پاکستانی تو مرتے ہی رہتے ہیں

ٹی وی چینلز پر پروگرام میں سیاسی لیڈروں کی بیان بازیاں جاری ہیں، دھینگا مشتی میں بھی کمی نہیں آئی۔ دو مشہور شخصیات کی آپس کی ٹیلی فونک گفتگو زیر بحث ہے۔ جس سے اک بات تو واضح ہے کہ ملک کی فکر تب تک ہی ہے جب تک انتخابات سر پر ہوں گے یا جب حکومت میں ہوں گے تو دکھاوے کی خاطر ہی سہی پاکستان کے نام نہاد مفاد پر کوئی ایک آدھ جملہ کہہ ہی دیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر 66 اضلاع کو آفت زدہ  قرار دیا گیا ہے۔

متاثرہ لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ بچوں کے لیے ایک لفافہ چاول مانگ رہے ہیں۔ پینے کا پانی میسر نہیں ہے، جب ٹیم ان کے پاس پہنچتی ہے تو بے کسی میں روتا ہوا شخص منت کر کے کہتا ہے کہ بھائی میں کھانا نہیں کھاؤں گا لیکن میرے بچے اور ماں بوڑھی ہے بس ایک لفافہ چاول دے دو، جب ان سے پوچھا جائے کہ راشن لے کر آئے ہیں آپ کا گھر کہاں ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کنارے پر پلاسٹک بچھا کے اسی پر بیٹھے ہیں، کہیں اگر کوئی دیوار بچ گئی ہے تو اسی دیوار سے لگ کر بیٹھے ہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کتنے ہی فیصد خواتین پردہ کرتی ہیں اور کبھی بلا ضرورت گھر کے دروازے سے باہر نہ جاتی ہوں گی، وہ آج بے پردہ کسی سوکھی جگہ کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔

بچوں کی لاشیں پانی پر تیرتی ہوئی گزر رہی ہیں، نہ سر پر چھت رہی نہ بھوک مٹانے کا کوئی بہتر آسرا ہے، بھوک اور بیماری کے ساتھ ساتھ بے گھر پاکستانی بہن بھائی اس خوف میں بھی مبتلا ہیں کہ کب سیلابی پانی سے کوئی زہریلا کیڑا نکل آئے یا کوئی سانپ نمودار ہو اور کسی بچے کو کاٹ نہ لے۔ ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو انجکشن اور دوائیاں پہنچانے کا بندوبست کر سکتی ہیں لیکن اگر ایسا کیا تو منافع کمانے کا موقعہ ہاتھ سے چلا جائے گا، یہی تو وقت ہے ذخیزہ اندوزی اور کمائی کا ایسا موقعہ بھلا کیسے جانے دیا جا ئے، پاکستانیوں کا کیا ہے وہ تو مرتے ہی رہتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس بار پاکستان میں اگست میں اوسط سے زیادہ بارشیں ہوئیں- 2010 کی طرح اس بار بھی وڈیروں اور بڑے سیاستدانوں نے اپنی زمینیں بچانے کی خاطر ایسی جگہوں سے بند توڑے جہاں سیلابی پانی کی کچھ روک تھام شاید ہو پاتی۔

متاثرین سے جب پوچھا جائے کہ حکومتی سطح پریہاں کوئی دورے پر آتا ہے یا کوئی امداد وغیرہ… تو بتایا جاتا ہے کہ جی پروٹوکول والی بڑی بڑی گاڑیاں وہ وہاں دور سے گزرتی نظر تو آتی ہیں، یعنی سیاسی لوگ اپنا روٹین ورک تندہی سے کر رہے ہیں، ویسا ہی جیسے ایک بار ہیلی کاپٹر سے روٹیاں پھینکنے کے لیے تندہی سے کام کیا گیا تھا۔

اس بار شاید اس کی توقع بھی نہ کی جا سکے، ایک عام پاکستانی سیلاب میں ڈوب کر مرتا ہے یا بیماری کا شکار ہو کر ہسپتال کی فیس ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے گھر میں ہی ایڑیاں رگڑ کر مرتا ہے، یا اٹھارہ برس کے بعد اس کے کیس کا فیصلہ ہو اور اسے پتہ چلے کہ فیصلہ اس کے حق میں ہوا، اسی خوشی سے وہ جانبر نہ ہو سکے اور کورٹ کے احاطے میں ہی دم توڑ جائے۔

مظبوط چھت کے نیچے رہنے والا خاندان کوئی سوکھی زمین ڈھونڈ کر پلاسٹک کے لفافوں سے سر ڈھانپے گھر کے ملبے کے باہر اپنے خاندان کے ہمراہ مدد کے انتظار میں بیٹھا ہو، چند دوست جان بچانے کی خاطر کسی اونچی جگہ پر بیٹھے حکومتی ہیلی کاپٹر کا انتظار کرتے کرتے کسی تیز ریلے میں بہہ جائیں کیا فرق پڑتا ہے جی، یہ ہیلی کاپٹرز نہاری اور آلو گوشت لانے لے جانے کا کام کرتے ہیں یا پھر بنی گالہ سے حاکم سرکار اور ان کے کتے صاحب کو پک اینڈ ڈراپ کے لیے ہیں- ویسے بھی پاکستانی عوام ہی تو ہے جیسے بھی مرے کیا فرق پڑتا ہے۔

اس وقت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب بے بس ملک سے باہر بیٹھے ہیں کیونکہ ان کو نکال دیا گیا، خان صاحب کے ساتھ بہت ذیادتی ہوئی کیونکہ ان کو بھی ہٹا دیا گیا، شہباز شریف کی اپنی پریشانی ہے کہ ان کو لایا کیوں گیا، اب لے ہی آئے تھے تو کم از کم حمزہ شہباز کو تو ساتھ رہنے دیتے، بلاول ذرداری مطلب بھٹو کا مسئلہ تو غربت ہے- ان کے پاس تو سیلاب ذدگان کے لیے دس روپے بھی نہیں ہیں، ان کو تو بقول ان کے زکوٰۃ لگتی ہے۔ اب اُس غریب سے کیا گلا کرنا۔

کتنی کتنی بار وہی چہرے حکومت کا حصہ رہیں لیکن کوئی ڈیم نہیں بنا سکیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ڈیم کے لیے رقم اکٹھی کرنے کی کوشش کی گئی تھی، ہماری امدادی رقم کا کیا ہوا یہ سوال نہیں ہے لیکن ڈیم کہاں ہے؟ ایک پاکستانی اپنے اپنے طور پر جتنی کوشش کر سکتا ہے، کر رہا ہے۔

ضیاءالدین میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے الخدمت فاؤنڈیشن کے کیمپ میں رضاکارانہ خدمات پیش کیں اور ان کے مطابق سیاسی جماعتیں اس وقت جس کھینچا تانی میں لگی ہوئی ہیں وہاں ابھی ایسی جماعتیں ہیں جو ٹی وی چینلز کی زینت نہیں بنتیں نہ ہی کسی بیان بازی کا حصہ بنتی ہیں بلکہ عملی طور پر قدرتی آفات کا شکار ہوئے بھائیوں کی مدد کو نکل پڑتے ہیں۔ ان میں سے ایک الخدمت فاؤنڈیشن بھی ہے۔ اس وقت جہاں بڑے بڑے مگر مچھ اپنی دھینگا مشتی میں مصروف ہیں وہاں کراچی کے بڑے دل والے لوگ، دل کھول کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کوڑا چننے والا بچہ ہو یا پاپڑ بیچنے والا بچہ ہو۔ ایک عام پاکستانی ملک کے ہر کونے سے، وہ اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھانا کھا پاتے ہی نہیں لیکن اپنی اپنی دہاڑی مدد کے لیے دے رہے ہیں۔

ایک عام پاکستانی بہت خاص ہو جاتا ہے جب اس کے بھائی پر برا وقت آجائے تو جیب سے سب نکال کر دے دیتا ہے، مگر دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے گندم ذخیرہ کیے رکھا، سیلاب کے دنوں میں مہنگا بیچنے کے لیے، جو اب سڑ چکا ہے، ایک خیمہ جو پیتیس سو روپے کا تھا، بارہ ہزار کا ہو چکا۔ ٹماٹر، پیاز اور دالیں تک غریب کی پہنچ سے باہر ہونے لگیں۔ زلزلہ ، سیلاب ہو یا کوئی بھی قدرتی آفت، بس ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ جو مر رہے ہیں ان کا کیا ہے، جو دنیا میں آیا ہے سے ایک دن جانا ہی ہے سو پانی میں بہہ کر چلا جائے۔

بڑے لوگ ہیں ایسے جن کی زمینیں اور باغات خشک پڑے ہیں لیکن غریب کی جھگیاں بہہ گئیں، ان کے بچے گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔مگر بھلا ہو اُن وڈیروں اور سرداروں کا جن کے غنڈے سیلاب ذدگان کے لیے آئی مدد کو راستے میں ہی لوٹ لیتے ہیں- ایک عام پاکستانی نہیں خا ص الخاص کہنا بہتر ہے جو بڑھ چڑھ کر مدد میں حصہ لے رہے ہیں اور حکمران طبقہ دس روپے کا رونا رو رہا ہے اپنی زمینیں، اپنی فصلیں اور باغات بچا رہا ہے۔

جب کسی مصیبت ذدہ سے بات کی جائے تو بتاتے ہیں کہ ذاتی طور پر تو لوگ آتے ہیں مدد کرنے کے لئیے مگر سرکاری سطح پر لوگوں کو بہت سے مقامات پر کشتیاں تک فراہم نہیں کی گئیں، سامان رسد کے لیے بھی سفارش چل رہی ہے۔