منفی روئیوں کو کیسے برتیں؟‎

جس طرح ایک ریاست کے امور کو چلانے کے لئے پولیس، فوج ، رینجرز اور پیرا ملٹری فورسز پر مشتمل ایک مضبوط اور مربوط دفاعی نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےعین اسی طرح سماج کے منفی اور استحصالی روئیوں کو برتنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے انسانی دماغ کو سیلف ڈیفنس سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ یہ منفی معاشرتی روئیے ایک فرد کی تخلیقی و تعمیری صلاحیتوں کو متاثر نہ کر سکیں۔ اس کی شخصیت کو مجروح ہونے سے بچائیں۔ مزید یہ کہ معاشرے کا ایک کار آمد فرد معاشرے کے استحصال کا شکار ہو کر خود کو تباہ نہ کر بیٹھے۔

بزرگوں کی کہاوت بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ

” چار برتن جہاں ہوتے ہیں وہ کھڑکتے ضرور ہیں”

اسی بات کو قرآن میں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:

“مل جل کر رہنے والے اکثر لوگ ایک دوسرے پر زیادتی کر بیٹھتے ہیں”

اسی طرح قرآن میں سورة الحجرات میں بہت سی اخلاقی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ جھوٹ ، دھوکہ، تجسس، ٹوہ لگانا ، بد گمانی ، غیبت، برے القابات سے پکارنا (bullying) ۔۔۔ یہ اور اس طرح کی دیگر نا پسندیدہ اطوار محض ایک فرد یا خاندان کو متاثر نہیں کرتے بلکہ پورے معاشرے کے لئیے تباہ کن ہیں۔

بلاشبہ ایک آئیڈیل معاشرہ وہی کہلا سکتا ہے جو گرتے ہووں کو تھام لینے والا معاشرہ ہو۔ جو کمزور پر بھپتی کسنے والا نہیں بلکہ آگے بڑھ کر سہارا دینے والا معاشرہ ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے افراد کو نفرت و حقارت سے دیکھنے کے بجائے انہیں کان اور کاندھا فراہم کیا جائے اور انہیں زندگی کے دھارے میں واپس لا یا جائے۔

مگر بد قسمتی سے آج چاروں طرف نگاہ دوڑائی جائے تو نفرت، حسد، جھوٹ ، دھوکہ دہی، دکھاوا، اسٹیٹس کی دوڑ، مقابلے بازی، ظلم زیادتی کی ایک آگ بھڑکتی نظر آتی ہے۔ ایسے افراد کی کثرت ہے جن کے لئیے ایمان ، کردار اور اخلاق جیسے الفاظ بے معنی ہیں۔

معاشرے میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل، مایوسی و ڈپریشن کے کیسز کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ منفی روئیوں کی زیادتی اور مثبت سوچ کا فقدان ہے۔ ان منفی روئیوں کے درمیان ایسے افراد کا وجود یقیناً غنیمت ہے جو صبر ، برداشت ، میانہ روی اور رواداری جیسے خوبصورت جذبوں کو تھامے ہوئے ہیں۔

مگر ان متضاد روئیوں کے جنگل میں یہ ادراک حاصل کرنا نہایت ضروری ہے کہ بر خلاف فطرت اگر آپ کو منفی روئیوں کا سامنا کرنا پڑ جائے یا مستقلاً کرنا پڑتا ہو تو ان کو برتنے کا مناسب طریقہ کیا ہے؟ منفی روئیوں کو خود پر حاوی کرنے کے بجائے اپنی شخصیت کوان سے متاثر ہونے سے کیسے بچایا جائے؟

آئیے منفی روئیوں کو برتنے کے کچھ عملی طریقے تلاش کرتے ہیں:

*نظر انداز کرنا:

(Ignorance)

منفی روئیوں کا سامنا کرنے کا سب سے پہلا اصول نظر انداز کرنا ہے۔ اس کا مطلب محض یہ نہیں کہ آپ صبر و برداشت کا مجسم پیکر بنے رہیں۔ یقیناً صبر و برداشت جیسی بلند صفات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر نظر انداز کرنے سے حقیقی مراد یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو سوچتے رہنے اور ان کو ذہن پر حاوی رکھنے کے بجائے اپنے کرنے کے اصل کام و دیگر مصروفیات پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ دل و دماغ کو روشن رکھا جائے۔ مقصد کے تحت زندگی گزاری جائے اور ارد گرد کی لاحاصل سوچوں کو ذہن میں جگہ نہ دی جائے۔

*میل جول محدود کریں:

(Limit the social circle)

میل جول محدود کرنا اگرچہ ایک غیر اخلاقی اصول لگتا ہے اور اکثر لوگ اس کو سماجیات کے منافی عمل سمجھتے ہیں مگر کچھ ماہرین کے نزدیک دماغی صحت خوشگوار رکھنے کے لیئے یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے افراد جو ہمیشہ آپ کے لئیے دل آزاری ، ذہنی اذیت اور کوفت کا باعث بنتے ہوں ان سے تعلقات محدود رکھنا ہی فائدہ مند ہے۔ ایسے افراد کی زیادہ صحبت یا ان سے بہت زیادہ میل جول سے گریز رکھیں البتہ اپنا اخلاقی مرتبہ بلند رکھنا ضروری ہے۔

*نمود و نمائش سے پرہیز:

(Avoid show off)

اپنی کامیابیوں یا خوشیوں کے لمحات کی غیر ضروری تشہیر بھی بہت سے حاسد اور متجسس لوگوں کو آپ کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس لئیے ضروری ہے کہ حد سے زیادہ نمود و نمائش سے دور رہا جائے۔ خوشیاں منانا آپ کابنیادی حق ہے مگر ناجائز دکھاوا اور تشہیر سے اجتناب بٙرتنا ضروری ہے۔

مقابلہ کریں:

(Self defense)

یہ اس مضمون کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ منفی روئیوں کو برتنے کے جتنے طریقے ہیں ، یہ ان میں سب سے الگ ، حساس اور نازک ہے۔

اگر آپ گھر یا دفتر کے اندر ایک ایسے ماحول میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں کچھ افراد کے منفی روئیے آپ کو مستقلاً برداشت کرنے پڑتے ہیں تو آپ کو تھوڑا مقابلہ کرنا سیکھنا ہو گا۔ مقابلے سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپ آستینیں چڑھا کر اور کمر کس کر اینٹ کا جواب پتھر سے داغنا شروع کر دیں۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ مہذب اور شائستہ انداز میں اپنا موقف واضح کریں ۔ خود پر لگائے گئے ہر الزام کا تحمل سے جواب دیں۔ خاموشی اختیار کرنا، ڈرنا اور دب جانا یا دل خراب کر کے الگ تھلگ بیٹھ جانا مسائل کا حل نہیں ہوتا۔ بات چیت اور آپس میں گفتگو کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا ایک اچھی عادت ہےجس کو گھروں کے اندر بطور خاص پروان چڑھانا ضروری ہے۔

*جوابی وار سے گریز:

( Avoid counter fight)

جاہلانہ انداز گفتگو سے ہر حال میں پرہیز اور زبان کے غلط استعمال سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

قرآن میں نیک بندوں کی صفات بیان کی گئیں ہیں کہ:

“جب جاہل ان کے منہ کو آتے ہیں تو کہتے ہیں تم کو سلام ہے!”

لڑائی جھگڑا اور غیر اخلاقی حرکات اور زبان کا غلط استعمال ایک مومن کو کسی طور زیب نہیں دیتا۔

لہذا یہ سب اگر آپ پر مسلط کیا جائے تو اپنا موقف واضح کر کے وقتی طور پر الگ ہو جانا بہتر طرز عمل ہے۔

* اصلاح کی کوشش اور خیر کی دعا:

(Try to Fix and hope for betterment)

ایسے افراد جن کے اندر منفی انداز فکر حد سے زیادہ موجود ہو۔ غیبت ، چغلی، حسد ، شکوے شکایات اور ہر وقت لڑائی جھگڑے پر آمادہ رہنا ۔۔۔۔ یہ سب صفات بدرجہ اتم موجود ہوں تو ایسے افراد کے لئے ایک مصلح کا کردار ادا کرنا اور عفو و درگزر کا رویہ اپنا کر ایسے افراد کی اصلاح کی کوشش کرنا اور ان کو آہستہ آہستہ مثبت طرز فکر کی طرف راغب کرنا انتہائی نیک عمل ہے۔ منفی سوچ کا حامل فرد محض دوسروں کے لئیے پریشانی کا باعث نہیں بلکہ در حقیقت خود اپنے آپ کو بھی اذیت دے رہا ہوتا ہے۔ اس لئیے ایسے فرد کے لئے خیر و ہدایت کی دعا بھی کریں۔

حفاظتی اذکار کا اہتمام:

( Prayers to remain safe from evil eyes)

حاسدین کے شر سے بچنے کے لیئے مسنون دعاون ، معوذتین اور دیگر اذکار کااہتمام نہایت احسن عمل ہے جس کی تلقین و ترغیب سیرت رسول اللہؐ اور صلحا کے عمل سے بھی ملتی ہے۔