عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ

عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس اور وہ بنیاد ہے جس پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے، یہی وہ عقیدہ ہے جوجسد اسلا م کی روح ہے، قرآن مجید کی سو کے قریب آیات مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں، خودرسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کم و بیش دو سے زائد احادیث مبارکہ میں اس اَمر کی وضاحت مختلف پیرائے میں فرمائی کہ پوری اُمت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم نبوت کے مسئلہ پر یکسو اور متحد ہو گئی اور یہ پوری امت کا متفقہ عقیدہ قرار پایا، حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لے کر آج تک ہر دور میں دنیا کے حریص اور طالع آزماؤں نے جھوٹ،فریب،مکر و دجل اور شعبدے بازیوں سے قصر نبوت میں نقب لگانے کی کوشش کی، مگر اُمت مسلمہ اس جعلسازی کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیشہ مستعد ومنظم رہی، مسیلمہ کذاب، طلیحہ بن خویلد، اُسود عنسی سے لے کر مرزا قادیانی تک اُمت مسلمہ نے ہر دور میں ان نقب زنوں کا کامیاب تعاقب کیا، 1901ء میں جب سے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیا، تو علماءو مشائخ اُمت نے اس فتنے کے سدباب کیلئے ہرمیدان میں قادیانیت کا محاسبہ جاری رکھا۔

بیسویں صدی کا آغاز اُمت مسلمہ کیلئے جن بدترین حالات میں ہو ا، اس کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس تاریک دور میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے اُمت کو ایسے افراد سے نوازا جنھوں نے کفر و طاغوت اور ظلم و استحصالی نظام کے خلاف ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑی، جناب شاکر حسین خان ریسرچ اسکالر علوم اسلامی جامعہ کراچی اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں ”قیام پاکستان کے بعد علماءو مشائخ نے 1953ءمیں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی، اس کے باوجود علمائے حق نئی حکمت عملی سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے اور ہر محاذ پر قادیانیوں کے سامنے سینہ سپر رہے، وہ علماءجنہوں نے حق کی آواز کو تحریک ختم نبوت 1953ءکی ناکامی کے بعد دوبارہ بلند کیا، اُن میں روشن و تابندہ نام مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نوراللہ مرقدہُ کا ہے، جنہوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے بھر پور طریقے سے عملی جدوجہد جاری رکھی، قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی اور اُن کی ہر موڑ پر مخالفت کرتے رہے۔۔مولانا نورانی نے اپنے والدمولانا شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی میرٹھی مدنی رحمۃاللہ علیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قادیانیوں کی مخالفت کی اور ہمیشہ اُن کے آگے آہنی چٹان کی مانند کھڑے رہے ۔

علامہ نورانی 1971میں پہلی بار جمعیت علماءپاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے،15اپریل 1972ءکو قومی اسمبلی کا سہ روزہ افتتاحی اجلاس شروع ہواتوعلامہ نورانی نے اجلاس کے پہلے ہی روز جمعیت علماءپاکستان کے پارلیمانی قائد کی حیثیت سے عبوری آئین کے حوالے سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو اپنا موضوع گفتگو بنایا،یہ پاکستان کی تاریخ میں قومی اسمبلی کے فلور پر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں بلند ہونے والی سب سے پہلی آواز تھی، علامہ شاہ احمد نورانی پاکستان کی پارلیمانی اورآئینی تاریخ میں پہلے سیاستدان تھے، جنہوں نے سب سے پہلے آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ کیا اور آئین سازی کیلئے قائم کمیٹی میں سب سے پہلی ترمیم مسلمان کی تعریف اور اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دینے سے متعلق پیش کی، قومی اسمبلی میں اپنے اوّلین خطاب میں علامہ نورانی نے آئین کے اندر مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا پرزور مطالبہ کیااور کہا کہ ” جو لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے ہم ان کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔“آپ کے اس مطالبے کا مقصد پاکستان کے اس اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر عقیدہ ختم نبوت کے مخالف قادیانیوں اور غیر مسلموں کے فائز ہونے کے امکانات کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ تھا، دراصل علامہ نورانی کا آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ قادیانیوں کو کافر اور غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک کانقطہ آغاز اور 1974ءکی تحریک ختم نبوت کی بنیادی اساس تھا ۔

چنانچہ 17اپریل 1972ءکوجمعیت علماءپاکستان اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مسلمان کی جامع تعریف کو پہلی بار اسمبلی میں پیش کی گئی، جسے بعد میں 1973ءکے آئین میں شامل کرلیا گیا، علامہ نورانی کی کوششوں کی بدولت مسلمان کی تعریف پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکی تھی اور آئین میں اس تعریف کی شمولیت نے قادیانیوں کو ایک ایسی غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا، جس کا مستقبل میں صرف اعلان ہونا ہی باقی رہ گیا تھا، اس تعریف کی شمولیت سے قادیانیوں کو بھی یقین ہو چلا تھا کہ وہ ایک غیر اعلانیہ غیر مسلم اقلیت قرار پاچکے ہیں، مولانا نورانی کو منکرین ختم نبوت قادیانیوں اور قادیانیت سے شدید نفرت تھی اور اسی نفرت نے انہیں زندگی بھرقادیانیت کے خلاف مصروف جہاد رکھا، علامہ نورانی جو کہ نوجوانی میں تحریک ختم نبوت 1953ء میں جیداکابر علماءکے ساتھ”علماءبورڈ کے ممبر اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت سندھ کے جنرل سیکریٹری“کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کرچکے تھے، اس تحریک کی ناکامی کے اسباب و عوامل سے پوری طرح واقف تھے، چنانچہ آپ نے تحفظ ختم نبوت اور عظمت مصطفیٰ کو مملکت کا قانون بنانے اور آئینی تحفظ دینے کیلئے کام کرنا شروع کردیا، اس سفر کی کامیاب ابتداءآئین میں مسلمان کی تعریف کی شمولیت، ریاست کا سرکاری مذہب اسلام، دیگر اسلامی دفعات کو آئینی تحفظ دینے کے علاوہ عائلی قوانین کی تنسیخ، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کیلئے مسلمان ہونے کی شرط ، فتنہ ارتداد کو روکنے کی ضمانت حاصل کرنے اور پاکستان کے دستور کو دو قومی نظریے سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں سے ہوچکی تھی اور آپ اپنے اہداف پر نظر رکھے ہوئے مرحلہ وار اس منزل کی جانب رواں دواں تھے ۔

29اپریل 1973ءکو آزاد کشمیر اسمبلی میں میجر (ریٹائرڈ) محمد ایوب کی متفقہ طور پرمنظور کی جانے والی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد سے بھی علامہ شاہ احمد نورانی اچھی طرح واقف تھے اور محسوس کررہے تھے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد پاکستان کی نیشنل اسمبلی کو بھی منظور کرکے پاکستان کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرنی چاہیے،واضح رہے کہ میجر (ریٹائرڈ) محمد ایوب کی قرار داد کا اصل محرک اور اس کی بنیاد 17اپریل 1972ءکوپاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کردہ مسلمان کی وہ متفقہ تعریف تھی جسے علامہ نورانی اور آپکے رفقاءنے تیار کیا تھا، آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ایک نئی تاریخ ہی رقم نہیں کی بلکہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی کے اراکین کیلئے بھی آئندہ کا لائحہ عمل متعین کردیا تھا، مرزائی آئین میں مسلمان کی تعریف کی شمولیت سے پہلے ہی سخت پریشان تھے کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف قراردادکی منظوری نے اُن کے تمام خدشات کو یقین میں بدل دیااور انہیں محسوس ہونے لگا کہ عنقریب اب پاکستان کی قومی اسمبلی میں موجود علماءاُن کے مستقبل کے بارے میں قرار داد پیش کرکے اُن کیلئے رہے سہے راستے بھی بند کردیں گے، اس صورتحال نے مرزا ناصر کو اس قدر سیخ پا کردیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہذیان بکنے لگا، اتفاق سے اسی دوران سانحہ ربوہ پیش آگیا، جس نے قادیانیوں کے خلاف عوامی نفرت کو مزید گہرا کردیا اور جو تحریک ختم نبوت 1974ءکی اصل بنیاد بنا، علامہ شاہ احمد نورانی جو کہ تمام حالات کا نہایت ہی باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے، نے محسوس کیا کہ اب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کیلئے آئینی اور قانونی جنگ لڑنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے، چنانچہ 30، جون 1974ءکو آپ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے تاریخ ساز قراردادقومی اسمبلی میں پیش کی، جسے نے ایوان بحث کیلئے متفقہ طور پر منظور کرلیا ۔

قومی اسمبلی میں قادیانیت کے خلاف قرار داد پیش کرنے سے لے کر اُس کی منظوری تک علامہ شاہ احمد نورانی  نےنہایت ہی محنت و جانفشانی سے کام کیا، اِس دوران آپ نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کے ساتھ، اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے، انہیں مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت و حیثیت سے روشناس کرانے، رات گئے تک اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے ساتھ قادیانیوں سے پوچھے جانے والے سوالات کی تیاری کے ساتھ، مرزا ناصر اور صدرالدین لاہوری کے محضر نامے کے جواب میں 75سوالات پر مشتمل سوالنامہ کی تیاری میں بھی بھر پور حصہ لیا، آپ نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کے رکن ہونے کے باوجود عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ملک بھر کے طوفانی دوروں میں چالیس ہزار میل کا سفر طے کیا اور ڈیڑھ سو سے زائد شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں عوامی جلسوں سے خطاب کرکے مسلمانوں کو قادیانیوں کے گمراہ کن عقائد، فتنہ پردازیوں اور شرانگیزیوں سے آگاہ کیا، رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمن فرماتے ہیں کہ ”علماءاِس سے پہلے بھی موجود تھے۔۔۔۔۔مگر یہ سعادت ماضی میں کسی کے حصے میں بھی نہیں آئی، تاریخ پاکستان میں پہلی بار ایک مرد حق، پیکر صدق و صفا، کوہ استقامت اور حاصل جرات و شجاعت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اسمبلی میں پہنچے اور فتنہ انکار ختم نبوت یعنی قادیانیت کو کفر و ارتداد قرار دینے کی بابت قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی، تاریخ اسلام میں ریاست و مملکت کی سطح پر فتنہ انکار ختم نبوت کو کفروارتداد قرار دینے اور ان کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوااور ان کے بعد یہ اعزاز انہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا ۔

قادیانی مسئلے پر غور خوض کیلئے قومی اسمبلی کی پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے دو ماہ میں 28اجلاس اور 96نشستیں منعقد کیں،اس دوران قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے روبرو قادیانی گرو کے سرخیل مرزا ناصر، لاہوری گروپ کے امیر صدرالدین اور انجمن اشاعت اسلام لاہور کے عبدالمنان اور مسعود بیگ پر ان کے عقائد و نظریات،ملک دشمنی اور یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ کے حوالے سے جرح ہوئی، علامہ نورانی فرماتے ہیں کہ ” مسلسل گیارہ روز تک مرزا ناصر پر جرح ہوتی رہی، اور سوال اور جوابی سوال کیے جاتے رہے، مرزا کو صفائی پیش کرتے کرتے پسینہ چھوٹ جاتااور آخر تنگ آکر کہہ دیتا کہ بس اب میں تھک گیا ہوں، اسے گمان نہیں تھا کہ اس طرح عدالتی کٹہرے میں بٹھاکر اس پر جرح کی جائے گی۔۔۔۔وہ اپنا عقیدہ خود اراکین اسمبلی کے سامنے بیان کرگیا اور اس بات کا اعلان کرگیا کہ مرزا(غلام احمد قادیانی) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود اور امتی نبی ہے، جن اراکین اسمبلی کو قادیانیوں کے متعلق حقائق معلوم نہیں تھے، انہیں بھی معلوم ہوگیااور انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ مولانا نورانی جنہیں اقلیت قرار دلوانے کی سعی کررہے ہیں وہ لوگ واقعی کافر، مرتداور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

قادیانی مسئلے پر فیصلہ کرنے کیلئے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے قادیانی مسئلہ کو جانچنے اور پرکھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اورطویل جمہوری و پارلیمانی کاروائی کے بعد قومی اسمبلی نے پورے تدبر سے کام لیتے ہوئے 7،ستمبر 1974ءکو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں آئین کی وہ واحد ترمیم منظورکی جس کی مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا، یوں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کے دونوں ایوانوں نے مرزا قادیانی اور اُس کی ذریت کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا،اس طرح علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اور تمام مسالک کے علماءو مشائخ کی مشترکہ کوششوں سے90 سالہ فتنے کے اختتام ہوااورقادیانیوں کے خلاف تحریک اپنے منطقی انجام تک پہنچی۔

حصہ
mm
محمداحمد ترازی کالم نگار اور متعدد تحقیقی کتب کے مصنف ہیں آپ کے مضامین پاکستان کے معروف اخبارات میں شائع ہوتے رہے اور آپ کے کئی تحقیقی آرٹیکل ایچ ای سی سے منظور شدہ کئی تحقیقی مجلات میں شائع ہوچکے . رابطے کےلئے جن کا موبائل نمبر030022372225 جبکہ ایک میل ایڈریس:mahmedtarazi@gmail.com ہے