مجھے ہے حکم اذان

وہ اتنی نازک سی، کمزور سی چڑیا ہی تو تھی بھلا کیسے وہ اس قدر دہکتا الاٶ بجھا سکتی تھی۔

اس نازک اور ناتواں وجود میں اتنی سکت ہی کہاں تھی۔

پھر وہ کیا چیز تھی جو اسے اپنی تمام تر کمزوری اور ناتوانی کے باوجود نتائج کی پروہ کئےبغیر اپنی بھرپور سعی کرنے پر مجبور کرتی رہی۔؟

یہ پاسداری حکم اذان کی ایک شکل ہی تو تھی۔

وہ ننھی سی جان اپنی سکت کے مطابق اپنا ذمہ نبھاتی رہی،

یہ دیکھے بغیر کہ اسکا ہدف کس قدر مشکل ہے وہ اپنا حصہ ڈالتی رہی اور حکم اذان پورا کرتی رہی۔

حضرت ابراہیم علیہ کے اس واقعے میں چڑیا کا یقین، اعتماد اور برائی کے خلاف جدوجہد کا جذبہ ہمارے لۓ روشن قندیل ہے۔

خواہ حالات کتنے ہی سنگین ہوں ہمیں اپنی سکت کے مطابق ہر اس برائی کے خلاف جو سامنے آجائے اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

صرف ہمارا حصہ ہمارا عمل معنی رکھتا ہے نتیجہ ہمیشہ اللہ کے ہاتھ میں رہا ہے۔

اللہ تو بس کوشش مانگتا۔  بھرپور کوشش۔

اس واقعے میں ایک اور نکتہ جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ محض زبان کے ذریعے حکم اذان پورا نہیں کرنا بلکہ قول کے ساتھ فعل بھی مطلوب ہے۔

بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ”بات“ سے زیادہ ” ذات“ اہمیت رکھتی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔

الفاط اور انداز خواہ کتنے ہی خوبصورت ہوں اگر عمل آپکی اس دعوت کا متضاد ہوگا تو آپکی بات بے اثر رہے گی۔

جو اذان کا حکم دیا مجھے اسے تو عمل میں اتاردے

دے تشنگی مجھے علم کی پھراسے عمل سے گزاردے

برائی، بے حیائی اور بے راہ روی اور فتنوں کی بھڑکتی ہوئی آگ محض ایک بندے کی کوشش اور جدو جہد سے سرد تو نہیں ہو سکتی مگر آپکا کردار اور حصہ آپکا نام اور مقام امت وسط کے اس عظیم گروہ کی فہرست میں شامل کروادے گا جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا علمبردار ہے ان شاء اللّٰہ۔

ایمان کے انتہائی کمزور درجے سے نکل آئیں ،برائی کو برائی محض تصور نہیں کریں بلکہ اس کی روک تھام کے لئے جان مال کے ساتھ سر ڈھڑ کی بازی لگا دیں کہ کوئی بھی خوف ہمیں حضرت ابراہیم علیہ کی طرح حق گوئی سے روک نہ سکے۔