خدارا! بچوں کو سمجھیں

ہمارے اس معاشرے میں ایسا ہوتا ہے کہ والدین پر مختلف اقسام کے گدھ سوار ہوتے ہیں۔ جب گدھ ٹھونگیں مارتے ہیں تو نتیجتاً والدین اپنے بچوں کو بکرا بنا لیتے ہیں۔ اور معنوی اعتبار سے ذبح کر لیتے ہیں۔ خوشی چھین لیتے ہیں۔ کہ بھئی تم نے یہ کرنا ہے۔ یہ پڑھنا ہے اور یہ بننا ہے۔ یہی حرفِ آخر ہے۔

جب کہ بچے کا شوق، دلچسپی، لگن، چاہت، کچھ خبر نہیں۔ سب قربان۔ اپنی دلی تسکین اور ناک کو اونچا رکھنے کی چاہ انہیں ایک ایسی آگ میں دھکیل دیتی ہے جو اندر ہی اندر سے جھلسا کر راکھ کرتی ہے۔ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان کےاس جبر سے بچہ یا تو باغی بن جاتا ہے نہ بھی ہو تو بچتا نہیں۔ کوئی والدین کی مرضی کے مطابق ڈھل گیا، ان کی مرضی کا کچھ بن بھی گیا تو خوشیاں رہتی ہیں۔

والدین اگر اولاد کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھ لیں ان کے لیے انواع و اقسام کے گدھ سر سے اڑا لیں۔ اولاد کو سمجھنا شروع کر دیں تو مجھے یقین ہے اولاد کی خوشی کے ساتھ خود کو بھی خوشی ملے گی۔ کچھ برائیوں کا ضرور خاتمہ ہوگا۔ والدین، بچوں کی خواہشات کا احترام کر لیں تو بچے بھی ان کی خواہش کا احترام کریں گے۔ بچہ جو کچھ بھی بنا، طمانیت کا احساس اس کے چہرے پر ضرور ثبت ہوگا۔

بچے اپنی خواہش سے کچھ بن گئے۔ یا کچھ نہ بن پائے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے سے منسلک ہوگئے۔تو اب والدین کا کام پہلا ان کا فین بننا ہے۔ ان کا حوصلہ بڑھانا ہے۔ انہیں احساس دلانا ہے کہ بیٹا/بیٹی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمارا ہاتھ آپ کے کندھے پر ہے۔ چلے چلو یہاں تک کہ منزل کو پا لو۔ والدین اپنے بچوں کے فین بن جائیں۔ پھر دیکھیے کیسے کیسے نگینے نکلتے ہیں۔ کیسے کیسے موتی ہیں جو گرد ہٹا کر سامنے آتے ہیں۔

جنہیں والدین اپنی غلطی سے کھو دیتے ہیں۔ پھر آنسو فائدہ دیتے ہیں نہ ہی شرمندگی کا احساس کہ کاش میں نے اسے انسان سمجھا ہوتا۔ اس کی خواہش کی لاج رکھ لی ہوتی۔ مختصرا عرض کر دوں بھئی اپنے بچوں کو سراہا کریں۔ان کی حوصلہ افزائی کیا کریں تاکہ بچے کی ہمت بڑھے۔ ان کی مرضی کا شعبہ انہیں چننے دیں۔ ان کی مدد کریں۔ نہ کر سکیں تو کم از کم ان کے پر تو نہ کاٹیں۔ پھر دیکھیں کیسے کامیابی قدم چومتی ہے۔ کیسے دنیا ان کی فین ہوتی ہے۔

یاد رہے بچے اشیا نہیں ہیں کہ انہیں ڈھالا جائے۔ وہ انسان ہیں۔ انہیں کھولا جائے، انہیں سمجھا جائے ان سے محبت کی جائے۔ بچوں کو سانچوں میں ڈھالنا بند کریں۔ انہیں محبت کریں۔ آپ خود اچھے بن جائیں کہ انہیں رول ماڈل چاہئیے ہیں نقاد نہیں۔ آپ ان کے آئیڈیل بن جائیں۔ سوچیں، سمجھیں کہ بدلاؤ کی ضرورت آپ کو ہے۔ اچھا انسان بنانا چاہتے ہیں، بامہذب دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو اس کے لیے خود کو بدلنا ہوگا نہ کہ انہیں بدلنا ہوگا۔ اچھی تربیت تب ہی کر سکیں گے جب خود تربیت یافتہ ہوں گے ۔ ازراہ کرم بچوں کو سمجھیں۔ ان کی قیمتی جانیں بچائیں۔ زندگیاں بچائیںجو کہ داؤ پے لگی ہیں۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں