پاکستان، بھارت میں مہنگائی کا روناکیوں ؟

پاکستان ہو یا بھارت مہنگائی کا رونا دونوں ممالک میں یکساں ہے اور ہوشرباء مہنگائی کا ملبہ دونوں حکومتیں دنیا میں ہونیوالی مہنگائی پر ڈال رہی ہیں لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ مہنگائی صرف غریبوں کیلئے نظر آرہی ہے اور غریب عوام وہاں رورہے ہیں جن ممالک میں سیاستدان امراء کا ساتھ دیکر امیروں کو اور امیر کررہے ہیں۔

اس کی مثال میں بھارت کی چند ایسی کمپنیوں کے حوالےسے بتانا چاہوں گا جن کی آمدن کی شرح نمو ڈیڑھ سو سے 306فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی ان اداروں کے مالکان پر کیوں ظاہر نہیں ہوئی اور انہی کمپنیوں کے غریب مزدور مہنگائی کا رونا کیوں رورہے ہیں۔

اگر ہم بھارت میں 2021میں ترقی کرنیوالی چند کمپنیوں کی نمو پر غور کریں تو گجرات فلورا کیمیکل نے 306 فیصد نمو دکھائی۔کے پی آر ملزنے 289 فیصد، اینجل ون نے 253 فیصد، انڈین انرجی ایکس چینج نے 243فیصد، ٹاٹاآئرن 159فیصد اورلبرٹی فاسفیٹ کی شرح نمو 150فیصدتک رہی۔

ان کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے جیسا کہ ٹاٹا، برلا اور ریلائینس جیسی کمپنیاں ترقی کرتی گئیں لیکن بھارتی عوام اور حکومت مہنگائی کا الزام دنیا پر لگادیتے ہیں۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ جن ممالک میں مہنگائی زیادہ ہوئی ہے وہاں حکومتوں کے بہت اچھے تعلقات بڑے بڑے کاروباری لوگوں سے ہوتے ہیں جو ان سیاستدانوں کی پشت پناہی پر عوام کو لوٹ رہے ہیں اور غریبوں کو روزبروز جینے کے حق سے بھی محروم کررہے ہیں۔

آج دنیا میں انہی ممالک کی وجہ سے امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ جتنے قانون اور پالیسیاں بنتی ہیں وہ ان امیروں کو مزید امیر بنانے کیلئے بنتی ہیں لیکن بتایا یہ جاتا ہے کہ یہ قانون و پالیسیاں مجبوری کے تحت بنائی جارہی ہیں کیونکہ دنیا بھر میں مہنگائی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اگر مہنگائی پوری دنیا میں ہے تو یہ صنعت کار جو 300 فیصد تک منافع کمارہے ہیں ان کی نمو کے اوپر مہنگائی کیوں اثر انداز نہیں  ہوتی۔ جمہوریت کے نام پر جمہوری حکومت ہوتی نہیں ہے کیونکہ جمہوری حکومت کے معنی وہ لوگ حکومت میں آئیں جو عوام کی رہنمائی اور عوام کے مفاد میں کام کریں لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ امراء کے پیسوں پر اقتدار میں آنیوالے لوگ امیروں کیلئے ہی پالیسیاں بناتے ہیں ۔

انہی سیاستدانوں کے ذریعےامیر جو پیسہ لگاتا ہے اسے سود سمیت عوام سے وصول کرتا ہے  اور ایسے ممالک میں معیشت کے مشیران یا تو خود کارخانوں کے مالک ہوتے ہیں یا ان کے عزیز واقارب کے کاروبار ہوتے ہیں ۔ مشیر خزانہ ہو یا بینکوں کے گورنر آسائش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور عوام کے پیسوں سے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔

جب تک حکمران عوامی نمائندوں کے ساتھ عوامی مسائل کے حل کیلئے کام نہیں کرینگے مہنگائی کا دور یونہی چلتا رہے گا۔ آج امیروں نے حکومتوں کو بلیک میل کرکے مہنگائی کو بڑھاوا دیا ہے اور حکومت کو گرانا یا قائم رکھنا بھی انہی امراء کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

انہی امیروں نے مذہبی نمائندوں کو بھی اپنے دام میں الجھا کر اپنے مفادات کے تحفظ پر مجبور کردیا ہے۔ وہ دور گزرچکا جس میں مولانا، پنڈت اور پادری ایک سادہ زندگی گزارتے تھے۔ آج جو بھی برانڈڈ مذہبی لیڈر دیکھ لیں ان کی زندگی نہایت شاہانہ دکھائی دیتی ہے۔ مذہبی رہنماؤں کے پاس جدید ترین گاڑیاں،عالیشان بنگلے، جدید اسلحہ سے لیس گارڈزاور ان کے اہل خانہ زندگی کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن غریب کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔

جب تک پاکستان، بھارت ، بنگلہ دیش، یورپ اور امریکا کے کارپوریٹ سیکٹر انسانی حقوق اور غربت کے خاتمے کیلئے کام نہیں کرینگے تب تک دنیا بھر میں ایسے ہی سیاستدان کامیابی کے ساتھ ممالک پر حکمرانی کرینگے جو غریب کو چھوڑ کر امیروں کو مزید امیر بنائیں گے اور غریبوں کو ہمیشہ نعرے اور اُمیدیں ہی ملیں گی۔

حصہ
mm
ندیم مولوی ملک کے معروف ماہر معیشت ہیں،وہ ایم ایم سیکورٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربھی ہیں،ندیم مولوی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔