پاکستان کو اچھے قائد کی ضرورت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو حیوانی قالب میں تو پیدا کیا ہے، مگر ساتھ ہی اسے عقل و فہم اور فکر و شعور کی وہ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں جو اسے تمام حیوانات سے ممتاز کرتی ہیں۔ عقل و شعور کی یہ صلاحیت ہی انسان کا وہ اصلی شرف ہے جو اسے ایک کمزور جسم کے باوجود کرہ ارض کا حاکم بنادیتی ہے۔ یہی شرف ہے جس کی مدد سے انسان نے پتھروں سے تمدن کو پیدا کیا، بحر و بر کو مسخر کیا، بیماریوں کو شکست دی اور ہر دور میں پیدا ہونے والے اپنے مسائل کو حل کیا۔ یہی عقل و فہم ہے جس کی بنیاد پر ہم ماضی سے سبق سیکھتے ہیں، حال کا تجزیہ کرتے ہیں اور مستقبل کا منصوبہ بناتے ہیں۔ یہی فکری رہنمائی ہماری زندگی کی کامیابی کی ضامن ہے۔

ایک فرد کی طرح معاشرہ بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے درست فکری رہنمائی کا طالب ہوتاہے۔ جو لوگ یہ فکری رہنمائی کریں وہ فلسفی، مفکر، حکیم اور دانشور کہلاتے ہیں اور اجتماعی طور پر انہیں فکری قیادت (Intellectual Leadership) کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم فکری قائد تھے۔ انہی کی رہنمائی کو اپنا کر مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی تحریک چلائی اور ہندوستان سے جدا ہوکر اپنی الگ مملکت قائم کی۔

ایک فکری قائد وہ ہوتا ہے جو دیکھتا تو وہی ہے جو سب دیکھتے ہیں، مگر بتاتا وہ ہے جو دوسرے نہیں بتا پا رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایسا اپنے وسیع علم، گہرے مطالعے، کشادہ ذہن، تیز نظر اور بے لاگ تجزیہ کرنے کی خداداد صلاحیت کی بنا پر کرپاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں جہاں اور کئی شعبوں میں زوال آیا وہیں فکری رہنمائی کرنے والی قیادت اور اس کی رہنمائی کی سطح بھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، گرتی چلی جارہی ہے۔

اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ مثلاً علمی جمود، تعصب اور اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی روایت وغیرہ۔  تاہم اس صورتحال کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ اب قوم کی فکری رہنمائی زیادہ تر وہ لوگ کررہے ہیں جو اصل میں صحافی ہیں۔  صحافی بنیادی طور پر رپورٹر ہوتا ہے جس کی اصل دلچسپی حالات حاضرہ اور خبر میں ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ حال میں جیتا اور فوری واقعات کا نوٹس لیتا ہے۔ اس کے تجزیے کا انحصار اپنے مطالعے سے زیادہ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات اورخبروں پر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ ایک دن کا مفکر تو بن سکتا ہے، مگر قوموں کی فکری رہنمائی کے لیے جس گہری نظراور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اکثر ایک صحافی میں ناپید ہوتی ہے۔

ایک مفکر خبروں سے جنم لینے والے حال اور ماضی قریب میں نہیں جیتا بلکہ اس کا موضوع ماضی بعید اور مستقبل ہوتا ہے۔ وہ چیزوں کی معلومات سے زیادہ ان کی حقیقت اور نوعیت کو سمجھنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ زندگی اور معاشرہ کے اصول اورفرد اور اجتماعیت کی نفسیات کو سمجھنا اس کا اصل میدان ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب ایک عام صحافی کے بس کی بات نہیں۔ وہ تو ماضی قریب میں جیتا ہے جبکہ ایک حکیم اور مفکر ماضی بعید کی عطا کردہ حکمت میں جیتا ہے جو اسے مستقبل میں جھانکنے کے قابل بنادیتی ہے۔ یہی ایک صحافی اورمفکر کا بنیادی فرق ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں صحافت کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے صحافی صرف اور صرف سیاست اور سیاستدانوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جبکہ دور جدید میں سیاست اجتماعی زندگی کا ایک ضمنی حصہ بن چکی ہے، مگر ہمارا صحافی اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ چونکہ سیاست کے میدان میں ہماری ناکامیاں غیر معمولی ہیں، اس لیے وہ انھی ناکامیوں اور مایوسیوں کو قوم تک منتقل کرنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ جوکسی قسم کی رہنمائی نہیں بلکہ سلو پوائزننگ (slow poisoning) کی ایک قسم ہے۔ چنانچہ آپ اخبارات کے کالم نویسوں کو پڑھ لیجیے یا ٹی وی کے تبصرہ نگاروں کو سن لیجیے۔ وہ آپ کو قوم کے کانوں میں مایوسی کا زہر انڈیلتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔

ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ لوگ ایک صحافی اور مفکر کا فرق سمجھیں۔ اخبار کا اور اپنا پیٹ بھرنے والے کالم نویسوں اور سیاسی پروگراموں کے تبصرہ نگاروں کی گفتگو سے متاثر ہونے کے بجائے کسی حکیم اور دانشور کو تلاش کریں۔ یہ لوگ کم ہوتے ہیں، لیکن ایک دو اچھے حکیم قوم کا بیڑہ پار لگانے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ خد اکا قانون ہے کہ کسی معاشرے سے ایسے لوگ ختم نہیں ہوتے۔ بات صرف ان سے رہنمائی لینے کی ہے اور یہ ہمارے کرنے کا کام ہے، نہ کہ ان کے کرنے کا۔

اس لیے ہمیں عقل مندی، رحم دلی اور بہادری سے جینا ہے کیونکہ عقل مند شخص کبھی دوغلا نہیں ہوتا، رحم دل شخص کبھی پریشان نہیں ہوتا اور بہادر آدمی کبھی خوفزدہ نہیں ہوتا۔