ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے

دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال ہو یا پھر موسمی تغیرات ہر پل ہمارے ہاتھوں میں موجود موبائل پر موصول ہوتی رہتیں ہیں اور ہم معمول کے مطابق اپنے معمولات زندگی میں انکے ساتھ مشغول رہتے ہیں ۔ ہر فرد کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے سنائی دیتے ہیں کہ انسان بے حس ہوچکا ہے ۔ جہاں اس بے حسی کے بہت سارے محرکات ہوسکتے ہیں انہیں میں سے ایک اہم سبب یہ سماجی میڈیا بھی ہے ۔ وقت سے پہلے آگاہی فراہم کرنے کا سب سے بڑا آلہ کار یہ سماجی میڈیا ہے ۔ ایک وقت تھا حادثے اورسانحے کبھی کبھا ر ہوتے تھے اور انکی خبریں قسطوں میں موصول ہوتی تھیں جو ایک مسلسل سوگ کی کیفیت سے دوچار رکھتی تھیں ۔ لوگ آج بھی حساس ہیں لیکن حادثات اور سانحات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ایک کیفیت میں رہنا ممکن نہیں ہے ۔

ہمارے ملک کی سیاسی صورتحال ہو یا پھر معاشی ہر فرد اپنا اپنا نقطہ نظر رکھتا ہے اور اسے صحیح سمجھتے ہوئے ، صحیح ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔ اپنے نظرئیے پر بہت زیادہ بھروسہ کرلیتا ہے تو ایک سیاسی یا مذہبی جماعت کی بھی داغ بیل ڈالنے سے گریز نہیں کرتا ۔ انفرادیت کی وجہ سے آج تک پاکستان اپنے بنیادی نظریات حاصل نہیں کرسکا ۔ یہ بحث آج سے سترزائد سالوں کے بیت جانے کے بعد بھی جاری ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا تھا یا پھر لبرل اور سب سے بڑھ کر ہم آج تک قائداعظم محمد علی جناح کے مذہبی عقائد پر بھی شکوک و شباہت کے شکار ہیں ۔ ہم اس بات کو خاطر میں رکھے بغیر کہ کس نے کیا عملی کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہے اسکی نجی زندگیوں میں تانک جھانک کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ ہم تو سماجی میڈیا پر اچھے بھلے انسان کو خود کشی تک کرنے پر مجبور کردیتے ہیں ، مزے کی بات یہ ہے کہ ہر فرد ہی دوسرے سے یہ توقع کرتا ہے کہ اسے عزت دی جائے جبکہ خود وہ کسی کو عزت دینے کو تیار نہیں دیکھائی دیتا ۔ یہ مضمون سماجی میڈیا پرتو نہیں ہے ۔

سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ سابق آرمی چیف اور صدر جناب جنرل پرویز مشرف صاحب نے لگایا تھا ، اس نعرے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس دور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ امریکہ افغانستان پر فوج کشی کرنے کو تیار بیٹھا تھا اور پاکستان کی ہاں کا منتظر تھا اور اس ساری صورتحال میں یہ نعرہ سب سے پہلے پاکستان وجود میں آیا ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس وقت تک پاکستان کی کیا اہمیت تھی کیا پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاست دان نے اس قسم کا نعرہ لگایا تھا یا کبھی ایسی کسی بات کا تذکرہ کیا تھا۔ یقینا کچھ سیاسی ذہن اس بات کا جواب یہ دینگے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے حالات ہی نہیں رہے ۔ توجناب پاکستان تو ہمیشہ سے ہی ایسے حالات کی زد میں رہا ہے ۔

عام آدمی کو بھی کسی ایسی سوچ کی جانب بھٹکنے نہیں دیا گیا، بس پیسے کھلاتے جائو اور من چاہے کام کراتے جائوکے فارمولے کو پاکستان میں عام کردیا گیا اور یہ فارمولہ ایسا کار گر ثابت ہوا کہ ملک بدعنوانی نامی کینسر کے مرض میں مبتلہ کر دیا گیا ۔ پاکستان شائد دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہوجہاں بدعنوانی کا تناسب زیادہ ہے ۔ پاکستانی عوام کو یہ سمجھنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا کہ کوئی کام بغیر رشوت کے بھی ہوسکتا ہے جسکی وجہ تعلیم کا عام نہ ہونا ہے، خصوصی طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے، یہی اس بات کا سبب ہے کہ حکمرانوں کی کارگردگی اچھی ہو یا نہ ہولیکن وہ ہر بارہ ہی منتخب ہوکر ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ پاکستان میں کتنے ہی ایسے سیاستدان ہیں جو جدی پشتی ایوا ن میں بیٹھے رہے ہیں انکے علاقے بدترین صورتحال سے دوچار ہیں لیکن ان ہی علاقوں میں انکی نجی رہائش گاہوں کو دیکھ لیجئے کسی شاہی محلات سے کم نہیں ہیں ۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ان بوسیدہ نظام کے پیروکاروں نے ہمیں غریب عوام کو کچھ نہیں دیاسوائے دھوکے کہ ۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی حق بات نہیں کہتے بلکہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے ایک کونے میں دپک جاتے ہیں۔ اس بات کو بہت اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ہم اب بھی نہیں سمجھے تو معلوم نہیں کتنے ہی کلبھوشن یادیو پاکستان میں اپنے ناپاک عزائم لئے چھپے بیٹھے ہیں اور وقت کے منتظر ہیں ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں