دو طبقے ۔ دو انداز

ایک مولوی صاحب کا پاجامہ درزی نے ذرا لمبا کر دیا ۔ مولوی صاحب ذرا ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہنتے تھے ۔ بیگم سے کہا کہ جمعہ سے پہلے ذرا چار انچ پاجامہ کم کر دینا ۔ بیگم روز مر ہ کی مصروفیت میں بھول گئی ۔ دوسرے دن مولوی صاحب نے بیٹی سے کہا زرا4انچ پاجامہ کم کر دینا ۔ بیٹی بھی ٹال گئی ۔ تیسرے دن مولوی صاحب نے بہو سے پاجامہ چار انچ کم کرنے کا کہا ۔ بہو بھی بھول گئی ۔حتیٰ کہ جمعہ کا دن آن پہنچا تو اچانک بیگم کو خیال آیا اوروہ اپنے کمرے میں پہنچ کر جلدی سے چار انچ پاجامہ کاٹ کر سلائی کر دیا اور پاجامہ مقررہ جگہ پر رکھ دیا ۔ کچھ دیر بعد بیٹی کو خیال آیا تو اُس نے بھی پاجامہ چار انچ کاٹ کر سلائی کر دی ۔اس کے بعد بہو نے بھی یہی عمل دہرایا ۔ یہاں تک کہ بروز جمعہ دوپہر جب مولوی صاحب نے غسل کر کے پاجامہ پہنا تو وہ کچھا بن چکا تھا ۔

پاکستان کے غریب عوام کی مالی حالت بھی ہر بجٹ میں نئے نئے ٹیکس لگا کر مولوی صاحب کے پاجامہ جیسی کر دی گئی ہے ۔ جس کو یاد آتا ہے نیا ٹیکس لگا کر آمدنی چھوٹی کر دیتا ہے جیسے عوام کو گورنر ہائوس گھماتے گھماتے گیس کی قیمتوں میں 40فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ انکم ٹیکس پہلے سے زائد نافذ کر دیا گیا ہے جیسے بچپن میں ’’چڑیا‘‘دکھا کر ختنے کر دیا کرتے تھے ۔

بزرگ ہونا اور بزرگی تراشنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ سب لوگ اپنے بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں بزرگ لوگ کسی بھی خاندان ، قوم اور قبیلے کی آبرو ہوتے ہیں بزرگ جو کہتے ہیں وہی جوانوں کیلئے آئین اور قانون بن جاتا ہے ۔ چنانچہ جوانوں کی نسبت بزرگوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ کمان سے نکلے ہوئے تیر اور زبان سے نکلی ہوئی بات کی واپسی محال ہے ۔ دو طرح کے لوگ ایسے ہیں جو کسی کی غلطی کا ازالہ نہیں ہو نے دیتے ۔ خصوصاً اگر کسی بزرگ شخصیت سے غلطی ہو جائے تو اُس کے ازالے اور تلافی کیلئے سوچنے کو گناہ سمجھتے ہیں ،معاشرے میں دوطرح کے لوگ ہیں ایک شعبدہ باز اوردوسرے ماہر رفو گر ہیں ۔

خوشامدعقیدہ گو حضرات اپنے بزرگوں کی باتوں پر صرف واہ واہ ہی کرتے رہتے ہیںاور کوئی سوال و جواب یا تجر بہ و تحلیل نہ ہو اور ایک ایساماحول بناتے ہیں کہ جس میں لوگ سوچنا اور پوچھنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ لوگ صرف بزرگوں کی باتیںسنتے ہیں اور سر ہلاتے رہتے ہیں یہ جو کچھ لکھتے ہیں اس میں صرف واہ واہ ہوتی ہے انکی تحریروں میں کہیں نظریاتی تقابل یا حقائق و واقعات کا موازنہ نہیں ہوتا ۔ یہ سوچنے اور پوچھنے والوں بے ادب ، گستاخ ، نااہل ، جاہل ، ان پڑھ اور کبھی کبھی گمراہ ، مشرک و کافر تک کہہ دیتے ہیں ۔ حتیٰ کہ کوئی بزرگ شخصیت مڑ کر اپنی بات کی تصیح کرنا بھی چاہیں تو یہ مریدین حضرات اسکی گنجائش نہیں چھوڑتے اس طرح کی متعدد مثالیں میرے اور آپ کے سامنے موجود ہیں مثلاً میاں نواز شریف جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے لیکن ان کےعقیدت مندوں کی زبانیں مسلسل اپنے لیڈروں کے کرتوت کو چھپانے کے لیے لئے مشغول رہتی ہیں۔

دوسرا گرو رفو گر حضرات کاہے رفو گر تو پٹھے کپڑوں کو ٹانکا لگانے کا فن ہے لیکن اب یہ بزرگ شخصیات کے کلام میں پیداہونے والے خلا کو پُر کرنے کا فن ہے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی کسی بزرگ شخصیت کی سبقت لسانی سے کوئی خلاف توقع بات نکلتی ہے تو یہ رفو گروں کا لشکر کاغذ پنسل لے کر تاویلیں کرنے بیٹھ جاتا ہے اور اتنے خوبصورت ٹانکے لگاتا ہے کہ وہ خود بزرگ بھی حیران ہو جاتے ہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ بادشاہ نے کہا کہ کل صبح میں نے ایک ہرن کو گولی ماری ۔ جو ایک ہی وقت میں اُسکی ٹانگ اور سر کو لگی ۔ اس پرعقیدت مندوں نے واہ واہ کر کے آسمان سرپر اٹھا لیا۔ البتہ کسی گستاخ درباری نے اُٹھ کر اعتراض کر دیا ۔چنانچہ بادشاہ نے ایک وزیر کی طرف اشارہ کیا جو رفو گر کا ماہر تھا ۔ اس نے اُٹھ کر کہاکہ بات دراصل یہ ہے کہ اُس وقت ہرن ٹانگ کے ساتھ سر کو کھُجلا رہا تھا ۔ چنانچہ دربار ایک مرتبہ پھر دوبارہ واہ واہ سے گونج اُٹھا ۔

آج آپ دیکھ لیں وہ عمران خان ہو یا نواز شریف یا کوئی اور سب کوشعبدہ بازکےتماشائی اور رفو گروں نے گھیر رکھا ہے یہی دو طبقے اس ملت کی بدحالی کے مجرم ہیں یہ عوام کو تحقیق ، باز پر س اور سوال و جواب نہیں کرنے دیتے اور اسی سے قوموں میں عقب ماندگی ، اندھی عقیدت ، ذہنی پسماندگی اور بے شعوری جنم لیتی ہے ۔

جواب چھوڑ دیں