باکمال ادارے، لاجواب قانون

بلدیہ ٹائون میں گزشتہ دس سال سے ایک ہائیڈرنٹ چل رہا تھا جو ماہانہ واٹربورڈ کو بل بھی ادا کررہا تھا اور یہ ہائیڈرنٹ واٹر کمیشن کی ہدایت پر شروع ہوا تھا، جس کا مقصد ان علاقوں میں پانی فراہم کرناتھا جہاں لائنیں موجود نہیں تھیں۔ لیکن یہ ہائیڈرنٹ تقریبا پورے بلدیہ ٹائون کو پانی فراہم کرنے کا واحد ذریعہ بنا ہواتھا، یہاں سے ٹینکر کی فراہمی 1500روپے میں کی جارہی تھی، جس میں سے 1000روپے واٹر چارجز اور500روپے فیول کی مد میں لیے جاتے تھے، عرصہ دراز سے چلنے والا ہائیڈرنٹ تقریبا دوماہ قبل یہ کہہ کر بند کردیا کہ یہ غیر قانونی ہے اوریہ واٹر بورڈ کے زیرنگرانی نہیں ، جب کہ جس جگہ یہ قائم کیاگیا ہے وہ زمین بھی قبضے کی ہے۔ اس سلسلے میں ترجمان واٹر بورڈ کا کہناتھا کہ یہ ہائیڈرنٹ واٹربورڈ نہیں بلکہ کوئی چلا رہا تھاجس پر ایکشن لیاگیا، لیکن دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ اس ہائیڈرنٹ پر واٹر بورڈ کا عملہ متعین تھا جو پرچی مین کی صور ت میں کام کررہاتھااور اس کی تعیناتی واٹرکمیشن کے ذریعے کی گئی، یہ ہائیڈرنٹ سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کیاگیا ، تمام معاملے کا پس منظر یہ رہا کہ یہاں واٹر بورڈ نے ڈھیروں پیسہ کمایااور بعد میں ایک سماجی تنظیم کی آڑ لے کر اسے اچانک یہ کہہ کر زبانی احکامات کے ذریعے یہ کہہ کر بند کردیاگیا کہ یہ غیرقانونی تھا۔تاہم آج دو ماہ بعد اسی ہائیڈرنٹ کو واٹر بورڈ نے دوبار ہ فنکشنل کردیا ہے۔

 واٹر بورڈ تو اپنی نااہلی چھپانے کیلیے ایک سائیڈ پر ہوگیالیکن یہاں کئی سوال چھوڑ گیا، اگر یہ ہائیڈرنٹ غیرقانونی تھا تو پھر یہاں واٹر بورڈ کا عملہ کیوں متعین کیاگیا، یہاں سے ماہانہ لاکھوں روپے کا بل واٹر بورڈ کیوں لے رہاتھا، یہاں ہفتے میں دومرتبہ پانی کیوں سپلائی کیاجارہاتھا، واٹر کمیشن کے احکامات کیوں ہوا میں اڑائے گئے،ہائی کورٹ کا آرڈر کیوں نہیں ماناگیا۔اور اگریہ سب باتیں فرضی تصور کرلی جائیں کہ یہ نا تو ہائی کورٹ کے آرڈرپر چل رہاتھا اور نہ ہی واٹرکمیشن کی اس پرکوئی نگرانی قائم تھی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہاں سے کمایاجانے والا پیسہ کہاں گیا؟ اور اگر واقعی یہ غیرقانونی تھا تو پھر اس پر پہلے ایکشن کیوں نہیں لیاگیا؟ یہاں سے کون کون پیسے وصول کرتا رہا اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیاگیا؟ اور وہ بل جو باقاعدگی سے ماہانہ بنیاد پر واٹربورڈ کو دیے جاتے تھے وہ کس کے اکائونٹ میں جارہے تھے؟ یہ زمین کس کی تھی ؟۔ان تمام سوالوں کے جواب واٹر بورڈ کے پاس نہیں۔اب دوبارہ اسے فنکشنل کردیاگیا ہے تو اب یہ قانونی کیسے ہوگیا؟ کہیں یہ کسی ڈیل کا نتیجہ تو نہیں ؟اگر ایسا کچھ نہیں تو واٹر بورڈ اس پر اپنا موقف ضرور دے گا۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پہلے غیرقانونی کام شروع کیاجاتا ہے اور جب اس کام میں عوام اپنی جمع پونجی لگادیتے ہیں تو پھر اداروں کو یاد آتا ہے یہ تو غیرقانونی ہے ،لہذا اسے بند کردیاجائے ،اوریہ اس وقت ہوتا ہے جب عدالت کی جانب سے کوئی احکامات آتے ہیں ورنہ ادارے ستو پی کر سوئے رہتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل تجاوزات کے خلاف مہم بڑے زو ر وشور سے صرف ان علاقوں میں جاری ہے جہاں انتہا کی غربت ہے ، ان غریبوں کی زندگی بھر کی کمائی کو انسداد تجاوزات کا محکمہ اس طرح بلڈوز کررہا ہے جیسے وہ کبھی اس میں حصے دار تھے ہی نہیں۔ ہمارے قانون کا بھی اس پر کوئی جواب نہیں ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس جگہ کوئی غیرقانونی عمارت بنی وہاں کی انتظامیہ کے خلاف سخت ایکشن لیاجاتا، ان کی نوکریاں ختم کی جاتیں اور ادارے کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ ان کے بینک بیلنس ضبط کرکے پورا کیاجاتا اور اس کے بعد وہ عمارت گرائی جاتیں،ساتھ ہی ان بلڈرزکو بھی قانون کے مطابق سزا دی جاتی اور عوام کی جمع پونجی انہیں واپس دلانے کا بہتر بندوبست کیاجاتا مگر یہاں توالٹی گنگا بہتی ہے۔

وطن عزیز میں سڑک کنارے ٹھیلہ لگانا، بغیر ہیلمٹ کے بائیک چلانا،کہیں بھی بائیک پارک کرنا، گٹکاکھانا، سرکاری ملازم سے جائز بات پر الجھنا، سرکاری اادارے میں سرکاری ملازم کی ہدایت پر عمل نہ کرنا تو ایک بہت بڑا جرم تصور کیاجاتا ہے مگر دوسری طرف قبرستان کی زمین پر پلاٹنگ کرنا، غیرقانونی عمارتیں تعمیر کرنا، پارک ،ڈسپنسری ،اسکول اورگرائونڈپر قبضہ کرنا غیرقانونی نہیں ہے۔ یہاں سے اداروں کو ایک بھاری رقوم جاتیں ہیں جس سے سب کے پیٹ آرام سے بھرتے رہتے ہیں ، ہمارا قانون بھی اس معاملے میں کچھ نہیں کرتا، اگر کوئی بھولا بھٹکا عدالت تک چلا بھی جائے توقانونی پیچیدگیوں کے سامنے وہ گھٹنے ٹیک کر کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرتا ہے او رآئندہ ان معاملات سے دو ر رہنے میں ہی اپنی عافیت جانتاہے۔

بلدیہ ٹائو ن میں سرکاری ڈسپنسریاں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں ، جن کی چھتوں سے لوہا تک نکال دیاگیا ہے ، وہاںمنشیاف فروشوں نے اپنے اپنے اڈے بنالیے ہیں ، مگر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ ان ڈسپنسریوں کے نام پرآج بھی بجٹ نکل رہا ہے ، وہاں کے اسٹاف کی تنخواہیں باقاعدگی سے جا رہی ہیں ، اسی طرح سرکاری گرائونڈ پر مکانات بنادیے گئے ہیں ، لیکن ادارے اس پر بھی خاموش ہیں کیوں کہ انہیں الاٹمنٹ تک فراہم کردی ہے ، ہاں اگر کبھی قانون جاگا تو پھر شاید یہاں بھی بلڈوزر چل جائے مگر اس میں قصور وار صرف عوام ہوں گے جنہوںنے اپنی جمع پونجی ان مکانوں پر لگائی اورزمین کے پیپرز حاصل کیے ، لیکن بعد میں قانون نہ ان کے پیپرزکو تسلیم کرے گا اور نہ ہی کوئی ادارہ ان کی داد رسی کو آگے آئے گا۔ جنہوںنے کاغذات بنا کر دیے وہ عیش میں رہیں گے ، پہلے سرکاری زمین بیچ کر پیسہ کمایا، پھر اسی زمین کوحاصل کرنے کے لیے پیسہ لیاجائے گا۔

کراچی میں ہر کام ناجائز طریقے سے کرکے اسے قانونی شکل دینے کا رواج قائم ہوچکا ہے اور اس میں اداروں کا بھرپور کردار ہوتا ہے اس کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی پارکنگ مافیا بھی شامل ہے جو آپ کی موٹر سائیکل اور کار پارکنگ سے اٹھا کر نوپارکنگ میں کھڑی کردیتے ہیں ۔ پریڈی تھانے کے باہر بدترین ٹریفک اسی غیرقانونی پارکنگ مافیا کی بدولت ہے ،یہ کام محکمہ پولیس نے ٹھیکے پر دے رکھا ہے جو مافیا سے ماہانہ کروڑوں اور سالانہ اربوں روپے بٹورنے کے بعد بھی خود کو اس ملک کا ذمے دار محکمہ کہتا ہے۔

کل ایک نیوز آنکھوں کے سامنے سے گزری جس میں اسٹیٹ بینک ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی اسکیم سے متعلق اسٹیٹ بینک نے اشتہار جاری کیا کہ یہ فراڈ ہے اور اس سے اسٹیٹ بینک کا کوئی تعلق نہیں۔اور یہ اقدام اسٹیٹ بینک اس وقت اٹھایا جب لوگوں کے 37 کروڑ روپے مافیا نے ہڑپ کرلیے اور ساتھ میں 150 ایکڑ سرکاری زمین پر بائونڈری لگادی۔ اس سے پہلے جب یہ فراڈ شروع ہوا تو ہمارے باکمال اداروں کی آنکھوں پر نوٹوں کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اب وہی سلسلہ شروع ہوگا جو ماضی میں چلتا آیا ہے معاملہ کورٹ کی زینت بنے گا جو متاثرین کی نسلوں تک حل نہیں ہوگا۔

افسوس ہے وطن عزیز میں ہر غیرقانونی کام کواداروں کی بھرپور معاونت حاصل رہی ہے،جو ان غیرقانونی کاموں کو قانونی شیلٹر فراہم کرنے کا بھی بھرپور بندوبست کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں کا اداروں اور قانون سے اعتماد اٹھ چکا ہے وہ اپنا جائز ناجائز کام ان اداروں کے ایجنٹ سے پیسے دے کر آرام سے کروا لیتے ہیں ، اس سے اداروں کو تونقصان ہورہاہے مگر عوام کو وقتی فائدہ پہنچ رہاہے ،اس لیے کہ اب یہاں قانونی طورپر کیے جانے والے کام پر اتنا بھروسہ نہیں رہاجتنا غیرقانونی کام پر ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں باکمال ادارے اور لاجواب قانون کی بالادستی قائم ہوچکی ہے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔