ماس-ٹر

محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ“مار نہیں پیار“نوٹیفیکیشن سے قبل ماسٹر(استاد)کو ایسے خطرناک کردار کے طور پرمعاشر ہ میں پیش کیا جاتاتھا کہ جس کو دیکھتے ہی طالب علم کے جسم کا ماس(skin)ٹر،ٹر کرنا شروع کردیتا تھا۔میرا ایک دوست فرخ الحسن بھٹی بچپن سے ہی پختہ عزم کئے ہوئے تھا کہ اسے بڑے ہو کر اس وجہ سے ماسٹر بننا ہے کہ جتنا ماسٹروں نے اسے مارا ہے خود ماسٹربن کربچوں کو مار پیٹ کر اپنا بدلہ لینا ہے،ماسٹر تو نہ بن سکا البتہ محکمہ جنگلات میں آجکل ٹمبر کوخوردبرد کرنے میں کافی ”ماسٹر“ہو گیا ہے۔اپنے ماسٹرپن کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ کیا ہوا درخت کٹوا کے پیچ دیا ایک کی بجائے دس درخت لگواتا بھی تو ہوں،کیا فلسفہ ہے کالے دھن کو سفید کرنے کا،اس کے اسی فعل کو دیکھتے ہوئے میں نے اسے کتنی بار سیاست میں آنے کا مشورہ دیا ہے۔اس کے ماسٹر پن کی ایک مثال ملاحظہ ہوکہ ایک بار جوکالیہ بیلا فاریسٹ میں نئے پودے لگانے کا حکم صادر ہوا،موصوف نے کہیں نئی گاڑی خریدنی تھی تو ظاہر ہے پودے نہ لگوا سکا۔اتفاق سے سیکرٹری فاریسٹ کا دورہ تھا،جناب انہیں گھنٹہ بھر لانچ میں بیلا کے ارد گرد گھماتا رہا،سیکرٹری کے پوچھنے پر کہ کیا تم نے پودے لگوائے بھی ہیں کہ ایسے ہی ہمیں گھماتے جا رہے ہو۔فرخ نے نہائت معصومیت سے جواب دیا کہ سر دریائی علاقہ ہے پانی کا کیا بھروسہ،ہو سکتا ہے کہ دریا کا پانی بہا کے لے گیا ہو۔موصوف برطرف ہوئے اور ماموں کی سفارش سے نوکری پر بحال ہوئے اور انہیں پیسوں سے خرید کردہ گاڑی پر دفتر حاضری دینے پہنچ گئے۔اب آپ ہی بتائیں کہ اس سے بڑا ماسٹر کوئی ہو سکتا ہے۔مگر جس ماسٹر کی بچپن میں فرخ بھٹی بات کیا کرتا تھا اس سے مراد سکول اساتذہ تھے۔وہ تو ماسٹر نہ بن سکا البتہ میں فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ چھوڑ کر دوحہ قطر میں ضرور ایک پاکستانی اسکو ل میں ماسٹربن گیا۔اب میرے پاس سب کچھ ہے ماسوا پیسے کہ کیونکہ فرخ کا کہنا تھا کہ استاد کا کام پیسہ کمانا نہیں یہ کام دیگر”پیشہ ور“لوگوں کا ہے۔جب پیسے کی اہمیت کی سوچ اجتماعیت کی سوچ بن جائے گی تو ماسٹر بھی تو ایسا ہی سوچنے والے ہونگے جیسے کہ ایک گاؤں میں اسکول میں معائنہ ہورہا تھا اور ماسٹر صاحب بچوں کو cupسپ(سانپ) پڑھا رہے تھے انسپکٹر نے اعتراض کرتے ہوئے ماسٹر نے کہا کہ سر یہ سپ نہیں بلکہ کپ ہوتا ہے تو استاد محترم استادی دکھاتے ہوئے بڑے معصومانہ انداز میں گویا ہوئے کہ سر جب تک میری تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی اس وقت تک cup سپ ہی رہے گا۔
ایک بار مجھے ایک طالب علم نے پوچھا کہ سر یہ استاد اور ماسٹر میں کیا فرق ہے تو میں نے جواب دیا کہ ماسٹر و ہ ہوتا ہے کہ وہ جب بچے کو مارے تو ماس ٹر،ٹر ہو جبکہ استاد مارتے ہوئے بھی ایسی استادی دکھا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔میرے ایک استاد محترم تھے جن کے پاس ایک سہراب کی سائیکل تھی وہ ہمیشہ سائیکل کی اتنی ہی حفاظت اور صاف ستھرائی کرتے جتنی کہ اپنی زوجہ کی،کہتے تھے کہ میں نے زندگی میں دو چیزوں سے بہت پیار کیا،بیوی اور سائیکل۔تو پھر سر نوکری کیوں کی؟بولے دوسری شادی کے لئے،اچھا تو پھر دوسری شادی کیوں نہ کی؟جواب دیتے کہ دوسری نوکری نہیں ملی اس لئے۔ماسٹر کی تنخواہ تو اتنی قلیل ہوتی ہے کہ پہلی بھی پندرہ روز میکے میں گزار کر آتی ہے،تب کہیں گھر چلتا ہے۔گھر چلانے کے لئے وہ پندرہ دن سائیکل پر اور پندرہ دن پیدل سکول آتے،ویسے ہی پندرہ دن ان کی بیوی میکے اور باقی پندرہ دن سسرال میں گزارتی،کہتے اتنی تنخواہ میں سائیکل اور بیوی ایک ساتھ رکھنا مشکل ہے۔اپنی آخیر عمر میں اکثر بات کرتے کرتے بھول جاتے تھے اور اکثر بچوں سے پوچھتے اچھا تو میں کیا پڑھا رہا تھا یا پھر اچھا بیٹا آپ کا آج نام کیا ہے۔نسیان کے اس مرض کا علاج اپنے ہی کسی شاگرد ڈاکٹر سے کروا رہے تھے،مہینہ بھر دوائی کھانے کے بعد جب شاگرد ڈاکٹر نے مطمئن ہو کر کہا کہ سر آج سے آپ کو دوائی کی کوئی ضرورت نہیں آپ مکمل صحت یاب ہیں،سنجیدگی و متانت اختیارفرماتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ توسب ٹھیک ہے پہلے تم بتاؤں کہ تم کون ہو؟چائے کا آخری گھونٹ اور سگریٹ آخری کش تک پیتے،فلٹر کے بغیر کبھی سگریٹ نہیں پی ہمیشہ فلٹر بھی ساتھ ہی پی جاتے۔کہتے ماہر سرجن وہ ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ مریض کو بچانے کی کوشش کرے اور ماسٹر وہ ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ مریض پییدا کرے،کوشش کریں کہ ایسے ماسٹر سے کتاب اور بچوں کو دور ہی رکھا جائے،کتاب کا اثر ماسٹر پر ہو نہ ہو ماسٹر کا اثر بچے پر ضرور ہوتا ہے۔میری ایک ہمعصر اکثر کہا کرتی ہے کہ میں ڈبل ماسٹر ہوں عرصہ دراز تک ہم سمجھتے رہے کہ شائد محترمہ نے ڈبل ایم اے کیا ہوا ہے۔مگر ایک روز رازافشاں ہوا کہ موصوفہ نے ہیڈماسٹر سے بیاہ رچا رکھا ہے۔یعنی ایک ماسٹر اوپر سے ہیڈ بھی۔یاد رکھئے کہ ہیڈ ہمیشہ اوپر ہی ہوتا ہے اگر اس میں کچھ ہو (دماغ)،اگر ہیڈ خالی ہو تو سمجھ لیجئے کہ حقیقی معنوں میں ہیڈ ماسٹر ہی ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں