دوسروں کی جانب دیکھنا چھوڑیں

اپنے بچپن میں ایک کہانی سنی تھی جس میں ایک “نکھٹو کوا” ہوا کرتا تھا۔ جب بھی ایک نیک دل چڑیا اس سے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے کسی کام کا کہتی تو اس کا ایک ہی جواب ہوتا “تو چل میں آتا ہوں، چلم تمباکو پیتا ہوں، آم کی ڈالی پے بیٹھتا ہوں، دو آم کھٹے میٹھے کھاتا ہوں”۔ چڑیا سارا سارا دن اپنے آئے مشکل وقت کا مقابلہ کرنے کیلئے منصوبہ بندی، زمینوں کی خریدوفروخت، اس کی آبیاری، فصل کی نگرانی، کٹائی، اور گھائی کرنے جاتی اور ہر روز کوے کو اس کام میں شریک بنانے کا کہتی مگر ہر مرتبہ نکھٹو کوے کا ایک ہی جواب ہوتا کہ “تو چل میں آتا ہوں، چلم تمباکو پیتا ہوں، آم کی ڈالی پے بیٹھتا ہوں، دو آم کھٹے میٹھے کھاتا ہوں”۔ یہی حال دنیا بھر کے مسلمانوں کا ہو کر رہ گیا ہے کہ وہ ہر مشکل کی گھڑی میں خود مقابلہ کرنے کی بجائے دوسرے (بظاہر) ہمدرد ممالک کی جانب دیکھنے لگتے ہیں اور اگر ان کی جانب سے ہلکی سی بھی حمایت کی آواز سنائی دے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے ملک کی فوج ظفر موج کے ہمراہ دوڑے چلے آئے ہیں اور اب ان کا دشمن نیست و نابود ہو کر رہ جائے گا۔ میں دوسرے مسلم ممالک کے متعلق تو کچھ زیادہ نہیں کہونگا کیونکہ ان میں سے ننانوے فیصد وہ ممالک ہیں جو اتنے عیش کوش ہوچکے ہیں کہ ہل کر پانی پینا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، اس لئے کہ اللہ نے ان کو دولت ہی اتنی دی ہوئی ہے کہ وہ اپنے تئیں اس فریب میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنی دولت کی کثرت سے دنیا کا ہر عیش و آرام خرید سکتے ہیں بلکہ وہ پوری دنیا بھی خرید سکتے ہیں۔ یہی وہ گھمنڈ اور غرور ہے کہ ان کے بازاروں میں بازار چلانے اور چمکانے والے ان کے ملک کے اپنے افراد کم کم ہی ملیں گے اور اگر ملیں گے بھی تووہ یا تو نہایت غریب طبقہ ہوگا یا پھر نہایت کالے، اس لئے کہ وہ کالوں کے متعلق یہی خیال کرتے ہیں کہ اللہ نے (نعوذباللہ) انھیں ان کی خدمت کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔ جن کی سوچ کی حد یہاں تک ہی ہو ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تلوار بھی اٹھائیں گے، دشمن سے لڑائی بھی کریں گے اور اپنی سر زمین کیلئے جانوں کی قربانی بھی پیش کریں گے، دیوانے کے خواب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔

عرب دنیا کی صورت حال سب کے سامنے ہے جہاں وہ اپنی حفاظت کیلئے یورپ اور امریکہ کی جانب دیکھتے نظر آتے ہیں اور انتہا تو یہ ہے کہ ان ہی کو اپنا نجات دہندہ مانتے اور سمجھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر افسوس کامقام اور کیا ہوگا کہ مقامات مقدس کی محافظت کیلئے بھی ان کے پاس اپنی کوئی فوج نہیں اور وہ مجبور ہیں اس بات کیلئے کہ ان مقامات مقدسہ کی حفاظت کیلئے بھی دوسرے برادر ملکوں سے دستے طلب کریں۔

پاکستان اسلامی دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جس کا اپنا ایک دفاعی نظام ہے، دنیا کی بہترین تربیت یافتہ فوج ہے، دشمنوں سے مقابلہ کرنے کیلئے ہر طرح کا اسلحہ موجود ہے، بری، بحری اور فضائی دستے موجود ہیں، یہاں تک کہ وہ دنیا کی آٹھویں ایٹمی طاقت بھی ہے لیکن اس کے باوجود وہ “عربوں” جیسی خصلتوں کا حامل نظر آتا ہے یعنی اتنا سب کچھ رکھنے کے باوجود بھی اپنے برے وقت میں دوسروں کی جانب مڑ مڑ کر اسی طرح تک رہا ہوتا ہے جیسے دنیا کے وہ ممالک جنھوں نے دولت کے گھمنڈ میں اس بات پر کبھی توجہ ہی نہ دی کہ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت محض دعاؤں سے نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کیلئے تربیت یافتہ فوج، جدید اسلحہ اور جانفروشوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

پاکستان کے پاس ہر قسم کا جنگی سازوسامان ہونے، تربیت یافتہ فوجی دستے ہونے اور بلاشبہ جانفروشوں کے لشکر در لشکر ہونے کے باوجود اگر عربوں جیسی سوچ پائی جاتی ہے کہ ہر مشکل وقت میں مڑ مڑ کر اغیار کی جانب دیکھنا، تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ یہاں کوئی قریشی ہے، کوئی فاروقی ہے، کوئی صدیقی ہے، کوئی عثمانی ہے، کوئی انصاری ہے تو کوئی سید و مولائی ہے۔ جب کثرت سات سمندروں پارکی ہوئی تو سوچ بھی سات سمندروں کے اس جانب کی کیسے ہو سکتی ہے۔

اتنا سازوسامان جنگ اور اعلیٰ تربیت رکھنے کے باوجود ہم یہ دیکھ دیکھ کر یا سن سن کر خوشی سے نہال ہو رہے ہونگے کہ بھارت نے جو کچھ کشمیریوں کے ساتھ کر گزرنے کا منصوبہ بنا یا ہے اور ان پر ظلم و جبر کے مزید پہاڑ توڑنے کی ٹھانی ہے تو اس پر ایران نے یہ کہہ دیا، ترکی کے اردگان نے یہ ارشاد فرمادیا، انڈونیشیا میں جلوس نکلنا شروع ہوگئے، بنگلہ یش میں ریلیوں کا انعقاد ہو گیا اور خود پاکستان میں وزیرستان کے کے پٹھان، اور ملک بھر کے جہادی جتھوں نے تیرو تبر سنبھال لئے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت وقت خود کیا کر رہی ہے؟۔

امریکی صدر جس طرح کا ثالث بننے کا خواب حکومت پاکستان کی آنکھوں میں سجایا اور جگایا تھا، آج اس کی جانب سے امریکی صدر کے مؤقف کو بہت نمایاں کرکے مسلسل نجی و سرکاری ٹی وی پر بڑے فخر سے مسلسل چلایا جارہا ہے اور عوام تک اس انداز میں پہنچایا جارہا ہے جیسے اب پورا امریکہ بھارت پر پل پڑے گا اور کشمیر چند دنوں میں آزاد ہوکر پاکستان کی جھولی میں آ گرے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کو اگر غور سے پڑھا جائے تو وہ نہ صرف سارے کے سارے “لولی پاپ” ہیں بلکہ اس کے بیانات کی روشنی میں سرحدوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو قابو میں کرنا اور رکھنا پاکستان کی ذمہ داری قرار دی جارہی ہے۔

فرماتے ہیں کہ ہمیں بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش ہے، ہندوستان میں انسانی نہیں “انفرادی” خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، حالات کو تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، سب فریق (یعنی دوسے کہیں زیادہ) تحمل کا مظاہرہ کریں اور پھر وہی گھسا پٹا جملہ کہ “سرحد پار دراندازیوں” کو بند کیا جائے۔ ان سارے فرمانوں کو جس انداز سے بہت نمایاں اور خوش ہوکرمسلسل پیش کیا جارہا ہے اس سے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے امریکہ ہمارے حق میں قدم سے قدم ملاکر کھڑا ہے۔ اب یہ حکومت وقت کی خوش گمانی ہے یا عوام میں اپنے ساکھ کو بر قرار رکھنے کی کوشش کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ ہے لیکن اگر صدر ٹرمپ کے ایک ایک فرمان کا جائزہ لیاجائے تو یہ نہ صرف “لولی پاپ” ہیں بلکہ سارے بیانات بھارت کے حق میں جارہے ہیں۔

اس وقت سارا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے بیچ ہے۔ لیکن امریکی صدر کا یہ کہنا کہ “تمام فریق” تحمل کا مظاہرہ کریں، کس جانب اشارہ کرتا نظر آرہا ہے۔ جب تاحال اس متنازع آئینی ترمیم (370 اور اس کی ذیلی شق 35 اے) کا تعلق پاکستان اور بھارت ہی کے درمیان ہے تو “تمام فریق” کہاں سے آ کودے۔ اس بات کو مزید سمجھنے کیلئے ان کے دوسرے فرمان پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جس میں ارشادِ “خلیفہ ابلیس” ہے کہ “سرحد پار دراندازیوں کو بند کرنا ہوگا”۔

آپ نے ایسی بیشمار نظمیں پڑھی ہونگی جس میں ایک “ٹیپ” کا بند ہوتا ہے۔ اس میں ہر دو، تین یا چار مصرعوں کے بعد ایک مصرع کو باربار دہرایا جاتا ہے اور یہی وہ مصرع ہوتا ہے جو پہلے بیان کردہ دو، تین یا چار مصرعوں کے مفہوم کو مکمل کردیتا ہے۔ اگر اس ٹیپ کے بند کو کو پہلے بیان شدہ مصرعوں سے نہ جوڑا جائے تو اس بند کا مفہوم مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر کسی کے حق میں برائی میں یا خوبی میں بہت کچھ لکھ دیا جائے اور آخر میں “لیکن” لگادیا جائے تو پہلے سے لکھی گئیں خوبیوں یا خرابیوں کا مطلب یکسر بدل کر رہ جاتا ہے۔

سب کو تحمل سے کام لینا چاہیے یا سرحد پار کی دراندازیاں بند ہوجانی چاہئیں، کہنے کے بعد اس سے پہلے سارے فرمانِ خلیفہ ابلیس صفر ہو کر رہ جانے ہیں اور یوں پاکستان ہی کو اس ساری صورت حال کا نہ صرف ذمہ دار بنادیا جاتا ہے بلکہ حالات کو معمول پر لانے کی ساری کی ساری ذمہ داری بھی پاکستان کے کاندھوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ ہے وہ ثالثی کردار جس کو ہمارے حاکم وقت نہایت ہنسی خوشی قبول کرکے آگئے ہیں اور اب ان کی خواہش ہے کہ اگر حالات مزید خراب ہوتے ہیں تو ایران جانے، ترکی جانے، افغانستان جانے، مسلم امہ و ممالک جانیں یا امریکہ جانے، ہم تو ساروں کے تکیوں پر سر رکھے عالم استراحت میں ہی مصروف مشغول رہیں گے اس لئے کہ “اگر جنگ ہوئی اور اس کا فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو پھر کیا ہوگا”؟۔

بھارت سے سفارتی تعلقات توڑے جارہے ہیں، تجارت بند کی جارہی ہے، فضائی حدود پر پابندی لگائی جارہی ہے اور اسی قسم کے بیشمار اقدامات “لولی پاپ” کے علاوہ اور کچھ نہیں اس لئے کہ اس قسم کے اقدامات کی سنچیریاں ہو چکی ہیں۔ یہ سب خلیفہ ابلیس کی منصوبہ بندی کے عین مطابق ہو رہا ہے یعنی “سرحدپار” دراندازی کے ہر خطرے کو ٹالنا، عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنا جس کا سب سے بڑا ثبوت حافظ سعید کی گرفتاری اور جہادی تنظیموں پر دورہ امریکہ سے قبل پابندیاں لگانا جیسے اقدامات ہیں۔ رہی بات بھارت پر مختلف پابندیوں کی تو پہلے بھی لگا کر اٹھالی گئی تھیں سو اِدھر عوام کے جذبات ٹھنڈے ہوئے اُدھر پابندیان ہٹالی جائیں گی۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔

دوسرے پر تکیہ ختم ہوگا تو پاکستان کچھ بن سکے گا ورنہ

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں