مولانابھی سرکارکے مہمان

اکثرلوگ اسے سیاسی ماما کہتے ہیں لیکن ہم انہیں ،،سیاسی دائی،،کے نام سے جانتے ہیں ۔ ایک دائی کواپنے کام اورشعبے میں جتناتجربہ ہوتاہے اس سے بھی کہیں زیادہ ہمارے یہ ،،سیاسی دائی ،،سیاست اوراہل سیاست کے بارے میں معلومات اورتجربہ رکھتے ہیں ۔یہ سیاسیوں کے شکم پرایک نظرڈال کرہی ایک اسپیشلسٹ ڈاکٹراورکسی ماہردائی کی طرح اندرکی خبراوراحوال فوری طورپر بتادیتے ہیں ۔شہراقتدارمیں قیام کے دوران ہماری اکثرشامیں ان کے سائے میں گزرتیں ۔میٹرک میں وہ خودتین بارفیل ہوئے لیکن باتوں میں بڑے بڑے پروفیسر،انجینئر،ڈاکٹراورسیاستدان ان کے سامنے فیل ہوجاتے ہیں ۔وہ پیپلزپارٹی کے جیالے ہیں نہ مسلم لیگ ن کے متوالے۔مولانافضل الرحمن کووہ سیاسی امام مانتے ہیں نہ ہی سراج الحق کے وہ کوئی مریدہیں ۔ اے این پی کے وہ کوئی دیوانے ہیں اورنہ ہی کپتان کے کوئی کھلاڑی۔ایم کیوایم سے انہیں کوئی لیناہے اورنہ ہی دیگرچھوٹی موٹی سیاسی پارٹیوں سے کوئی دینامگراس کے باوجودہرسیاسی ٹیم کی پلاننگ،منصوبے اورہرسیاسی پلیئرکے کھیلنے کے اندازسے وہ بخوبی واقف اوراچھی طرح آشناء ہیں۔شہراقتدارسے ناطہ توڑنے کے برسوں بعدہماری ان سے ملاقات ہوئی۔ملک کے موجودہ سیاسی اورمعاشی صورتحال کے حوالے سے ہماری طرح وہ بھی کافی فکرمندنظرآئے۔ہمارے اس سوال پرکہ آگے کیاہوگا۔۔؟اس نے ایک سردآہ بھری پھرگویاہوئے۔اللہ کرے جوبھی ہوملک وقوم کے لئے اچھاہولیکن حالات اورکچھ لوگوں کے ماتھوں کے تیور بتارہے ہیں کہ کچھ اچھاہونے والانہیں ۔ہمارے ان سیاسیوں نے ملک کے ساتھ ہردورمیں کھلواڑکھیلااوریہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اس وقت جب ملک ایک نازک صورتحال سے گزررہاہے آج بھی ہمارے یہ سیاسی مفادات کاگیم کھیلنے میں مصروف ہیں ۔ملک وقوم کی کسی کوکوئی فکرنہیں لیکن اپنے سیاسی مستقبل پرسب کی نظرہے۔ جس طرح خربوزہ خربوزے کودیکھ کررنگ پکڑتاہے اسی طرح ہمارے موجودہ حکمران بھی سابق حکمرانوں اوران کے آلہ کاروں کودیکھ کررنگ بدلنے لگے ہیں ۔سابق وزیراعظم نوازشریف اورسابق صدرآصف علی زرداری تووہی کاٹ رہے ہیں جوانہوں نے ماضی میں بویاتھالیکن موجودہ حکمرانوں کے رنگ بدلنے کی وجہ سے اب مفت میں ایسے بہت سے لوگ بھی انتقامی تریشرکی زدمیں آکرپھروہ وہ کاٹیں گے جوانہوں نے کبھی بویاہی نہیں تھا۔ہم نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔ہم کچھ سمجھے نہیں ۔وہ بولے ۔اس طرح کی باتیں تم کہاں سمجھتے ہو۔لیکن خیرجب مولاناسرکاری طورپرنوازشریف اورآصف علی زرداری کے امام بنیں گے توپھرآپ خودبخودسمجھ جائیں گے۔ان کی اس بات پرہم چونک سے گئے۔کیامولانابھی گرفتارہوں گے۔۔؟ہاں کیوں نہیں ۔لیکن ان کے خلاف توکوئی کیس ہے نہ کوئی ریفرنس۔۔؟اوراسی وجہ سے مولاناسینہ تان کرکہتے ہیں کہ کوئی مائی کالعل مجھے گرفتارکرکے دکھائے ۔ہماری اس بات پراس نے ایک زوردارقہقہ لگایاپھرگویاہوئے۔جوزوی صاحب ۔آپ یاتوحددرجے کے سادہ ہیں یاکوئی نادان۔جنگل کے بادشاہ کے لئے کسی کوچیرپھاڑناکیامشکل ہے۔۔؟پاکستان میں حکمران طبقے کے لئے اپنے کسی سیاسی مخالف کواندرکرناکبھی کوئی مسئلہ رہاہے۔۔؟تم ایک کیس کی بات کرتے ہویہاں حکمرانوں کے لئے کسی پر سوسوکیس بنانے کیامشکل۔۔؟راناثناء اللہ جس کیس میں سرکارکے مہمان بنے کیاوہ کیس اس کے خلاف تھا۔۔؟وہ بھی تومولاناکی طرح مونچھوں کوتائودیکھ کرکہاکرتے تھے کہ کوئی مائی کالعل مجھے گرفتارکرکے دکھائیں ۔پھرجس نے گرفتارکرناتھاانہوں نے دن کی روشنی میں گرفتارکرکے دکھایاکہ نہیں ۔سانپ کتناہی شریف اورخوبصورت کیوں نہ ہووہ اپنے بچائوکے لئے دودھ پلانے والے کوبھی ڈنگ مارنے سے کبھی دریغ نہیں کرتا۔مولانااسلام آبادکے بڑوں کوآرام سے بیٹھنے دیں گے توآرام سے رہیں گے ورنہ پھرمولاناکے پاس جیل میں نوازشریف اورآصف علی زرداری کی امامت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہے اورنہ ہی دوسراکوئی راستہ۔مولانافضل الرحمن کی جانب سے اسلام آبادلاک ڈائون،ملین مارچ اوردھرنایہ حکومت کی معصوم اورچھوٹی سی جان پرحملہ ہے اورحکمران ایک سانپ کی طرح اپنے وجودپراس طرح کے کسی بھی حملے کوہرگزبرداشت نہیں کریں گے۔وہ ایک لمحے کے لئے رکے ۔پھربولے۔جوزوی صاحب۔آپ مانیں یانہ ۔لیکن ایک بات یادرکھیں۔مولاناجب بھی حدسے بڑھے پھر حدودمیں قیدکردیئے جائیں گے۔سیاسی دائی کی ان باتوں پرمولانافضل الرحمن کے مریدوں اورشاگردوں کی طرح پہلے ہمیں بھی ہنسی آئی۔کہ کہاں مولانااورکہاں گرفتاری۔۔؟لیکن حال اورحال سے ماضی قریب وبعیدمیں جھانکنے کے بعدہمیں دائی کی باتوں پرہنسنے کی بجائے اپنی عقل،دانائی اورسیاسی دانش پرترس آنے لگا۔نوازشریف اورآصف علی زرداری کے ادوارسے لیکرہماری آج تک کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس ملک میں کبوترکے پرکاٹنے میں توٹائم لگا لیکن سیاسیوں کے پرکاٹنے میں کبھی ایک منٹ بھی نہیں لگتا۔پھروزیراعظم عمران خان توہے بھی اصل کھلاڑی۔جوکام نوازشریف اورآصف زرداری کے لئے مشکل نہیں رہے وہ بھلاعالمی کپ جیتنے والے ایک کھلاڑی کے لئے کیامشکل ہوسکتے ہیں ۔۔؟ یہاں توجال اورمجال والے بھی نہیں بچے پھرمولاناکیسے بچیں گے۔۔؟دائی ٹھیک کہتے ہیں موجودہ حکومت ایک سانپ کی طرح اپنے وجودپرکوئی حملہ برداشت نہیں کرے گی۔دوسروں کوہمیشہ امن،بھائی چارے،تحمل ،برداشت اورصبرکی تلقین کرنے والے مولانافضل الرحمن کی جانب سے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلندکرنایہ واقعی حکومتی وجودپرحملہ تصورکیاجائے گاکیونکہ لاٹھی گولی،ماردھاڑاورتوڑپھوڑکی سیاست پرہمیشہ لعنت بھیجنے والے مولانانے جس دن ڈنڈااٹھاکراسلام آبادکارخ کرلیاوہ حکومت کاآخری دن نہ بھی ہواحکمرانوں کے لئے ایک خوفناک دن ضرورثابت ہوگا۔اسی وجہ سے حکمران مولاناکے معاملے میں نہ غافل ہے اورنہ ہی لاپرواہ۔لوگ تونوازشریف اورآصف زرداری کی باتیں کرتے تھے لیکن مولاناتوحکومت کے لئے نوازشریف اورزرداری سے بھی بڑی مصیبت بن چکے ہیں۔حکمرانوں کواچھی طرح اندازہ ہے کہ جس دن بھی مولانا امن،بھائی چارے،تحمل ،برداشت اورصبرکی لائن سے ذرہ بھی آگے نکلے وہ ان کے لئے دنیامیںقیامت کاایک دن ہوگا۔اس لئے حکمرانوں کوجس دن یہ محسوس ہواکہ مولاناباتوں اورناکوں سے نکل کرسچ میں اسلام آبادکارخ کررہے ہیں تووہ پھرمولانافضل الرحمن کاجیل سے باہرآخری دن ہوگا۔حالات اورواقعات بتارہے ہیں کہ مولانابڑوں کوچین وسکون سے رہنے دیں گے توخودچین وسکون سے رہیں گے ورنہ پھران کے خلاف کوئی کیس اورریفرنس ہوگا یانہیں ۔انہیں ہرحال میں اندرجاناہی پڑے گا۔اپوزیشن جماعتوں نے سیاسی امامت کی ذمہ داری مولاناکے کندھوں پرڈال کرحکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی توبجادی ہے لیکن دوسری طرف حکومت بھی اس سے غافل نہیں۔اب اپوزیشن کوسبق سیکھانے اوربدلہ لینے کے لئے حکومت مولاناکونوازشریف اورآصف زرداری کاامام بناکرحساب کتاب ضروربرابرکرے گی ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ مولاناکانمبرلگ چکا۔اب وقت اورموقع کاانتظارہے۔جولوگ کہتے ہیں کہ مولاناکوکوئی ہاتھ بھی نہیں لگاسکتاوہ ہماری طرح ماضی قریب اوربعیدمیں جھانکنے کی بجائے صرف آصف زرداری اورراناثناء اللہ کی مثال ہی دیکھ لیں ۔یہ حکمران بڑے ظالم ہوتے ہیں یہ جب ضد،اناء اورانتقام پراترآتے ہیں توپھران کے لئے ماڈل ٹائون جیسی بے زبان زمین اوراللہ کی معصوم مخلوق کوخون میں نہلانابھی کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ماناکہ مولانانے نوازشریف اورزرداری کی طرح ماضی میں عقل اورانصاف سے متصادم کوئی فصل نہیں بوئی لیکن اب نوازاورزرداری کاساتھ دینے پرمولاناکو وہ کچھ بھی کاٹناپڑے گاجوانہوں نے بویاہی نہیں ۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مولاناکانمبرلگ چکاہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں