معصوم آوارہ کتوں کا دیس اور وحشی بچے

میں چائے کی میز پر بیٹھا موبائل کی اسکرین پر اسکرول کررہا تھا کہ اچانک ایک وڈیو نظروں کے سامنے سے گزری اور میں لمحے بھر کے لیے دم ساکن ہوگیا۔ وڈیو میں دیکھا کہ ایک 7سالہ بچی سنسان گلی سے گزررہی تھی کہ درجن بھر کے قریب آوارہ کتوں نے ایک دم حملہ کردیا اور اُس بچی کو بھنبھوڑ کر نوچ کھایا۔

میں نے جب سے یہ ویڈیو دیکھی ہے اس وقت سے اسی شش و پنج میں ہوں کہ کچھ لکھوں یا اندر ہی اندر کڑھتا رہوں؟

اس دیس کی زینبوں کے لئے دو ٹانگوں والے کتے ہی کیا کم تھے کہ اب ان گلیوں میں چار ٹانگوں والے ‘معصوم’ اسٹرے ڈاگز’ بھی ان کے لیے وبال جان بن گئے ہیں۔مگر ‘معصوم آوارہ کتے’ اور وہ بھی قصور وار؟ نا بابا نا، آپ تو ایسا سوچیئے گا بھی مت۔

بقول میرے وطن کی چند خوش پیراہن خواتین، یہ “اسٹریٹ ڈاگز” تو انتہائی معصوم جانور ہیں، وہ تو انسانوں کے بدتہزیب و خونخوار بچے ہی انہیں اتنا تنگ کرتے ہیں، ایسی سنگ باری کرتے ہیں کہ “بیچارے ڈاگز” سیلف ڈیفنس میں انہیں کاٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اب اس سرخ لباس میں ملبوس بچی کو ہی لیجیے، اس کا کیا کام تھا کہ یہ ان “معصوم” آوارہ کتوں کی راجدھانی میں اس طرح دندناتی پھرے؟بھلے سے اس نے ان کو نہیں چھیڑا تو کیا ہوا، اس کے بھائی بند تو اکثر ان کو پتھر مارتے ہی ہونگے، اب اگر آج ان بیچارے آوارہ کتوں نے اپنا حساب برابر کر بھی دیا تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑی، ہیں جی؟

لیکن اس صورتحال سے گزرنے والی یہ زینب اکیلی نہیں اور بقول وفاقی وزارت صحت حکام، پاکستان میں ان “معصوم آوارہ کتوں” کی تعداد صرف ڈیڑھ کروڑ ہے، جن میں سے پچیس لاکھ تو صرف صوبہ سندھ کے باسی ہیں۔

میرے وطن کے یہ “انوسینٹ اسٹرے ڈاگز” ہر سال تقریباً دس لاکھ افراد کو ‘بحالت مجبوری’ کاٹ لیتے ہیں جن میں سے 80 فیصد تو صرف یہ “وحشی” بچے ہوتے ہیں جن کے سر اور چہرے ہی ان بیچارے کتوں کی زد پر آتے ہیں۔

یہاں میرا وجدان کہتا ہے کہ اصل کہانی ان دس لاکھ بد نصیبوں کے زخموں اور تکلیفوں سے ہی جڑی ہوئی ہے۔

بھلا وہ کیسے؟وہ اس لیے کہ ان دس لاکھ سگ گزیدگی کے شکاروں کو اینٹی ریبیز ویکسین کی کم از کم چار ڈوزز اور اس کے ساتھ ساتھ امیون گلوبلن لگنا بہت ضروری ہے تاکہ انہیں ریبیز کی تکلیف دہ موت سے بچایا جا سکے۔

برسبیل تذکرہ پاکستان میں کم از کم پانچ ہزار افراد ریبیز کا شکار ہو کر انتہائی اذیت ناک موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔فرض کر لیجئے کہ سگ گزیدگی کے شکار ایک شخص کی ویکسینیشن پر اوسطاً دو ہزار روپے خرچہ آتا ہے تو میرے حساب کتاب کے مطابق یہ رقم دو ارب روپے بنتی ہے۔

جی ہاں دو ارب روپے کی اینٹی ریبیز ویکسین ان دس لاکھ ستم رسیدہ اور سگ گزیدہ افراد کے لیے ہر سال منگوائی جاتی ہے اور وہ بھی ہمارے پرامن ترین ہمسائے ہندوستان سے جہاں کے ادارے بھارت بائیوٹیک اور سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے کرتا دھرتا ہمارے معصوم اسٹریٹ ڈاگز صحت و زندگی کے لیے اسپیشل پوجا پاٹ کا اہتمام تو یقیناً کرتے ہونگے۔

اور بات صرف ان دو ارب روپوں پر ہی ختم نہیں ہوتی جناب۔ میرے ملک کے چند عالی دماغوں نے اربوں روپے کے کچھ نئے منصوبے بھی شروع کیے ہیں، جن کے مطابق ان معصوم اسٹریٹ ڈاگز کو نا صرف ویکسینیٹ کیا جائے گا بلکہ ان کی آبادی کو “کم اور ختم” کرنے کے لئے لیے انہیں نیوٹر (خصی) بھی کیا جائے گا۔

اب اس بات کی گارنٹی کون دے سکتا ہے کہ جس ملک میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی پولیو ختم نہ ہو سکا ہو، جہاں انسانی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتی ہو، وہاں کتوں کی ویکسینیشن کیسے ممکن ہوپائے گی اور افزائش نسل کو روکنا کیسے ممکن ہوگا۔

لیکن یہ علم و حکمت کی باتیں میرے اور آپکی ناقص عقلوں میں آنے کی نہیں تو صرف اس خبر پر گزارا کیجئے کہ آج لاڑکانہ میں آوارہ کتوں نے 22 مزید بچوں کو کاٹ کھایا جن میں سے چند کی حالت نازک ہے۔