سانحہ سیالکوٹ

3،دسمبر 2021،کو جمعہ المبارک کے دن، دوپہر بارہ بجے کے قریب پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک انتہائی  المناک واقعہ پیش آیا۔

 توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے ایک نجی فیکٹری، راجکو، کے غیر ملکی ایکسپورٹ مینجر کو نہ صرف یہ  کہ سفاکانہ انداز میں قتل کیا، بلکہ لاش کو گھسیٹتے ہوئے،لاتوں، ڈنڈوں، کی برسات میں بڑی ہی دردی سے بھڑکتے شعلوں کے حوالے بھی کردیا۔

 جب سے اس درندگی پر مبنی ویڈیو دیکھی ہے عجب بے چینی اور کرب کی سی کیفیت سے دوچار ہوں. ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان قاتلوں نے توہین مذہب کی آڑ میں یہ سب گل کھلائے ہیں!! قاتلوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ایک ویڈیو میں اعتراف کیا ہے کہ ایک پوسٹر پر “یاحسین” لکھا تھا، جس کی بے حرمتی کی گئی، اس کی پاداش میں ہم نے اس شخص کو جہنم واصل کیا ہے۔

کائنات کی عظیم ترین ہستی، پیغمبر امن، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے نواسے جنت کے شہزادے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام کو بہانہ بنا کر یہ خوفناک، شرمناک اور دردناک قتل کیا گیا.ایسے گھٹیا اور غیر انسانی فعل کے لیے ان عظیم ہستیوں کا نام استعمال کرنے سے اور زیادہ تکلیف ہوئی.ایسے جنونی اور پاگل، لوگوں کے اس متشددانہ اور ظالمانہ رویے سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بالعموم اور پاکستانیوں کو بالخصوص خفت و ندامت اٹھانی پڑی ہے.

فیکٹری کا سری لنکن ایکسپورٹ مینیجر توہین مذہب کا مرتکب تھا یا نہیں؟،مینیجر کے ساتھ چند اک ورکرز کی انڈر سٹنڈنگ نہ ہونے کی بنیاد  پر سارا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا یا اس کے پیچھے دیگر کیا عوامل مضمر تھے، جنہیں بعد میں توہین اہل بیت و توہین رسالت کے مقدس لبادے میں اوڑھ دیا گیا؟ ، یہ تو متعلقہ ادارے تحقیق کررہے ہیں، اور وہی بہتر نتائج اور حقائق سے آگاہ کرسکتے ہیں.

البتہ زمینی حقائق اور متشدد ہجوم کے اعترافی بیان سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہجوم نے اسلام کے درج ذیل احکامات اور قرآنی آیات کی دھجیاں اڑائی ہیں….قرآن مجید واقعے کی تحقیق کا حکم دیتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو ، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔(سورۃ الحجرات : آیت  6).

تشدد پسند مشتعل ہجوم ہجوم نے کسی تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی، اور یوں قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی صریح مخالفت کی.قرآن مجید کسی واقعے کی تحقیق کے سلسلے میں ایک عظیم راہ نمائی کرتا ہے اور ایک بنیادی اصول فراہم کرتا ہے. قرآن مجید کے مطابق صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے اہل علم اور ذمہ داران کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے، متعلقہ شعبہ کے ذمہ دوران ہی اصل حقائق تک صحیح رسائی حاصل کرسکتے ہیں.

ہر واقعے کو مشہور کرکے اپنے مفادات سمیٹنا اور خود ہی فیصلے کرنا قرآن مجید  میں  اسے منافقین کا طرز عمل اور شیطان کی پیروی بتایا گیا ہے.

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 اِنھیں (یعنی منافقین کو) جب امن یا خطرے کی کوئی بات پہنچتی ہے تو یہ اسے پھیلا دیتے ہیں، دراں حالیکہ اگر یہ اللہ کے رسول اور ان لوگوں کے سامنے اسے پیش کرتے جو ان میں سے معاملات کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں تو جو لوگ ان میں سے بات کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اس کو سمجھ لیتے۔ (مگر انھوں نے شیطان کی راہ اختیار کی ہے) اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر تم سب شیطان کی پیروی کرتے.(سورۃ النسآء : آیت 83)

جرم ثابت ہونے کے بعد اس کی سزا دینا بھی کسی ہجوم کا کام نہیں، بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے، اس پر بھی تمام اہل علم کا اتفاق ہے.نیز اگر ٹھوس شواہد اور دلائل سے ثابت ہو جائے کہ قاتل نے توہین رسالت کو صرف بطور کارڈ استعمال کیا ہے تو ایسے قاتل کی سزا قتل ہے.

جنونی ہجوم نے اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی، بلکہ یہ کہا ہے کہ آئندہ بھی ہم ایسے ہی کرتے رہیں گے. سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں قاتلین کے گروہ میں سے کچھ لوگ یہ اعتراف کررہے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا نام پوسٹر پر آویزاں تھے، جسے پھاڑ کر کوڑا دان میں پھینک دیا گیا اس پاداش میں ہم نے مقتول کو جہنم واصل کیا ہے!! ؟، کوئی شک نہیں کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اہل بیت عظام کی ہر ہر شخصیت ہماری آنکھوں کا نور، دل کا سرور اور سروں کا تاج ہے، ان سے محبت و عقیدت جزو ایمان ہے اور ان سے بغض کفر ومنافقت ہے.

لیکن کیا چیز توہین کے زمرے میں آتی ہے؟

توہین واقعتاً کی گئی ہے یا نہیں؟

وہ مظلوم مقتول غیر ملکی تھا، غیر مسلم تھا، اسے ان چیزوں کا ادراک بھی تھا یا نہیں؟

جرم کس درجے کا ہے؟

اس کی سزا کیا بنتی ہے؟

یہ فیصلہ کسی جتھے اور جاہل گروہ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے شرعی علم کے ماہرین اور ججز ہی بہتر بتا سکتے ہیں اور انہی کا فرض منصبی ہے.کسی بھی ایسے غیر مسلم کو بلاوجہ قتل کرنا جو مسلم ریاست کا شہری ہو بدترین جرم ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم ریاست کے امان نامے کے ساتھ غداری بھی ہے.ہمارے دین کے مطابق اگر ایک خاکروب، مزدور، غریب مسلمان بھی کسی کافر کو امان نامہ دے دے، تو اس کی پاسداری ہر مسلمان پر ضروری ہو جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  مسلمانوں کے خون برابر ہیں (یعنی قصاص ودیت کے معاملات میں سب مسلمان امیر و غریب ایک جیسے ہیں) ان میں سے ادنیٰ شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہو گی، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے  ( گرچہ اس سے نزدیک والا موجود ہو..(سنن ابوداود، حدیث 2751).

 عہد شکن، ظالم مسلمان قاتل سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ناراض ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

جو کسی ایسے کافر کو قتل کرے گا، جس کے ساتھ معاہدہ امن ہو، اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے، حالانکہ جنت کی مہک چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے.صحیح بخارى ،3166.

افسوس ہے کہ اس پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والے اس بہیمانہ قتل کے ذریعے سستی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس الٹی اور شیطانی سوچ کو آخر کیا نام دیا جائے!!!

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں. مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں.

انسانی لاش کے ساتھ یہ سلوک اور خصوصاً آگ لگانا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ ظالم لوگوں کا ہجوم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین تو کیا عام انسانی قدروں سے بھی عاری تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے۔آگ میں جلانے کی سزا، صرف (آگ کے خالق) اللہ تعالیٰ ہی کو زیبا ہے. صحیح بخاری، 2954.

جلتی لاش کے دامن میں کھڑے ہوکر سیلفیاں بنانا،  اور فاتحانہ انداز کے تماشے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے ایک مکروہ جنونی طبقہ، حیوانیت کی کس سطح پر کھڑا ہے اور انسانیت کا کیسے منہ چڑا رہا ہے!!!

نیز یہ کہ سیلفی اور موبائل کے جنون نے بعض لوگوں کو کس پستی میں مبتلا کردیا ہے! ہمارے ہاں بعض دین بیزار لوگ اس واقعے کی آڑمیں تمام اہل دین کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں مظلوم کی ہمدردی کم اور اہل دین سے بغض کا بخار زیادہ چڑھا ہوا ہے، یہ ایک غیر جانبدارانہ،متعصبانہ اور یک رخی سطحی اپروچ ہے.

در حقیقت اس طرح کے دلدوز واقعات کثیر الجہات، ہوتے ہیں، ان کے محرکات اور عوامل بھی مختلف ہوتے ہیں، انہی کسی ایک مذہب سے جوڑنا نا انصافی ہے، ہندوستان میں گائے کے ذبح کرنے پر مسلمانوں کاقتل عام، یورپ میں مسلمانو‍ں پر عین عبادت کی حالت میں حملے،سر راہ ایک جنونی کا مسلمان پر ٹرک چڑھا دینا،  ہمارے  اسی ملک عزیز میں لاہور میں ایک حافظ قرآن کو نذر آتش کیا جانا ، اسی سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں دو بھائیوں کی لاشوں پر ایک ہجوم کا تشدد، سیکولر اور لبرل دین بیزار لوگ ان واقعات کی کیا توجیہ کریں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ مسخ شدہ انسانی فطرت، نامناسب حالات، غلط تربیت، مجرمانہ ماحول،ممعاشی ستم، مذہب کا جاہلانہ تصور، حکومت اور عدلیہ پرعدم اعتماد، شیطان کی اکساہٹ، مذہب کے روپ میں متشدد گروہوں کی پشت پناہی، ملک دشمن عناصر کی ہلہ شیری، اور دیگر متعدد معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی عوامل و محرکات مجموعی طور ایسے سانحے جنم دیتے ہیں،

ان کا تدارک ایک دوسرے کو مطعون کرنے سے نہیں، بلکہ انفرادی اجتماعی منظم جد وجہد، درست اسلامی تربیت، کڑے احتساب،  شرعی سزاؤں کے حقیقی نفاذ اور بے لاگ عادلانہ نظام ہی سے ممکن ہے.