قرآن کو تھام کر ہی حالات تبدیل کیے جاسکتے ہیں

  کسی دور دراز گاؤں میں  ایک بوڑھی عورت رہتی تھی اس کا بیٹا کہیں ملک سے  باہر گیا ہوا تھاوہ بوڑھی عورت روز اپنے بیٹے کے خط کا انتظار کرتی تھی اور جب بھی اس کا خط آتا تھا اور اس کو چومتی تھی اور آنکھوں سے لگاتی تھی اور بہت ہی حفاظت کے ساتھ  رکھ دیتی تھی-اسی طرح کئی سال گزر گئے گئے اور وہ عورت بہت کسمپرسی کی حالت میں  زندگی گزارتی رہی  یہاں تک کہ ایک دن خدا نے اس کو اپنے پاس بلا لیا ۔

کسی نے اس کے گھر میں سے وہ خط اٹھائے تو دیکھا وہ کھلے ہوئے نہیں تھے  تو اس نے ان لفافوں کو کھول کر دیکھا  تو  اس میں اس کے بیٹے کے بھیجے ہوئے  چیکس رکھے ہوئے تھے جس عورت نے  ساری زندگی  کسمپرسی کی حالت میں گزار دی اس کے گھر میں سے اس کے مرنے کے بعد بعد لاکھوں روپے نکلے  جو  اب اس کے کسی کام کے نہیں تھے۔

یہی حال بالکل ہمارا بھی ہے  ہمارے پاس دونوں جہاں کی دولت ( قرآن) موجود ہے مگر ہم اس کی طرف توجہ نہیں دیتے  اس کو بہت سنبھال کر  رکھتے ہیں روز آنکھوں سے لگاتے ہیں بہت پیار سے ،سب سے اچھی اونچی جگہ پر  رکھتے ہیں   کچھ لوگ اس(  قرآن) کو روزپڑھتے ہیں  اس کے پڑھنے  کو  ثواب و برکت کا باعث سمجھتے ہیں۔  کچھ لوگ اسکی آیات کو گلے  اور بازو میں تعویذ بنا  کر پہننے کو حفاظت کا ذریعہ سمجھتے ہیں  اور کچھ لوگوں کو قرآن صرف اسوقت یاد آتا ہے جب وہ اپنی بیٹی کی ر خصتی کر رہے ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کو قرآن کے سائے میں رخصت کر سکیں۔   کاش کہ وہ قرآن کو اپنی بیٹی کے دل ودماغ میں اس طرح اتار دیتے کہ قرآن ان کی بیٹی کے  ساتھ سائے کی طرح رہتااور کچھ لوگ اپنے بچوں کو حافظ قرآن بناکر یہ سوچتے ہیں کہ حافظ قرآن کی تو سات نسلیں بخشی جاتی ہیں  اور والدین تو لازمی جنتی ہوجائیں  گے جنہوں نے اپنی اولاد کو حافظ بنا دیا۔

روز قرآن کا پڑھنا بے شک باعث خیر وبرکت ہے  اور قرآن کاحفظ کرنا بہت ہی بڑی  سعادت کی بات ہے اس سے کوئی مومن  کبھی انکار نہیں کر سکتا  مگر کیا کبھی آپ نے سوچا کہ جس جلیل القدر ہستی  نے  یہ قرآن  اپنے محبوب پیغمبر پہ نازل فرمایا !   کیا اسکا  صرف یہ ہی مقصد تھا کہ لوگ  اس کو پڑھ کر برکت و ثواب حاصل کریں  یااس کو زبانی یاد کر لیں۔ یہ کام تو انتہائی آسان تھا اس جلیل القدر ہستی کے لئے کہ وہ تمام انسانوں کے دل و دماغ  میں قرآن کوایسے ڈال دیتی کہ وہ کبھی بھول نہ پاتے۔ نبی کریمﷺ  پر23 سال کی مدت میں قرآن نازل کرنے کاکیا مقصد تھا  خود پیارے رسول ﷺنے عمل کر کے دکھایا۔  آپﷺ     کے اصحاب  رضی اللہ تعا لی عنہ  نے  آپﷺ   کے اسوہ  پر عمل کیا اور قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا۔ نہ  صرف اپنے سینوں میں محفوظ کیا بلکہ قرآن کو  اپنی زندگی میں اس طرح شامل کیا کہ ان کاہر عمل مکمل طور پر  قرآن اور سنت نبوی  کی تصویر نظر آتا تھا۔ کوئی بھی ان صحابہ کرام کو دیکھ کر جان جاتا تھا یہ مومن لوگ ہیں۔ یہہی قرآن کو ماننے والے نبی کریم ﷺ    سے محبت کرنے والے ہیں  یہ ہی لوگ ہیں جواپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ نیک عمل کرنے والے اور جو رزق اللہ نے ان کو دیاہےاس میں سے خود بھی خرچ کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کو بھی دیتے ہیں کیو نکہ وہ سمجھتے ہیں یہ ہی کامیابی اور فلاح کا اصل راستہ ہے۔

مگر ہم نے بھی بنی اسرائیل کی قوم طرح اپنے لئے آسان اور سہل راستہ چن لیا یعنی  عامل بے عمل کا راستہ  حالانکہ ہم سب جانتے ہیں قرآن محض ثواب وبرکت   اور حفظ کے  لئے نہیں نازل کیا گیا تھا یہ تووہ انعام  تھے جو اللہ نے اپنے عظیم مقصد کے ساتھ ہمیں  تحفہ  کے طور پر دئیے تھے مگر ہم اتنے نادان  کہ  ہم نے  صرف انعام پر نظر رکھی  اور اصل مقصد  سے  نظر چرا  کر زندگی  گزارتے رہے ہیں  اور اللہ سے شکوہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ اللہ ہم توآپ کے فرماں بردار بندےہیں نماز اور قرآن بڑی پابندی سے پڑھتے ہیں پھر کیو ں ہماری مشکلات اور پریشانیاں کم نہیں ہوتی ایک ختم ہوتی ہے تو دوسری آجاتی ہے۔

کبھی غور کریں کہ جب ہم اپنی اولاد کو  کوئی بات سمجھاتے ہیں کسی کام کو کرنے سے روکتے ہیں کسی غلط  بات پر تنبیہہ  کرتے ہیں  تو اس امید پر کہ ہماری اولاد  ہماری محبت کو سمجھتی ہے  اور وہ ہماری بات کو سمجھے گی اور ہماری تربیت  پر من و عن عمل کرے  گی لیکن جب ایسا نہیں ہوتا اور اولاد ہماری نظر بچا کر اپنی مرضی کرتی ہے۔ جان بوجھ کر غلط کاموں ، فضول تفریح  اور ہماری مرضی کے خلاف عمل کرتی  ہے تو  ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے، کتنا غصہ آتاہے حالانکہ یہ وہی  اولاد ہوتی ہے  جس کے لئے ہم  سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے    تو ذرا   سوچیں  جس اللہ نےہمیں نہ صرف پیدا  کیا بلکہ ہمیں تخلیق بھی کیا وہ  جو ہمیں ستر ماؤں سے ذیادہ   محبت کرتا ہے  اسکو یہ دیکھ کر کیسا لگتا ہوگا  کہ جب اس کے تخلیق کئے ہوئے انسان اس کی نافرمانی کرتے ہوں۔ اس کے بھیجے ہوئے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بجائے۔ اس کے پیغام  کو پڑھتے ہیں ،یاد کرتے ہیں،  اپنے آپ پر دم کرتے ہیں، پانی پر دم کرکے ایک دوسرے کو پلاتے ہیں مگر اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش تک نہیں  کرتے۔

 توکیا ہم اپنے مالک اور خالق کوناراض نہیں  کرتے، تو کیا ہم اس کے غضب کو آواز نہیں دیتے ،   تو کیا ہم اس کو سزا دینے پر اور  کیاہم خود اپنی مشکلات کے بڑھنے کا  سبب نہیں بنتے۔

اس کے بر عکس دنیا  میں جس قدر لوگوں نے اللہ کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے اللہ نے نہ صرف ان کی ہر طرح سے مدد کی ہے بلکہ دنیا و آخرت میں سرخروئی عطا کی ہے اب  وہ 1400 سوسال پہلے کے اصحاب صفہ ہوں یا 1400سوسال  بعد کے مولا نا مودودی رحمت اللہ علیہ۔

اصحاب صفہ  نبی کریمﷺ   کے زمانے کےوہ لوگ  تھے جو اپنا  گھر بار کوچھوڑ کر اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ مل کر قرآن   اوردین کو سمجھنے لئے ایک چبوترے پر جمع ہوگئے تاکہ دنیا کے کام ان کے   دین کے کاموں  پر حاوی نہ ہو سکے۔ اور اللہ نے ان پر ایسا کرم کیا کہ ان کے بارے قرآن کریم کی آیت نازل فرما ئی کہ  اللہ کی طرف سے تمھاری مدد  کے حقدار وہ لوگ ہیں جو دین کے کاموں اس قدرمحو ہیں کہ ان کو دنیاکی ضروریات پوری کرنے کاٹائم ہی نہیں ملتا۔

جناب مولا نا مودودی رحمت اللہ علیہ   کہ جب انہوں نے نہ صرف دین کو سمجھا بلکہ اللہ کا،پیغام (قرآن)  لوگوں تک آسان زبان میں  پہنچانے عزم کیا اور قرآن کی تفسیر  لکھی تو اللہ نے ان کو وہ  اطمینان اور سکون عطا کیا جو صرف  اللہ کی ذات ہی عطاکرسکتی ہے – اس بات کو ہم اس واقعہ سے سمجھ سکتے ہیں کہ جب مولانا صاحب کو کسی جھوٹے مقدمے میں پھنساکر جیل میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ ان کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ سزا پر عملدرآمد سے کچھ دن پہلے مولاناصاحب کے ایک دوست جیل پہنچے اور مولاناصاحب سے انکا  حال پوچھا تو مولانا صاحب  بڑی بشاشت سے مسکرائے اور کہا اللہ کا شکر ہے۔ مولاناصاحب سے کہا آپ کے پاس اپیل کا حق موجود ہے آپ اپیل کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے  آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا  میری اپیل سب سے بڑی عدالت میں ہے۔

 پھر ان کے دوست نےپوچھامولاناصاحب  آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے  تو جواب آیا کہ نہیں کسی خاص چیز کی ضرورت تو نہیں اگر آپ دوبارہ آئیں تو خلال کرنے کے لیئے  استعمال  ہونے والی لکڑی کی تیلیاں لے آیئے گا۔ اللہ اکبر! یہ اطمینان  اورسکون  صرف اور اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والے ہی حاصل کر سکتے ہیں  اس بھروسہ کا  رزلٹ اگلے    دودنوں میں آگیا کہ ملکی قوانین میں  وہ ردوبدل ہوا کہ مولانا صاحب کی سزا ہی معطل ہوگئی اور آپ باعزت بری ہوگئے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اپنی راہ پر قدم بڑھانے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا    اس راہ میں مشکلات ضرور آتی ہیں مگر اللہ ہمیشہ اپنے مخلص بندوں کے ساتھ ہوتا ہے اور انکو اطمینان و سکون کی وہ دولت عطا کرتا ہے  جواردگرد لگنے والی بدی کی آگ میں  بھی  پھول کھلا کر انکی خوشبو سے انکے دل ودماغ کو معطر رکھتی ہے- بظاہر لوگوں کو ان کے  آس پاس کتنی ہی مشکلات اور پریشانیاں کیوں نہ نظر آئیں وہ   اپنی سکون کی دولت کے ساتھ خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔

ہمارے ہاں  بنی اسرائیل کی قوم کی طرح ایک گروپ ایسا بھی ہے جو صرف اپنے مطلب    کی باتوں کے لئے قرآن وسنت کا پرچار کرتا ہے  یعنی !

 مردوں  کوتو اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے اور وہ یہ بات کہتے ہوئے وہ اس سزا کا ذکر  کرنا   ضروری نہیں  سمجھتے کہ اللہ نے چار شادیوں  کی اجازت کیوں دی ہے اس میں اللہ کی کون کون سی مصلحت پوشیدہ ہے اور اپنی بیویوں  کے درمیان انصاف نہ  کرنے  والے والے کو اللہ کیطرف سے یہ وعید دی گئی ہے کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھایا جائیگا کہ آدھا جسم مفلوج ہوگا۔

بہو پر یہ فرض نہیں کہ وہ اپنے ساس سسر  کی خدمت کرے   یہ بات آج تقریباً ہر بہو  کو پتہ ہے مگر ان کو یہ بات پتہ نہیں  کہ اللہ نے اولاد پر والدین کی فرمابرداری  اس  طرح  فرض کی ہے کہ بوڑھے والدین سے اولاد  کا  اونچی آواز میں بات کرنا بھی گناہ کبیرہ میں  شمار ہوتاہے جس شوہر پہ وہ  مکمل قبضہ چاہتی ہیں   اسی شوہر  کو والدین  کی  جوزمہ داری  اللہ نے  دی ہے اور شوہر کی تمام زمہ داریاں  بیوی ہونے کے ناطہ آپ کی بھی  ہیں۔کیا کوئی بیوی یہ چاہے گی کہ اس کا شوہر جہنم کی اس آگ میں جلے جو اس کو والدین کی دیکھ بھال نہ کرنے کے نتیجہ میں ملے گی۔

ہر مسلمان لڑکی کوپتہ ہے کہ شادی کے لئے اللہ نے لڑکی کی رضا مندی لازمی قرار دی ہے  اس لئے وہ اپنی پسند  کی شادی کے لئے آزاد ہے  لیکن وہ یہ نہیں جانناچا ہتی کہ  یہ آزادی  اسلام نےصرف  اتنی دی ہے کہ والدین اپنی بیٹی کو اس کے ہونے والے شوہر کے بارے میں تمام تر معلو مات دینے اور اس شخص کو  جس سے وہ اپنی  بیٹی کی شادی کرنے جارہے ہیں ایک نظر دکھانے کے پابند ہیں۔ اللہ نے کہیں بھی  یہ  آزادی  لڑکی کو نہیں دی کہ وہ اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ اکیلے گھومے پھرے ،ہوٹلنگ کرے یا والدین سے چھپ کر کسی سے بھی شادی کے وعدے   کرے اور والدین کویہ بتائے کہ یہ حق تو اسے اللہ نے  دیا ہے اور وہ شادی کہ سلسلے میں  اپنایہ حق استعمال کر سکتی ہے۔

ہر لڑکے کو یہ بات ازبر ہے کہ اگر بیوی مطالبہ کرے تو شوہر پہ فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی  کو الگ گھر لےکر دے   اور اس طرح وہ اپنے والدین کی ساری زمہ داریوں سے  دور ہو جاتا ہے۔مگر وہ یہ بات   سمجھنے  کوشش نہیں کرتا کہ حج جیسی فضیلت والی فرض عبادت بھی اللہ نے  صرف اور صرف استطاعت رکھنے والےمسلمانوں  پر فرض کی ہے اگر کوئی مسلمان استطاعت نہیں رکھتا تو اس پر حج فرض ہی نہیں ہو گا بلکل اسی طرح اگر وہ اپنا الگ گھر لینے کے بعد معاشی طور پر  اپنے  والدین کی کفالت کرنے پر قادر  نہیں ہیں تو  بیوی کو الگ گھر لے کر نہ دینے کا گناہ  اس پر نہیں ہوگا  اور نہ  ہی اس معما ملے  میں وہ  اللہ کے گناہگا ر   ہونگے- کیونکہ  اس کا پہلا اور لازمی فرض والدین کی خدمت اور کفالت ہے

ہر شوہر یہ بات یاد رکھتا ہے کہ اللہ نے اس کو عورت پر ایک درجہ بلند عطا کیا ہے مگر وہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ اللہ نے مرد کو عورت  پر یہ ترجیح کیوں  عطا  کی ہے۔ اللہ نے اس کویہ فوقیت  عورت کا کفیل ہونے کی وجہ سے  دی ہے  لیکن جب وہ اپنی بیوی کو  ایک گاڑی کے دو پہیوں کی کہانی سناکر اس کو معاشی جدوجہد کے لئے گھر سے باہر نکال دیتا ہے تووہ اللہ کی دی ہوئی برتری سے  نیچے اتر آتا ہے۔

اسی طرح کچھ عورتوں کو یہ بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ اللہ نے شوہر پہ بیوی کا یہ حق رکھا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی  تمام تر ضروریات پوری کرنے کازمہ دارہے مگر وہ اس جملے سے ضروریات کے ساتھ بنیادی لگا نا بھو ل جاتی ہیں  یعنی اللہ نے شوہر کو بیوی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کاپا بند کیا ہے ان کے بے جاشوق، فضول شاپنگ، خاندان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں۔سب سے آگے نکلنے کی خواہشیں پورا کرنے کا پابند نہیں کیا  جس کی وجہ سے  بعض اوقات خواتین خود گھر سے نکلتی ہیں اور گھر و بچوں کو نظراندا ز کرنے کی وجہ سے اپنے گھر کا ماحول    یا کبھی کبھی   اپنا گھر بھی  خود   خرا ب  کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

یہی وہ جوہات ہیں کہ ہم دین کا صرف آدھا علم حاصل کرنے کے بعد  مسائل میں الجھے رہتے ہیں  اور یہ بنی اسرائیل کا،وہ رویہ ہے جو ہم مسلمانوں نے اپنایا ہوا ہے۔  تاریخ گواہ ہے کہ اپنی انہیں حرکتوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوئے اور اللہ نے ان سے نبوت اور بلند مرتبت  لیکر دنیا اور آخرت میں ان کو دھتکارے ہوئے لوگوں میں شامل کر دیا۔

آج ہم بھی وہی گناہ کر رہے ہیں  – اللہ کا پیغام من وعن سمجھنے کے بجائے  اس کو اپنے مفاد اور اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں خدا کے لئے اب بھی وقت ہے اپنی روش سے باز آجائیں اور اللہ کے پیغام کو سمجھیں اس کو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی میں  نافذ کریں۔

 اپنے بچوں کو قرآن کی سمجھ دیں چاہے وہ چند ضروری آیات ہوں یا مکمل قرآن  کی سمجھ ہواس کواپنی زندگی کا مقصد بنا لیں پھر دیکھیں اللہ کیسے آپ کی زندگیوں میں خیر نازل کرتا ہے -کیسے آپ کو سکون کی دولت سے نوازتا ہے۔ کیسے آپ کے بگڑے ہوئے کام بناتا ہے – کیسے آپ کے بچوں ،شوہروں  ،بیویوں ،والدین اور بہن بھائیوں کو راہ ہدایت دکھاتا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاکرتا ہے

اللہ ہم سب کو قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔آمین یارب العالمین