو اچھل کر باہر آ جاتی ہیں پہلے تو انہوں نے کوشش کی کہ کسی طرح ان کو حکمرانی کے چادر کے اندر ہی مزے سے رہنے دیا جائے جس کے لیے انہوں نے الیکشن کو ملتوی کرانے کے لیے تاخیری حربے بھی استعمال کیے مگر اب مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق ان کو باہر نکل کر عوام میں آنا ہی پڑ رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کی عوام اب بہت باشعور ہو چکی ہے یہ اب مزید کسی لولی پاپ سے نہیں بہلنے والی کیونکہ وہ اچھی طرح جان چکی ہے کہ انہوں نے ماضی میں جن لوگوں کو کراچی کا بے تاج بادشاہ بنایا انہوں نے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا۔ عروس البلاد کراچی کو کھنڈر میں تبدیل کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ہر طرف گندگی کا ڈھیر، بہتے ہوئے گٹر غیر قانونی تجاوزات اور قبضہ مافیا اب کراچی کی شناخت بن رہے ہیں ۔

صحت کے حوالے سے دیکھیں تو سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے وہاں علاج کرانا جوئے شیر لانے کے برابر ہےکیونکہ ایک تو وہاں سہولیات کا فقدان ہے اس کے علاوہ جب تک آپ کے پاس کسی کی سفارش نہ ہو ڈاکٹر آپ کو توجہ نہیں دیں گے۔ مریضوں کے نام پر آنے والی دواؤں کا مارکیٹ میں کھلے عام فروخت ہونا بھی اب عام بات ہو گی ہے ۔

اسی طرح تعلیمی میدان میں کارکردگی کو دیکھ لیں تو ہر شخص کسی نہ کسی ایسے طالب علم کو ضرور جانتا ہوگا جس کے ساتھ سندھ بورڈ نے ناانصافی کی ہوگی کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ کاپیوں کے چیک کرنے کا معیار کیا ہے( کچھ باتیں پردے میں رہنے دی جائیں تو بہتر ہے )۔

یوٹیلیٹیز کی بات کی جائے تو کے الیکٹرک کی من مانیاں ٹینکر مافیا کی کارستانیاں ، گیس کی بندش اور سیوریج سسٹم کی تباہی یہ کراچی کو جونک کی طرح چمٹ چکے ہیں جن سے چھٹکارا ممکن نظر نہیں آتا۔

“پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی” یہ نعرہ تو یقینا آپ نے سنا ہوگا مگر عمل ہوتا ہوا کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ آئے دن کراچی کی سڑکوں پر لوٹ مار اور موبائل چھیننے کی وارداتیں پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں بلکہ اب تو مزاحمت کے دوران لوگوں کو جان سے مار دینے کا رواج عام ہو گیا۔ پچھلے دنوں این ای ڈی یونیورسٹی کے تھرڈ ایئر کے اسٹوڈنٹ کی موت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا اس کو جس طرح سےسڑک پر گولی مار کر ڈاکوؤں نے شہید کیا اس سانحہ پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ کیا کراچی کے والدین اپنا خون جگر پلا کر اپنی اولاد کو اس لئے جوان کرتے ہیں کہ ان کے جوان کراچی کی سڑکوں کو اپنے لہو سے رنگین کریں؟ نہیں ہرگز نہیں اب کراچی کے عوام کو انتخابات میں اپنا حق لینے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔

یاد رکھیں کراچی کے ان تمام مسائل کی سب سے اہم وجہ کرپشن ہے، راشی، بے ایمان اور غیر مخلص حکمران ہیں جنہیں صرف اور صرف اپنے اقتدار کی ہوس ہے وہ اپنے دور حکومت میں صرف اپنی جائیدادیں بناتے ہیں، اپنا بینک بیلنس بڑھاتے ہیں اور اقربا پروری کرتے ہیں انہیں عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں لہذا عوام کو اس الیکشن میں ایسے تمام عناصر کو مسترد کر دینے کی ضرورت ہے۔

کسی بھی سیاستدان کی ایمانداری کو جانچنے کا پیمانہ اس کے اپنے دور اقتدار میں حاصل کیے گئے benefits سے ہوتا ہے یعنی منصب پر فائز ہونے سے پہلے اس کے پاس کیا تھا اور جب وہ سبکدوش ہوا تو اس کے پاس کتنے assets موجود تھے اس معیار پر سیاستدانوں کو جانچا جائے تو عوام کو خود اندازہ ھو جائے گا کہ کون لوگ اس پر پورا اترتے ہیں یقینا جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جن کے لوگ اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ عبدالستار افغانی سے لے کر سید منور حسن تک جتنے بھی عہدے داران گزرے ہیں ان کی زندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جن کے مخالفین بھی آج تک ان کی ایمانداری اور دیانتداری کی تعریفیں کرتے ہیں ۔

کراچی کے عوام اب یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ووٹ ایک امانت ہے اور امانت ہمیشہ ان لوگوں کے سپرد کرنی چاہیے جو اس کی حفاظت کر سکیں جن کی دیانت داری اور ایمانداری کی زمانہ مثالیں دیتا ہو جو عوام کے حقوق دلانے کے لئے دن رات کوشاں رہتے ہوں امید ہے اس بار کراچی کے عوام اب مزید کسی بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور ووٹ کا درست استعمال کرتے ہوئے حکمرانی کا تاج نیک اور صالح لوگوں کے سر پر سجائیں گے چنانچہ جب کراچی کے مختلف اداروں کے سربراہ (خواہ کے الیکٹرک ہو، واٹر بورڈ ہو، تعلیم اور صحت کا محکمہ ہو، میونسپل کارپوریشن ہو یا دیگر محکمے ہوں) جب ایماندار، دیانتدار اور عوام سے مخلص ہوں گے تو یقیناً تمام محکموں سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور اس کے ثمرات کراچی کو ملنا شروع ہو جائیں گے اور کراچی پھر سے چین اورامن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا اور اسکی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں گی۔ انشاءاللہ