ویٹ لینڈز کا ناگزیر تحفظ

بنی نوع انسان اور فطرت کے درمیان مضبوط ربط کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں 01 ارب سے زیادہ افراد اپنی روزی روٹی کے لئے دلدلی علاقوں یا ویٹ لینڈز پر انحصار کرتے ہیں یعنیٰ کرہ ارض پر ہر آٹھ میں سے ایک شخص کا دارومدار ایسے مقامات پر ہے۔ تاہم، ان دلدلی علاقوں کا ماحولیاتی نظام مادی ترقی اور فطرت کے درمیان عدم ہم آہنگی کے باعث سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 1970 سے اب تک دنیا کے 35 فیصد دلدلی علاقے غائب ہو چکے ہیں۔یوں دنیا بھر میں ان قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔

اس سلسلے کی تازہ کڑی ابھی حال ہی میں چین کے شہر ووہان میں منعقدہ ”ویٹ لینڈز سے متعلق کنونشن” کے فریقوں کی 14 ویں کانفرنس ہے۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے تقریب سے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ یہ اجلاس ہمیں دنیا بھر میں بیداری بڑھانے، تعاون کو مضبوط بنانے اور ویٹ لینڈز کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ شی جن پھنگ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چین انسانیت اور فطرت کے مابین ہم آہنگی میں جدت لانے کی کوشش کرے گا، ویٹ لینڈز کے تحفظ کی بنیاد پر اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دے گا اور بین الاقوامی تبادلوں اور تعاون کو فروغ دے گا۔

چین میں ویٹ لینڈز کے تحفظ میں حاصل شدہ کامیابیوں کا زکر کیا جائے تو دنیا کی چار فیصد ویٹ لینڈز کے ساتھ،ملک نے ویٹ لینڈز کی ترقی، ماحولیات اور ثقافت کے لئے دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کی متنوع ضروریات کو پورا کیا ہے۔آج ملک میں ویٹ لینڈز کا رقبہ بڑھ کر 56.35 ملین ہیکٹر ہو چکا ہے۔ چین نے ویٹ لینڈزکے تحفظ کے لئے اپنے قانونی فریم ورک کے ساتھ ساتھ تحفظ کے انتظام، منصوبہ بندی، تحقیقات اور نگرانی کے نظام کو بہتر بنایا ہے۔ چین نے متعلقہ کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا کیا ہے اور اس سلسلے میں بین الاقوامی تعاون کا فروغ جاری رکھا ہے۔ مرکزی حکومت نے 2003 سے ملک بھر میں ویٹ لینڈز کے تحفظ اور بحالی کو آگے بڑھانے کے لئے اکتالیس سو سے زیادہ منصوبوں پر 19.8 بلین یوآن (تقریباً 2.73 بلین ڈالر) خرچ کیے ہیں۔چین میں اس وقت بین الاقوامی نوعیت کے 64 ویٹ لینڈز اور قومی نوعیت کے 29 ویٹ لینڈز کے ساتھ ساتھ 901 نیشنل ویٹ لینڈ پارک بھی موجود ہیں۔ابھی گزشتہ ماہ ہی چین نے 2022 تا2030 کی مدت کے لیے ویٹ لینڈ کے تحفظ کا ایک منصوبہ جاری کیا ہے، جس کا مقصد 2025 تک اپنی ویٹ لینڈ پروٹیکشن کی شرح کو 55 فیصد تک بڑھانا ہے، جبکہ بین الاقوامی نوعیت اور قومی نوعیت کے ویٹ لینڈز کی تعداد میں بالترتیب 20 اور 50 کا اضافہ کرنا ہے۔

چین میں برسوں کی کوششوں کا یہ ثمر ہے کہ ویٹ لینڈز کے تحفظ میں مذکورہ قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔اس وقت اہم ویٹ لینڈز کا ماحولیاتی معیار عمومی طور پر مستحکم ہے،اسی طرح مجموعی طور پر پانی کے معیار میں بہتری کا رجحان جاری ہے، حیاتیاتی تنوع میں اضافہ ہوا ہے اور ویٹ لینڈز کے تحفظ اور بحالی نے شاندار نتائج حاصل کیے ہیں۔ چین کی جانب سے متعدد ویٹ لینڈ پروٹیکشن کمیونٹیز قائم کی گئی ہیں، یوں اہم دلدلی علاقوں کا مؤثر طریقے سے تحفظ کیا گیا ہے۔ چین کی کوششوں نے عالمی سطح پر بھی ویٹ لینڈز کے تحفظ کے فروغ میں مثبت کردار ادا کیا ہے اور باقی دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔

وسیع تناظر میں یہ امر قابل زکر ہے کہ چین نے ویٹ لینڈز کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جنوب جنوب تعاون فریم ورک کے تحت حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں 80 سے زائد ترقی پذیر ممالک کو مدد فراہم کی ہے۔چین نے ماحولیاتی تعاون کو بھی بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کا ایک اہم حصہ بنایا ہے۔ 2021 میں، چین نے 31 شراکت دار ممالک کے ساتھ ”بیلٹ اینڈ روڈ” گرین ڈویلپمنٹ پارٹنرشپ انیشی ایٹو کا آغاز کیا، جس میں گرین اور پائیدار معاشی ترقی کے حصول اور وبا کے بعد کم کاربن، لچکدار اور جامع معاشی نمو کو فروغ دینے کے لئے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا گیا ہے۔مزید برآں، چین نے بین الاقوامی کانفرنسوں اور دیگر سرگرمیوں میں بھی فعال حصہ لیا ہے، جن میں حیاتیاتی تنوع سے متعلق اقوام متحدہ کا سربراہی اجلاس اور موسمیاتی تبدیلی پر رہنماؤں کا سربراہی اجلاس شامل ہے، یوں چین کی فعال شراکت سے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار ترقی کو فروغ ملا ہے جو دنیا کے دیگر اہم ممالک کے لیے ایک قابل تقلید ماڈل اور عمدہ حوالہ ہے۔