مکافات عمل

کرونا وائرس ہے کیا جو کے پوری دنیا کے لیے ایک وبال بن چکا ہے۔ ایک چھوٹا ننھا ٤٠٠ سے ٥٠٠ قطر مائیکرو کا خرد بینی وائرس جو کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق لیب میں تیار کیا گیا۔ آج دنیا کے تقریباً ١٤٧ ممالک اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اور لاکھوں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کچھ صحتیاب بھی ہوئے ہیں لیکن انکا تناسب بہت کم ہے۔ دنیا کی پانچ بڑی طاقتیں مل کر بھی اس وائرس کا توڑ نہیں نکال پا رہیں۔

مگر وہ چھوٹے چھوٹے غریب ممالک جن کے وسائل یہ بڑی طاقتیں ہضم کرکے اپنی تجوریاں بھر رہی تھیںوہ اس وائرس سے محفوظ ہیں(میں افریقی ممالک کی بات کر رہی ہوں۔) جہاں پر انسانوں کے مرنے کو انسانی اموات میں شمار نہیں کیا جاتا۔ اور آج ان صدیوں کے غلاموں کے آقاؤں نے خود کو ہی قید کرنا شروع کردیا ہے۔ اب ذرا انکو بھی معلوم ہورہا ہوگا کہ قید اور تنہائی کیا ہوتی ہے۔ سات مہینے کشمیری بھی اس طرح محصور (قید) ہیں !

ہمیں تو ابھی گھروں میں بند ہوئے دو تین دن ہی ہوئے ہیں اور ابھی ہم پوری طرح محصور بھی نہیں ہوئے لیکن ہم مستقبل سے کتنے پریشان ہورہے ہیں کہ آگے جاکر یہ وائرس کتنی تباہی پھیلا سکتا ہے۔ کیا ہوگا ….؟ جو افراد جابز کرتے ہیں وہ کہاں تک اس سے بچیں گے۔ کیسے کرونا وائرس سے اپنا بچاؤ کرینگے؟؟ اسکول کب کھلیں گے؟؟ ہم آزادنہ طور پر پھر کب اپنے ملک میں گھوم پھر سکیں گے؟؟؟ ہم اس وائرس سے آزادی چاہتے ہیں۔سب نعمتیں ہمارے سامنے ہیں، سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس وباء نے انکو ہم سے دور کردیا ہے۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یہی سوچیں کشمیریوں برمیوں فلسطینیوں یمنیوں اور شامیوں کی بھی ہوتی ہونگی۔ اپنے ہی گھر میں محصور ۔! موت کا خوف ۔! غذائی قلت ۔! اپنے مستقبل کی کوئی خبر نہیں۔رات کو سوتے وقت سوچتے ہونگے پتا نہیں صبح کیا دیکھنے کو ملے۔ یہ لوگ سالہا سال سے کتنی تکالیف سے گزر رہے ہیں۔مگر دنیا اس ظلم پر خاموش تماشائی بنی رہی اور آج پورے یورپ سے تکلیف کی صدائیں اٹھ رہی ہیں۔

آج زمینی خدا بےبس نظر آرہے ہیں۔

جو مل مل کر مظلوموں کو کچلا کرتے تھے،آج خود ایک دوسرے سے منہ پھیر کر اپنے اپنے ملک کو لاک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ایک چھوٹے سے وائرس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ابھی جن ممالک کا میں نے ذکر کیا ہے انکے دشمن تو نظر آتے ہیں آنکھ سے اوجھل نہیں۔کب حملہ کر جائیں یہ معلوم نہیں۔ مگر انکے دشمنوں کا دشمن (کرونا) ہے وہ تو آنکھ سے اوجھل ہے! کب حملہ کر جائے یہ بھی معلوم نہیں !!! وہ کہاں سے آرہا ہے ہم تو اسکو دیکھ بھی نہیں سکتے .. کب انسانوں میں داخل ہوگیا یہ بھی نہیں جانتے..چار دن وہ حلق اور گلے میں قیام کرتا ہے۔ پھر نظام تنفس میں اتر کر تڑپا تڑپا کر جان لے لیتا ہے۔

ذرا سوچئے تو شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کو! کتنا تڑپا تڑپا کر جان لیتے ہونگے۔ مگر ہم یہی کہتے رہے سیاسی جنگ ہے۔ انکا اپنا معاملہ ہے! گل گل کے انسانوں کے جسم گر رہے ہیں۔ وہاں چھوٹے چھوٹے بچے اسی تکلیف سے پچھلے آٹھ سال سے گزر رہے ہیںجس سے پچھلے دو مہینے سے دنیا گزر رہی ہے۔ یمن کشمیر برما فلسطین کے بہت سارے لوگ اپنے پیاروں سے الگ لاک ڈاون ہوکر کرونا کی تکلیف سے زیادہ تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔

لیکن کوئی انکے حق کے لئے آواز اٹھانے والا نہیں۔تمام مسلم ممالک لاچار اور اپنی غرض کے بندے بنے ہوئے ہیں۔ شاید اللہ کی چال چلنے کا وقت آگیا ہو۔ مظلوموں کی دعائيں قبول ہوگئ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دکھا رہا ہو جب وہ کہتا ہے “ہوجا” تو بس پھر ہوجاتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں