نجومِ صغار حضرت عمر بن عبدالعزیز 

تاریخ اقوم عالم اس بات کی شاہد ہے کہ جابر حکمران کی عمر اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ عادل حکمران کی ہوا کرتی ہے۔ لوگ عادل حکمران کو ان کے فیصلوں کی بدالت صدیوں زندہ رکھتے ہیں جن کی ایک مثال اگر میں پیش کروں کہ سویڈن کے آئین میں حضرت عمرؓ کے عدل کی بدولت قانون عمر کے نام سے انہوں نے ایک باب شامل کیا ہوا ہے۔گویا عادل کو اپنے اور غیر دونوں تاریخ میں زندہ رکھتے ہیں۔ایک عادل حکمران کی زندگی میں ماسوا عدل کچھ نہیں ہوتا ہے اسی لئے بعض اوقات اس کے اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں لیکن زیادہ تر پرائے اپنے ہوتے ہیں اور یہ سب اس کے عدل کی وجہ سے ہوتا ہے۔

لیکن یہ کام اتنا بھی آسان نہیں ہوتا،بعض اوقات اپنوں اور اپنی اولاد تک کی قربانی دینا پڑ جاتی ہے جس کی مثالیں ہماری تاریخ میں بآسانی دستیاب ہو جائیں گی۔جیسا کہ ایک بار حضرت عمر ؓ کے پاس ایک یہودی اور مسلمان(منافق) ایک فیصلے کی غرض سے حاضر ہوئے ۔ مدعا بیان کرنے میں منافق نے پہل کی اور سارا ماجرا سنا ڈالا،یونہی اس کی بات ختم ہوئی تو یہودی بول اٹھا کی حضرت اس بات کا فیصلہ آپ سے قبل آپ کے پیغمبر فرما چکے ہیں اور انہوں نے اس کا فیصلہ میرے حق میں دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا ایک دم رنگ تبدیل ہوگیا ارو کہنے لگے کہ ذرا تھوڑی دیر رکیں اس کا فیصلہ میں کرتا ہوں۔ حضرت عمر ؓ اندر تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ان کی تلوار تھی جس سے انہوں نے منافق کا سر تن سے جدا کردیا یہ فرماتے ہوئے کہ جسے آقاؐ کا فیصلہ قبول نہیں اس کا فیصلہ عمر کی تلوار ایسے ہی کرے گی۔

اسی جلیل القدر،مراد رسول ﷺ کی اولاد سے ایک اور عمر پیدا ہوتے ہیں جنہیں تاریخ عالم حضرت عمر بن عبدالعزیز کے نام سے جانتی ہے۔یہ ایک ایسے خیر تابعین ہیں جن کا بچپن اور جوانی بہت خوش حال گزری ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جس بازار سے حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک بار گزر جاتے گھنٹوں بعد بھی لوگوں کو اندازہ ہو جاتا کہ اس راستے سے حضرت عمر بن عبدالعزیز گزرے ہیں کیونکہ وہ اس قدر مہنگی خوشبو استعمال کرتے تھے کہ شائد کوئی دوسرا اتنی مہنگی خوشبو استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

ایسے ہی ایک بار ان کے پاس ایک تاجر ریشم کا کپڑا لے کر آیا جسے انہوںنے یہ کہہ کر ناپسند کر دیا کہ مجھے اس سے بھی اچھا ریشم درکار ہے،لیکن یونہی خلافت کا بار کاندھوں پہ آتا ہے تو عالم یہ ہوتا ہے کہ ایک بار حضرت فاطمہ بنت مالک (بیوی)کا بھائی ان سے ملنے کے لئے آیا تو انہوں نے اپنی ہمشیرہ سے شکائے کہ کہ اب حضرت عمر بن عبدالعزیز مسلمانوں کے خلیفہ ہیں تو انہیں آپ نیا اور صاف ستھرا لباس کیوں نہیں پہننے کو دیتیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بھائی کیا کروں ان کے پاس ایک ہی لباس ہے اور مصروفیت کی بنا پہ اسے دھویا نہیں جا سکا۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ تاریخ اسلام کی کتب سے ملتا ہے جو کہ عصر حاضر کے راہنمائوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہوگا کہ جس میں انہوں نے اپنے بچوں کی فرمائش پوری کرنے لئے بیت المال سے ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لینے کی درخواست کہ جس پہ انچارج بیت المال نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ عمر بن عبدالعزیزآپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ آپ اس وقت تک زندہ بھی رہیں گے یا نہیں۔فورا اپنا مطالبہ واپس لیا اور بچوں کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ اپنی تنخواہ سے ان کی خواہشات پوری نہیں کرسکتا۔

ٰٓایسے شمائل ومحاسن کیوں نہ ہوں کیوںکہ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جنہیں آپ ؐ نے فاروق کہہ کرپکارا۔یہ وہی حضرت عمرِ فاروق ہیں جو قبول اسلام کے بعد آپ ؐ سے دارارقم میں ایک سوال ہی پوچھتے ہیں کہ یارسول ؐ کیا ہم حق پہ نہیں ہیں جس پر آنحضور ؐ نے فرمایا کی عمر کیوں نہیں ہم حق پہ ہیں تو حضرت عمر ؓ نے کہا تو پھر اے اللہ کے رسول ؐ آج کے بعد ہم نماز چھپ کر نہیں بلکہ علی الاعلان صحن ِ حرم میں ادا کریں۔یہی حضرت عمر جب خلیفہ دوم کی ذمہ داریاں کاندھوں پہ اٹھاتے ہیں تو راتوں کو بھیس بدل بدل کر لوگوں کی مشکلات جاننے اور حل کرنے کی سعی اور موقع میں رہتے ہیں ۔

ایک رات اپنے چہیتے غلام حضرت اسلم کے ساتھ گشت پہ تھے کہ ایک گھر سے بوڑھی خاتون کی آواز آئی کہ بیٹی دودھ میں پانی ملا دو جس پہ لڑکی جواب دیتی ہے کہ ماں کیا آپ نے حضرت عمر کا فرمان نہیں سنا،جس پہ بوڑھی اماں کہتی ہے کہ عمر کون سا یہاں موجود ہے،جس کے جواب میں بیٹی کہتی ہے کہ ماں اگر عمرؓ نہیں سن رہے تو عمر کا اللہ تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔اس مکالمہ کا سننا تھا کہ حضرت عمر ؓ اپنے گھر تشریف لے جا کر اپنے بیٹے عاصم سے یہ واقعہ سناتے ہیں اور انہیں اس لڑکی کے ساتھ شادی پہ رضا مند کرتے ہیں ان کی اولاد سے حضرت عمر بن عبدالعزیز ہیں۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز ؑ جب مدینہ کے گورنر تھے تو ایک بار مشہور جلیل القدر صحابی حضرت انس بن مالک ؓ عراق سے مدینہ تشریف لائے، انہوں نے جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو ان کی کیفیت دیکھ کر لوگوں کو فرمایا کہ رسول اللہ ؐ کے بعد میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز آپؐ سے اس قدر مشابہت رکھتی ہوجتنی کہ تمہارے اس امام کی۔بلاشبہ رسول اللہ ؐ کے خادم خاص کی طرف سے یہ بہت بڑی شہادت ہے۔وقت اور تاریخ نے دیکھا کہ حضرت عمربن عبدالعزیز نے بے نظیر وبے مثال عدل کی بنا پر خلافت راشدہ کے زمانہ کو تازہ کردیا اسی لئے انہیں خلیفہ اور عمر ثانی بھی کہا جا تا ہے۔لیکن گذشتہ دنوں شام کے شہر حلب میں چند شر پسند عناصر نے ان کی اور ان کے خاندان کی قبور کو مسمار اور بے ادبی و بے حرمتی کر کے مسلمانوں کی روح کو تار تار کردیا۔

مسمار کرنا،نذر آتش کرنا اور قبور کی اس انداز سے بے حرمتی کرنا یقینا ایک خاص ذہنی خلفشاروانتشار کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ایک مسلمان تو ایسی جرات کرنے سے رہا کہ جب اس نے نبی ؐ کی یہ حدیث سن یا پڑھ رکھی ہو جس میں حضور اکرم ؐ نے قبروںپر چلنے،بیٹھنے اور انہیں تکیہ بنانے سے منع فرمایا ہو،اور یہ بھی کہ مردے کو تکلیف پہنچانا ایسا ہی ہے جیسے کہ تم اسے زندگی میں تکلیف دے رہے ہو۔ایسی سوچ،ذہنیت اور مائنڈ سیٹ کو کیفر کردار تک ضرور پہنچانا چاہئے کیونکہ ایسے لوگوں کا تعلق نہ کسی مذہب سیاست یا انسانیت سے ہوتا ہے بلکہ ایسے لوگ تو حیوانوں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔اور جب جانور انسانوں کا دشمن بن جائے تو اسے جان سے مار دینا ہی اس سے چھٹکارا اور نجات کا طریقہ ہوتا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں