طلبہ یونین بحالی کے مثبت،منفی اثرات 

پاکستان میں حالیہ تعلیمی اداروں کے تعلیمی ماحول اور ان اداروں میں سیاسی مداخلت کی صورت حال کا اگر غیرجانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو طلبہ یونین کی بحالی کو ایسے ہوا دی جا رہی ہے جیسے اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہو۔اس سلسلے میں چند اشرافیہ خاندان سے تعلق رکھنے والے طلبہ وطالبات سڑکوں،چوراہوں،اسمبلی ہال اور فیض امن میلہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے،جب لال لال لہرائے گا کے نعروں سے صدائے احتجاج بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔حالانکہ اگر حالات و واقعات اور تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اشرافیہ کی نام نہاد ترقی پسندیدیت اور طلبہ کے مسائل چہ معنی است،جنہیں خدا نے پہلے ہی نواز رکھا ہے وہ کس جبر وظلم اور استبداد کے خلاف نعرہ زن ہو ئے ہیں ،میں یہ بات سمجھنے سے یکسر قاصر ہوں۔یقینا ان سب کی صدائے احتجاج کے پس پردہ کچھ پوشیدہ صدائیں اور ہاتھ ہونگے یعنی اگر ان کے سر پر سیاسی گروپس کا دستِ شفقت نہ ہو تو حکومت وقت کو ،صدا کو چیخوں میں تبدیل کرنے میں ایک لمحہ ہی درکار ہوتا ہے۔

بحثیت قوم کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ طلبا کو یونین کا لالی پاپ کیوں دیا جاتا ہے؟بہت ہی مثبت،ہمدردانہ اور مخلصانہ انداز میں یہ بات نوجوان طلبہ کے ناپختہ اذہان میں ڈال دی جاتی ہے کہ طلبہ یونین دراصل طلبہ کے حقوق کے تحفظ،طلبہ مسائل کے حل ،جیسے داخلہ میں درپیش مسائل،ہاسٹل،امتحانات وغیرہ میںمعاونت کے لئے بنائی جاتی ہیں۔علاوہ ازیں تعلیمی اداروں کے ماحول کو پرامن رکھنے،طلبا میں مثبت سرگرمیوں کو اجاگر کرنے،انتشار اور منفی سیاست کے خاتمہ،غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ اور مستقبل کی قیادت کی تیاری بھی ان یونینز کے منشور اور سادہ لوح طلبہ کو اپنے جال میں پھانسنے کے لئے طلبہ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ طلبہ یہی سمجھیں کہ اگر انہیں تعلیمی اداروں میں اپنے مستقبل اور اپنی حیثیت کو محفوظ بنانا ہے تو اسے کسی نہ کسی یونین کا حصہ بن کر ہی ادارہ میں ماہ وسال گزارنے ہونگے،اب ان تمام عزائم کے پیچھے یقینی طور پر کوئی نہ کوئی ہاتھ تو ضرور ہوگا جن کے مفادات ان سے وابستہ ہوں گے،اوریہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو یونینز کو اپنی سیاست کا ایندھن اور آلہ کار بنانے اور انتشاری ماحول کو ہوا دینے کے لئے ان طلبہ کو یونین بنانے اور ان کا حصہ بننے پر اکساتے بھی ہیں اور فنڈز بھی فراہم کرتے ہیں۔کیونکہ مال ہے تو کار ہے ورنہ سب بیکار ہے۔

مذکور سب اگر بیکار ہے تو پھر یونین کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ترقی یافتہ ممالک میں بھی یونین قائم ہیں اور وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں مصروفِ عمل بھی دکھائی دیتی ہیں،آخر کیا وجوہات ہیں کہ ہم پاکستان کے تعلیمی اداروں میں یونینز کو فعال نہیں دیکھنا چاہتے،بالکل یونین کے فوائدوثمرات ہوتے ہیں اسی لئے تو دنیا کے ترقی اور تہذیب یافتہ ملکوں میں نا صرف تعلیمی اداروں میں بلکہ دیگر حکومتی ونجی اداروں میں یونینز اپنے اپنے دائرہ اختیار میں فعال ہوتی ہیں۔ ان ممالک میں ہوتا کیا ہے؟ یونین کا اصل کام ہوتا ہے کہ باہمی مشاورت سے اسٹوڈنٹ الیکشن کروا کر ایک دوسرے کے ساتھ شیر وشکر ہوجانا،ہارنے والے جیتنے والے کو مبارکباد اور ہار پہنا کر تحصیل علم میں مصروف ہوجاتے ہیں،یونین عہدیداران کا اب کام ہے کہ اسٹوڈنٹ کونسلرز کے ساتھ مل کر ،بحث وتمحیص کے بعد کسی بھی مسئلہ کا حل نکال کر اسے احسن،شائستہ اور ایمانداری کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ تک پہنچانا اور بوقت ضرورت پرنسپل یا وائس چانسلر کو اپنی رائے سے بھی آگاہ کرنا تاکہ تعلیمی ادارے کا ماحول اور طلبہ انتظامیہ تعلقات خوشگوار رہیںکیونکہ اگر طلبہ انتظامیہ تعلقات کی نوعیت مثبت،مثالی اور فلاحی ہوگی تو لازمی طور پر اس تعلیمی ادارے کا ماحول اور طلبہ کے مطالعہ کے لئے ماحول بھی مثالی اور سازگار ہی ہوگا۔

اب بات کرتے ہیں کہ اگر یونین کے اتنے ہی ثمرات ہیں تو پھر پاکستان میں اس پر پابندی کیوں عائد ہے؟کیوں ہماری اکثریت طلبا یونین کی بحالی کی مخالفت کے درپے ہیں،اس کا سیدھا اور آسان جواب تو یہ ہے کہ ہماری تربیت شائد اس نہج پر ابھی نہیں پہنچ پائی جہاں یورپی اقوام ہیں۔کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی طلبا یونین کو بحال کیا گیا ہے نتائج بالکل برعکس ہی دکھائی دیئے ہیں۔جن اداروں میں مثبت تبدیلی کا سوچ کر یونین کو بحال کیا جاتا ہے انہیں اداروں میں یونین کی چھتری تلے لسانی،مذہبی،نسلی،علاقائی،صوبائی بنیادوں پر گروپ بندی اور برادری ازم کو فروغ ملا ہے گویا یونین کثیر تعصبی ماحول کی آماجگاہ بن جاتی ہے جو کسی طور ادارے،علاقہ اور ملک کے لئے بہتر اور مثبت نہیں ہو سکتا۔اس سے ادارے کا ماحول پرامن نہیں بلکہ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے، طلبہ یونین کی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے طالب علم تھے جن کے ہاتھ میں کتاب کی بجائے گن نے لے لی۔ یقینا ان سب کے پیچھے وہی ہاتھ پوشیدہ ہوتے ہیں جن کے کوئی نا کوئی مفاد ہوتے ہیں ورنہ اگر صرف مستقبل کی قیادت کی تیاری کی بات کی جائے تو عوام کے مستقبل کی قیادت تو آکسفورڈ،ہاورڈ جیسے تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل کی قسمت میں ہی ہوتی ہے، باقی سب تو لال لال جب آئے گا کے نعرے لگانے کے لئے ہوتے ہیں۔میری ذاتی رائے میں ملکی تعلیمی اداروں اور تعلیم کی حالت پہلے ہی دگرگوں ہے اسے مزید انتشار سے بچانے کے لئے طلبا کو لال لال کی بجائے سر سبز اور صرف سبز ہی سبز کی تلقین کرنے کی طرف توجہ دی جانی چاہئے ۔ اس لئے کہ یہ قائد واقبال کا خواب تھا،اقبال نے اپنے اس خواب کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

جبکہ جناح نے پاکستان کے معماروں سے ڈھاکہ میں خطاب کرتے ہوئے ان عزائم کا اظہار فرمایا کہ ’’میرے نوجوان دوستو!میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔یاد رکھیے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہو چکی ہے،ہماری اپنی حکومت ہے،ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہیں،لہذا ہمیں آزاد قوم کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہئے، اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں،ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں‘‘انہوں مزید ایک اجلاس میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’میں آپ کو ہی پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر کیا کچھ کر دکھاتے ہیں، آپ اس طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کر سکے‘‘ لہذا اب میرے نوجوانوں کو قائد واقبال کی خوابوں کی عملی تعبیر اور تفسیر بن کر ثابت کر دکھانا ہے کہ ہم اپنے قائدین کے متعین کئے ہوئے راستوں کی حفاظت کے امین ہیں،ہم کسی بیرونی یا اندرونی طاقت کے آلہ کار نہیں ۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں