سیلاب، سیاست اور مہنگائی!

بہت عرصہ اس خوف میں بیت گیا کہ قلم کو روندھے جانے کی جو رسم چل رہی ہے اس میں ہمارا قلم بھی کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نا ہو جائے، گوکہ ہم نے ہمیشہ اس بات کو خاطر میں رکھا کہ جان کی آمان پاؤ ں تو کچھ لکھوں اور اس آمان کی اجازت بھی خود اپنے آپ سے ہی لینی پڑتی رہی ہے۔ کچھ عرصے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اکیسویں نہیں بلکہ انیسویں صدی یا پھر اس سے بھی پہلی کسی صدی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جب دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا اس لئے بولنے کیلئے کچھ ہوتا ہی نہیں تھا اور اگر کوئی اندازہ لگا کر لکھ یا بول لیتا تو پھر اس کا وہ بولنا اسکے لئے ہمیشہ کیلئے خاموشی کا سبب بن جاتا تھا بلکل آج بھی یعنی اکیسویں صدی کے اوائل میں جب دنیا مریخ پر رہائش کا بندوبست کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے تو ہم آج بھی زبان و قلم کو قید و بند کی صعوبتوں میں دھکیلنے پر لگے ہوئے ہیں ہم آج بھی انا کے خول اتارنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ہم آج بھی انفرادی ترجیحات پر کچھ بھی قربان کرنے کیلئے تیار دکھائی دے رہے ہیں ۔

پاکستان کو اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا اور اسکے ساتھ ہی تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے اور ساتھ ہی ملک میں سیاسی بحران بھی تاریخ کے سیاسی بحرانوں سے کہیں زیادہ مختلف دیکھائی دے رہا ہے۔ سب سے پہلے سیلاب کی بات کرلیتے ہیں سیلاب جو ابر رحمت کی وجہ سے وجود میں آیا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کے اسباب کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس تباہی کے پیچھے بھی انفرادی ترجیحات یا پھر مفاد کارفرما دیکھائی دینگے۔ غیر منظم حکمت ِ عملی اور سب سے بڑھ کر پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ڈیموں کی تعمیر نا کروانا اس تباہی کے بنیادی جز ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا قطعی لازمی نہیں ہے کہ ایسا کرنے والے کون لوگ ہیں اور یہ کن لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ کالا باغ ڈیم کچھ لوگوں کی سیاسی بقاء کیلئے تاحال قربان کیا جاتا رہا ہے، یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کچھ اکابرین کا خیال ہے کہ کالا باغ ڈیم کے بننے سے ایک مخصوص علاقہ ڈوب جائے گا اب وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ ہرسال جو علاقہ بلکہ اس علاقے میں رہنے والے اپنے ساز و سامان کے ساتھ جو ڈوبتے ہیں اس کا کوئی حل نکال لیا ہے کیا کوئی ایسا علاقہ بھی ہے جہاں سیلابی پانی نے صرف ایک دفعہ تباہی مچائی ہو ۔ مخصوص لوگ اپنی زمینیں یا کھڑی فصلیں بچانے کیلئے غریب عوام کے گھر تک ڈبو دیتے ہیں ایسا ہمیشہ سے ہی ہوتا ہوگا لیکن آج کے اس سماجی ابلاغ کے دور میں کچھ بھی چھپانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود کوئی قانون کوئی ارباب اختیار کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔

سیلاب سے قبل ملک ِ خداداد پاکستان ایک انتہائی سنگین سیاسی بحران سے گزر رہا تھاجس کی وجہ سے داخلی اور خارجی دونوں سطح پر ملک کو شدید خطرات کا سامنا کر نا پڑ رہا تھا(کچھ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پاکستان بھی بہت جلد سری لنکا کی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوجائےگا لیکن اللہ کے نام پر لیا گیا ملک ایک بار پھر اس صورتحال سے نکل آیا) اورپھر سیلاب نے اس سیاسی تباہی کو اپنی تباہ کاریوں کی مدد سے کسی حد تک پیچھے دھکیلنے کی بھرپور کوششیں کیں جوکہ مکمل طور پر کارگر ثابت نہیں ہوسکیں۔ حکومت نے اپنی تمام تر توجہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو منانے اور اسکی شرائط ماننے، ان پر عمل درآمد کرانے پر مرکوز رکھی تاکہ بقول حکمرانوں کے پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو بچایا جاسکے۔ معیشت کہاں تک سنبھلی ہے اس پر بات کرنا نہایت دشوار ہے، حسب معمول کسی دوسرے پر الزام لگانے کی روش تاحال جاری ہے اور موجودہ حکومت (جو شائد پچھلے دروازے سے اقتدار میں آئی ہے) تو حکومتوں کا وزسیع تجربہ رکھتی ہے بلکہ ان کے پاس تو اپنی اپنی وزارتوں کے ماہر موجود ہے لیکن پھر بھی ان سے حکومت نہیں سنبھل رہی ہے اور اب تو یہ واضح دیکھائی دے رہا ہے کہ کسی کی دلی خواہش پوری کرنے کیلئے یہ حکومت منتقل کی گئی ہے۔ دوسری طرف عوام میں آگہی کا ایک لاوا انڈیلا جا رہا ہے جو ووٹ کے ذریعے سے سب قوتوں کو شکست دینے کیلئے بیقرار قریہ قریہ بستی بستی گھومتا دکھائی اور سنائی دے رہا ہے۔

جو مسائل ہیں وہ عوام کیلئے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں کیونکہ عوام ہی اپنے فیصلے کرنے کیلئے ایسے نمائندے چن کر ان اعوانوں میں بھیجتی ہے جہاں بیٹھ کر عوامی مسائل کم کرنے کا وعدہ کرکے جانے والے، مسائل میں چار چاند لگا دیتے ہیں۔ پاکستان میں تاریخی مہنگائی رواں دور میں رقم کی جارہی ہے جسے غیر ملکی کرنسی سے جوڑا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں بھی منافع خوروں کی ہٹ دھرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں سے ایسی ایسی بھیانک حرکات و سکنات کی خبریں سماجی ابلاغ پر دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ ملک کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن پاکستان کی عوام کے اعمال خدا خوفی سے ماورا دکھائی دے رہے ہیں۔ جو طاقت ور ہے وہ اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتا دیکھا جارہا ہے لیکن قانون ہے کہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا اور جہاں دکھائی دے رہا ہے وہاں اس کے دکھائی دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

گوکہ سیلاب نے آدھے سے زیادہ پاکستان کو پانی میں ڈبودیا ہے لیکن ہم اسے ایسا دیکھ رہے ہیں کہ قدرت نے آنے والے نئے دور کیلئے پاکستان کی سرزمین کو پاک سرزمین کر دیا ہے۔ اللہ اپنے نظام کی راہیں سیدھی کرارہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کی قسمت دوبارہ سے بدلے گی اور پاکستان کے ایوانوں میں وہ لوگ ذمہ داریاں نبھائیں گے جن کے دامن داغدار نہیں ہونگے۔ان شاء اللہ

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔