”قومی اعزازات”

حکومت پاکستان نے اس سال بھی مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو قوی اعزازات سے نوازا ہے ۔یہ سرکاری ایوارڈز بھی خوب ہیں ۔اخبارات میں جب اعزازات حاصل کرنے والوں کے نام شائع ہوتے ہیں تو تقریباً اسی فیصد ناموں کے حوالے سے لوگوں کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ یہ شخصیات ہیں کون اور انہوں نے کیا کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔کبھی اس اعزاز کا مستحق مہوش حیات صاحبہ کو ٹھہرا دیا جاتا ہے ،جن کی ”قومی خدمات” آج تک قوم ڈھونڈ رہی ہے اور جو افراد واقعی ان ایوارڈز کے حق دار ہیں،وہ اس ”فن” سے ناآشنا ہیں ،جس کے ذریعہ یہ اعزاز وہ اپنے نام کرسکتے ہیں ۔اس لیے زیادہ تر ”مستحقین” بغیر کسی تمغے کے ہی زیر خاک چلے جاتے ہیں ۔

ملک میں ”تبدیلی سرکار” آنے کے بعد عوام کی مشکلات میں جس طرح اضافہ ہوا ہے ،اس کے بعد میں حکومت کو یہ تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان اعزازات کے شعبوں میں اضافہ کرے ۔خصوصاً کراچی کے شہریوں کے لیے کچھ ایوارڈز کا اجراء  انتہائی ضروری ہے ۔سب سے پہلے شہرقائد کے باسیوں کے لیے ایک ”تمغہ صبر” ہونا چاہیے ،جو ان کو ”قاتل الیکٹرک” کے ظلم و ستم کو برداشت کرنے پر دیا جانا چاہیے لیکن اس میں مسئلہ یہ آڑے آئے گا کہ اس کے حق دار کراچی کے دو کروڑ سے زائد شہری ہوں گے ،اس لیے یہ کسی ایک شخص دینا ناممکن ہوگا ۔میری ناقص رائے ہے کہ حکومت پاکستان کراچی کے شہریوں کو مشترکہ طور پر اس ایوارڈ سے نوازے ۔کچرے کے ڈھیر پر زندگی گزارنے پر کراچی کے عوام ”ستارہ جرات” کے حق دار بھی ٹھہرتے ہیں ۔اس کے لیے چند پوش ایریاز کو نکال کر دیگر علاقوں کا انتخاب کیا جائے اور جس علاقے میں سب سے زیادہ گندگی ہو ،وہاں رہائش پذیر افراد کو اس اعزاز سے نوازا جائے ۔

کہتے ہیں کہ کراچی میں کبھی ٹرام بھی چلتی تھی ۔یہاں کے شہری ڈبل ڈیکر بسوں کی سواری سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے اور سرکلر ریلوے کا ایک نظام بھی موجود تھا ۔حکمرانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے پہلے شہری ٹرام سے محروم ہوئے ،ڈبل ڈیکر بسوں کا سفر کھٹارا بسوں پر ختم ہوا اور سرکلر ریلوے کا نظام کرپشن کے بوجھ تلے دب گیا ۔کہتے ہیں کہ جب اس شہر کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم تھی اس وقت یہاں بسوں کے لاتعداد روٹس  تھے اور اب جبکہ یہ یہاں کے نفوس دو کروڑ سے بھی زائد ہوچکے ہیں تو گنتی کی چند بسیں ان کا بوجھ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں ۔سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں ایئرکنڈیشنڈ ”گرین بسیں”متعارف کرائی گئیں ،جوشہریوں کے لیے ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح تھیں ۔یہ بسیں شہر کی سڑکوں پر رواں دواں تھیں کہ نعمت اللہ خان کا دور نظامت اختتام پذیر ہوگیا اور شہر کے ”وارثوں” کے ہاتھوں میں مقامی حکومت آگئی ۔بر صغیر کو تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے لوٹا تھا لیکن شہر قائد کی بدقسمتی سے یہ رہی کہ یہاں کے نام نہاد ”وارثوں” نے اس بے دردی سے شہر کو لوٹا اور ظلم کیا کہ ”چنگیز” سے لے کر ”ہلاکو” تک عالم ارواح میں  دہائیاں دینے لگے کہ خدا کے لیے ہمیں ظالم کہنا چھوڑ دو ۔کراچی کے نام نہاد ”وارثوں” کی ان ”خدمات” کے صلہ میں میری حکومت سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ان کو ”تمغہ ظلم و جبر” سے نوازا جائے جبکہ جس طرح کی سفری سہولیات سے اہل کراچی مستفید ہورہے ہیں ،اس کے لیے ”تمغہ استقامت” کا اجراء کیا جائے ۔

”پولیس گردی” تو ویسے پورے ملک میں ہی مشہور ہے لیکن کراچی اس کا خاص نشانہ ہے ۔یہاں کے پولیس اہلکار ایک خاص ہی رعب و دبدبے کے مالک ہیں ۔کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا خمیر دنیا کے پہلے ”جلاد” سے نکلا ہے ۔یہ شہریوں کو بلاوجہ ”پار” لگاکر ترقیاں بھی پاتے ہیں ۔لوگوں کو بلاجواز گرفتار کرکے ہزاروں روپے رشوت وصول کی جاتی ہے ۔سڑکوں پر ناکے لگائے جاتے ہیں ،جہاں اہل کراچی کی جیبیں خالی کرائی جاتی ہیں ۔کراچی پولیس کا خاصہ یہ ہے کہ جس علاقے میں جتنے ناکے ہوں گے وہاں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں اتنی ہی زیادہ ہوں گی ۔بھتہ خوری سے لے کر اغواء برائے تاوان تک کوئی ایسا جرم نہیں ہے جس میں ہماری پولیس کے اہلکار سہولت کار نہیں ہیں ۔پولیس والوں کے پاس تشدد کو تو ایسے نت نئے طریقہ کار ہیں کہ ظلم بھی شرماجاتا ہے کہ اور دہائی دیتا ہے کہ ”بس کرو”غریب کی جان لوگے کیا ۔پولیس تشدد میں اس ”بید” کا زمانہ لد گیا ،جس پر لکھا ہوتا تھا کہ ”آجا مورے بالما تیرا انتظارہے ”اب جس طرح جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے ،اسی طرح تشدد کا رواج بھی بدل گیا ہے ۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ پٹرول کے انجکشن سے لے کر ”چیرا” تک ہماری پولیس کی ایجاد ہے ۔پولیس کی ان خدمات پر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ انہیں ”تمغہ تشدد” کا حق دار ٹھہرایا جائے جبکہ ظلم و جبر کا نشانہ بننے والے کراچی کے شہریوںکو ”تمغہ برداشت” سے نوازا جائے ۔

ہوسکتا ہے کہ اہل کراچی کے لیے میری جانب سے دی جانے والی یہ تجاویز حکومت وقت کے لیے محض ایک مذاق ہوں لیکن اگر آپ اس شہر بے اماں کے باسی ہیں تو آپ یقیناً میری تجاویزسے اتفاق کریں گے ۔یہ کوئی مذاق نہیں ظلم ،جبر اور ڈھٹائی کی وہ داستان ہے جس کو شہر قائد کے عوام تین دہائیوں سے برداشت کررہے ہیں ۔کوئی بھی تو ان کے درد کا درماں بننے کو تیار نہیں ہے ۔جو خلوص کے ساتھ شہر کی خدمت کے لیے باہر نکلتے ہیں ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ۔حکمران کراچی کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو ان ”اعزازات”سے تو نواز سکتے ہیں ؟؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں