جہاں رب راضی وہیں دل راضی‎

عید الفطر گزرے چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔اور اس عید پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں سب بند تھا۔گھروں سے نکلنے کی بھی اجازت نہ تھی یہاں تک کہ عید کی نماز بھی انفرادی طور پر مردوں نے اپنے مسکنوں میں ادا کی تھی۔ان گنت کمانے والے انھی ملکوں میں عید منا رہے تھے کہ جہاں وہ اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کےلیے اپنے ملک کو چھوڑ آئے تھے۔بہت سارے افراد کے اہل خانہ بھی ان سے دور تھے،کہ فلائٹس بند ہونے کی وجہ سے وہ سفر کرنے سے قاصر تھے۔اور اس وقت جہاں یہ افراد بیزار تھے وہیں ان کی بیوی ،بچے اور باقی اہل خانہ بھی بےحد افسردہ تھے۔

جبکہ وہ افراد جو اپنوں کے ساتھ تھے وہ بھی خوش نہ تھے۔انتہائی بیزار تھے کہ یہ بھی بھلا کوئی عید ہوئی۔کہ جس میں ہم اپنے گھروں میں بند ہیں اور سب دعا کر رہے تھے کہ آئندہ کبھی ایسی کوئی عید نہ آئے کہ جس میں گھر میں بند ہوں،اپنوں سے ملنے کی اجازت نہ ہو۔

اور اب جب چند دن پہلے مولانا مودودی کے بارے میں پڑھا کہ اُن کی تو ایک سے زیادہ عیدیں جیل میں گزریں وہ بھی دین کے کام کرنے کی پاداش میں۔کہ انھیں سزا دی گئی تھی۔اور عید کے دن بھی انھیں  باسی روٹی اور چنے کی دال ملی جسے انھوں نے بغیر منہ بنائے کھا لیا۔اور یہ سب پڑھ کر میں حیران تھی۔۔۔۔۔شاید کے الفاظ بھی کہیں گمُ ہوگئے تھے مولانا مودودی کے بارے میں کہ وہ کیسے انسان تھے!!!!!!اُن کا ایمان اپنے رب پر کتنا پختہ تھا !!!!کہ اس وقت بھی انھوں نے ناشکری نہ کی ۔

حالانکہ ان کے پاس تو فون بھی نہی تھا ۔وہ اپنوں سے بھی نہ ملے تھے اور بہت سی نعمتوں کو اس وقت حاصل نہ کرسکتے تھے۔پھر بھی انھوں نے تو یہ بھی نہ کہا کہ ہائے عید کے دن ہی رہا کر دیا ہوتا۔۔۔۔

بلکہ وہ نماز و ناشتہ کے بعد اپنا لکھنے کے لیے بیٹھ گئے۔

کیا انھیں اکتاہٹ نہی ہورہی ہوگی بند کمرے میں قید ہونے پر؟؟؟؟وہ بھی کسی جرم کے بنا!!!کیا وہ بیزار نہیں ہو رہے ہوں گے؟؟؟؟کیا ان کا دل نہیں کر رہا ہوگا کہ یہاں جاؤں وہاں پھروں ؟؟؟؟؟کیا انھوں نے یہ نہ سوچا ہوگا کہ یہ کیسا عید کا دن ہے کہ اس دن بھی ایک کمرے میں قید ہوں!!!!!کیا ان کو نہی ہورہا ہوگا کہ آج دل نہیں کر رہا آج نہیں لکھتا ۔

لیکن پھر یہ سمجھ آئی کہ انھوں نے اپنے دل کو رب کی اطاعت میں لگا دیا تھا۔اس دل کو جنت کے عوض بیچ دیا تھا۔

تبھی انھوں نے جیل کی بند سلاخوں کے پیچھے بھی یہ نہ کہا کہ بوریت ہورہی ہے۔

بلکہ ان گنت کتابوں اور تفھیم القرآن کا تحفہ ہمیں دے گئے ،کہ جن کو پڑھ کر ہم اسلام کی تعلیمات کو جان سکتے ہیں۔اور اپنے دین کے معنی سمجھ سکتے ہیں۔عبادت کیا ہے؟اس کے معنی و مفہوم سے آشنا ہوسکتے ہیں۔

لہذا سوبار رحمتیں ہوں مولانا مودودی آپ پر۔

خدا آپ کے ہر عمل کو قبول کرے اور آپ نے جو ہمیں اتنا اچھا ورثہ دیا ہے ان گنت کتابوں جیسے دینیات،خطبات، سنت نبوی کی آئینی حیثیت ،تنقیہات اور تفھیم القرآن کی صورت میں۔ہم اس کا ہم حق ادا کرنے والے ہوں۔