أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُول

“اس کی ڈیمانڈ ہے کہ تم داڑھی شیو کر لو تو  ہی وہ شادی کرے گی”، عمر کی امی اس کے قریب آ بیٹھی تھیں۔عمر کو یہ خبر سن کر دھچکا سا لگا۔ ساتھ ہی دل پر تکلیف کا ایک بھاری بوجھ آن گرا،

“کیا؟؟؟یہ سعدیہ نے کہا۔۔؟؟”، اسے جیسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ شادی کو صرف ایک ہفتہ رہ جانے پر  منگیتر کی طرف سے ایسی بات سننا۔۔ اور وہ بھی اس حال میں کہ اب دل میں جگہ بن چکی ہو، محبت سی محسوس ہونے لگی ہو۔۔ تکلیف کا عالم نا قابل بیان تھا۔”ہاں بیٹا، مجھے بھی یقین نہیں آ رہا تھا، اس لیے خود اس سے پوچھ کر آ رہی ہوں۔

میری مانو تو اس کی مان لو۔ اس میں کیا ہے ، ایک داڑھی کی تو بات ہے۔ آج کل تو لوگ دو ٹکے کی نوکری کے لیے بھی داڑھی چھوڑ دیتے ہیں، تمہاری تو پوری زندگی کا سوال ہے بیٹا۔ اتنی اچھی لڑکی ہے، پڑھی لکھی، خوبصورت ، جوان، اچھا خاصا خاندان ہے، خود وہ ڈاکٹر ہے، اور کیا چاہیے۔۔ اب ضد نہ کرنا بیٹا”، سارہ صاحبہ بیٹے کو سمجھانے لگیں۔پہلے منگیتر، اب ماں۔۔ اور کس کس کا مقابلہ کرنا تھا۔ عمر کا صدمے سے حلق گھُٹنے لگا تھا۔

“امی جان۔۔ جب اس نے مجھے پہلے قبول کیا تھا تو اس داڑھی کے ساتھ ہی کیا تھا۔ آج اگر ڈاکٹر بن کر اس کی سوچیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں”، دل غم سے چُور چُور تھا۔”ایک طرف دل ہے، اور دوسری طرف ایمان۔۔

ایک جانب دنیا قدموں میں ہے، اور دوسری جانب اللہ۔ایک رستہ دل پسند زندگی کی طرف جاتا ہے، اور ایک ہجر کی تنہائیوں کی طرف۔۔”، عمر سُنسان پارک میں بیٹھا خود سے مخاطب تھا۔ آج بہت بڑا امتحان لے لیا تھا اس سے اس کے رب نے۔ آج پتا چلنا تھا جو دین دین کے نعرے لگانے والا عمر تھا وہ واقعی دل سے ایمان لایا تھا یا رب سے محبت کے سارے دعوے کھوکھلے تھے۔

عمر کے ذہن سے پرانی، خوبصورت یادیں گزرنے لگیں۔ وہ جب پہلی بار سعدیہ کے گھر گئے تھے۔ جب رشتے کے لیے ہاں ہوئی تھی۔ دوستوں کا شادی کی خبر پر چھیڑ چھاڑ، ہنسی مزاق۔۔۔

عمر کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔

“ایک داڑھی کی بات نہیں ہے۔۔

میری پوری آخرت کی بات ہے۔۔”، پلکوں پر کچھ قطرے نمودار ہوئے۔

“اللہ اکبر، اللہ اکبر۔۔”، قریبی مسجد سے اذان گونجنے لگی۔

“اللہ اکبر۔۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔۔

اف !! بےشک اللہ سب سے بڑا ہے، سب سے پہلے بھی ہے، اور سب خواہشات سے اوپر بھی ہے۔۔”،عمر دل ہی دل میں بےاختیار کہہ اٹھا۔

“آج مجھے بھی ایک بدر لڑنی ہے۔۔ ایک اُحد پر قربان ہونا ہے۔۔۔ پر میری باری میں میدان میرا دل بنا ہے۔ہر خواہش قربان ہے تُجھ پر میرے محبوب۔۔ اس دل پر آج میں خود چھُری چلا دوں گا۔۔”، دُکھ سے آواز رند گئی

 تم کیا جانو کہ ادائے ابراہیمی کیا ہے

رب کی رضا کی خاطر خود کا دل دُکھا دینا ۔

(ایک سال بعد۔۔)

“آئیں نا پہلے کھانا کھا لیں پلیز۔۔”، آمنہ محبت سے اپنے شوہر سے گویا تھی۔

“ابھی ایک گھنٹے تک کچھ نہیں کر سکتا آمنہ، آج واقعی بہت کام ہے”، عمر نے لیپ ٹاپ تھوڑا اور قریب کرتے ہوئے جواب دیا۔

“۔۔میں نے بھی ابھی تک کچھ نہیں کھایا کہ آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گی۔۔”، آمنہ نے کچھ دیر خاموشی سے پاس بیٹھنے کے بعد دھیمی سی آواز میں کہا۔

“کیا۔۔؟ ارے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔؟؟”، عمر نے سب کام چھوڑ کر اپنا رُخ پوری طرح اپنی بیوی کی جانب پھیر لیا۔

“۔۔اور اب بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔”، آمنہ نے سوال نظر انداز کرتے ہوئے دُکھی سا منہ بنایا۔

“ہاہاہا۔۔ “، عمر اپنی ہنسی نہ روک سکا۔

“حیرت ہے میڈم کو تو ایک منٹ بھوک برداشت نہیں ہوا کرتی، آج تین گھنٹے کیسے گزار لیے؟؟”

آمنہ بھی مسکرا دی۔ “لگاؤں پھر کھانا؟”

“جی جناب، ملکۂِ عالہ بھوکی ہوں اور ہم خیال نہ کریں، ایسا ممکن ہے بھلا؟”، عمر شرارتاً اس سے گویا تھا۔ لیپ ٹاپ اب بند کر چکا تھا اور چارجر اتار کر واپس رکھ رہا تھا۔

آمنہ شرماتی آنکھوں سے ہنستے ہوئے کچن کی جانب چل دی۔

سعدیہ کے ٹھکرا دینے کے معاملے کو ایک سال بِیت چکا تھا۔ عمر نے سُنت اور اپنی منگیتر میں سے سنت کو چُنا تھا۔ اس فیصلے پر وہ دنیادار لوگوں کی نظر میں بےوقوف ترین ٹھہرا تھا، اپنوں، حتٰی کے والدین تک کے طعنے اور گالیاں سنی تھیں ، اور خاندان والوں کی باتیں الگ۔۔

*خاندان والے کتنی باتیں بنائیں گے۔۔ داڑھی جب تک ہے کوئی اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔۔ تم نے تو ذلیل کر دیا ہے بوڑھے ماں باپ کو اپنی ضد کی خاطر۔۔* وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں پورا ایک سال اکیلا ہی سنتا رہا۔ جس کا جو دل میں آیا کہتا رہا۔ لیکن عمر کا فیصلہ ایک دن کے لیے بھی نہ بدلا۔ ہاں تکلیف تو بہت ہوتی تھی ایسے رویوں سے لیکن اللہ کا قرآن اور ذکر ایسی چیزیں تھیں جس سے  اس کی ہمت بنی رہیں۔ سچ ہے نماز اور ذکر نہ ہو تو انسان تو پاگل ہی ہو جائے۔

اللہ نے ایسے صبر پر استقامت بھی پھر کمال کی عطا کر دی تھی۔ حقیقی بات ہے کہ وہ رب اپنی خاطر اُٹھے انسان کو کبھی مرنے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑ دیتا۔ لیکن اس درجے  پر پہنچنے کے لیے پہلا قدم خود اُٹھانا پڑتا ہے۔ ثبوت دینا پڑتا ہے کہ واقعی آپ کے لیے اللہ ہی سب سے زیادہ قیمتی ہے۔۔ اس کے بعد ڈرپوک سے ڈرپوک ترین انسان کا دل بھی پہاڑ کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے۔ اسے وہ مضبوطی عطا کر دی جاتی ہے جو اس کے قدموں کو رب کے رستے پر جما دے ، اس طرح کہ پھر کتنی ہی سخت ہوائیں چلیں اسے گرا نہیں سکتیں، اسے رستے سے ہٹا نہیں سکتیں۔۔

پھر اس راہ پر صرف دکھ ، تکلیف اور محرومیاں ہی نہیں ملتیں بلکہ انسان وقتاً فوقتاً انعام سے بھی نوازا جاتا ہے۔۔ جیسے آج عمر کو نوازا گیا تھا۔ عرصے کے گھُپ اندھیروں اور طوفانوں کے بعد اسکی کشتی کو بھی کنارے لگا دیا گیا تھا۔ اسے آمنہ جیسی ایمان والی، محبت کرنے والی، شرم و حیا والی ایک پردہ دار، خوبصورت بیوی عطا کر دی گئی تھی۔ سعدیہ کو اللہ کے لیے کھو دینے پر اس کو دنیا میں ہی حور سی بیوی دے دی گئی تھی۔ عمر کو کبھی کبھی لگتا تھا جیسے اللہ نے اس کے تمام احساسات کو سمیٹ کر انہیں ایک انسان کا رُوپ دے دیا ہو، آمنہ کے نام سے۔ جیسے حقیقتاً وہ کوئی انسان نہ تھی بلکہ عمر کی ضرورتوں کا جوابی عکس، اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک، اس کی روح کا سکون۔۔

جب کہ دوسری جانب، سعدیہ، اسے ٹھُکرا دینے پر آج بھی کنواری بیٹھی تھی۔

وہ شاید بھول گئی تھی کہ جسے ایک داڑھی سمجھ کر ٹھکرا  رہی تھی، وہ محض ایک داڑھی نہ تھی، بلکہ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ اصل میں توہین اس نے عمر کی نہیں بلکہ اللہ اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کی تھی۔ اور یہ کوئی چھوٹا جُرم نہیں تھا۔ سعدیہ کی طرح آج کتنے ہی نام نہاد مسلمان داڑھی، پردہ، ٹخنوں سے اوپر پائنچے اور دین کی دوسری کئی باتوں کے لیے کتنے آرام سے نفرت آمیز رویے کا اظہار کرتے رہتے ہیں، ان پر عمل کرنے والوں کا مزاق اُڑاتے رہتے ہیں۔۔ یہ سوچے بِنا کہ ان کا یہ سب کرنا ان کو تباہی کے کس گڑھے میں پھینکتا جا رہا ہے، انھیں تباہ و برباد کرتا جا رہا ہے۔۔ زندگی سے سکون ایسے ہی نہیں چھِن گیا ایسے لوگوں کے !

نبی کے صحابہ کے رستے پہ چل کے

دلوں کا سکوں ہم نے حاصل کیا ہے

لگا ہے نشہ جب سے جنت کا ہم کو

اُچاٹ اپنا جی اس جہاں سے ہوا ہے۔

جواب چھوڑ دیں