خونِ شہید رنگ لائے گا ان شاء اللہ

انجینیر محمد مرسی، سابق صدر جمہوریۂ مصر کی شہادت کی خبر ملتے ہی زبان پر یہ آیت  جاری ہوگئی:

مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ‌ ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا( الاحزاب :23 )

” ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔  انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ “

         ہاں، انجینیر محمد مرسی !

         ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔

         اس سے جو نذر مانی تھی اسے پورا کردیا۔

          آپ کے رویّے میں زندگی کی آخری سانس تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

          ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا : ” اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں، اس حال میں کہ میں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہو اور صرف اللہ ہی سے اجر چاہا ہو، منھ آگے ہی رکھا ہو اور پیٹھ نہ دکھائی ہو، تو کیا میری خطائیں بخش دی جائیں گی؟” اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :” ہاں” (احمد :8075)

      ہاں، انجینیر محمد مرسی !

      آپ کو اللہ کی راہ میں شہید کیا گیا ہے۔

      آپ نے بے مثال صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔

     آپ راہِ حق پر ڈٹے رہے ہیں۔

     آپ نے پیٹھ نہیں دکھائی ہے۔

    آپ بارگاہِ الٰہی میں سرخ رُو پہنچے ہیں۔

       موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر ایک کو مرنا ہے۔ روزانہ سیکڑوں لوگ طبعی موت مرتے ہیں، لیکن کتنی پُر سعادت موت ہے جو اللہ کی راہ میں آئے اور آدمی کو شہادت کے بلند درجے پر فائز کردے۔

        بیسویں صدی میں دنیا کے مختلف ممالک میں احیائے اسلام کی تحریکیں برپا ہوئیں، لیکن قید و بند اور شہادت کی آزمائشوں کی جو تاریخ مصر کی اخوان المسلمون نے رقم کی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ اس کے بانی کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ اس کے متعدد رہ نماؤں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا، اس کے ارکان کو ہزاروں کی تعداد میں کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ آزمائشوں کا شکار ہونے والوں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، لیکن کسی کے پائے استقامت میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی۔

            آزمائش کا ایک دور محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ چلا جب قانونی طور پر منتخب حکومت کو ایک سال ہی کے اندر 2013 میں معزول کردیا، احتجاج کرنے والے کئی ہزار اخوان مردوں، عورتوں، بچوں اور بچیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا، اخوان رہ نماؤں اور صدر محمد مرسی کو جھوٹے الزامات لگاکر جیل کی سلاخوں میں قید کردیا گیا۔ چھ سال کے اس عرصے میں ان پر بدترین مظالم ڈھائے گئے، بھیانک تشدد کیا گیا، یہاں تک کہ آج اس کی تاب نہ لاکر وہ کمرۂ عدالت ہی میں غش کھاکر گر پڑے اور روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔

             یہ ظالم کیوں نہیں سوچتے کہ اس طرح وہ غلبۂ اسلام کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتے۔ شہیدوں کا خون شجرِ اسلام کو تازگی بخشتا ہے اور حق کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے۔ اخوان کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ان پر ہر کریک ڈاؤن کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اسلام کے لیے مرنے مٹنے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔

         یہ ظالم اتنے بزدل ہیں کہ سچّا الزام لگانے کی بھی ہمّت نہیں رکھتے۔  یہ کہتے ہیں کہ مرسی نے قطر کے ساتھ سازباز کی، اس طرح ملک سے غدّاری کی۔ یہ کہتے ہیں کہ مرسی جیل کی دیواریں توڑ کر قیدیوں کو بہ زور آزاد کرانے کے مجرم ہیں۔ کتنے بودے اور جھوٹے الزام ہیں جو یہ لگا رہے ہیں۔

            یہ ظالم کیوں یہ الزام نہیں لگاتے کہ اخوان اسلام کے علم بردار ہیں، وہ اسلام کی حکم رانی چاہتے ہیں، وہ اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں، وہ ملک کے باشندوں کو اسلام کی تعلیمات پر چلانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ یہ الزامات لگاتے تو ان میں سچے ہوتے، پھر وہ ان پر جو سزائیں چاہتے،  تجویز کرتے۔ لیکن افسوس کہ ان میں اتنی جرأت بھی نہیں ہے۔

      ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :

” بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا،  فَطُوبَى  لِلْغُرَبَاءِ”(مسلم:145)

” اسلام ابتدا میں اجنبی تھا اور ایک زمانہ آئے گا جب وہ پھر اجنبی ہوجائے گا۔  قابلِ مبارک باد ہیں وہ لوگ جو اجنبی سمجھے جائیں۔ “

           آج کل عالمی سطح پر حالات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوا چاہتی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اسلام کا نام لینے والے، اس کا کلمہ بلند کرنے والے، اسے غالب دیکھنے کی خواہش رکھنے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔  ان پر جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں، انھیں جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے، انھیں تختۂ دار پر لٹکایا جا رہا ہے اور انھیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

        لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق یہ قابلِ مبارک باد لوگ ہیں۔ انھیں خوش ہوجانا چاہیے کہ اگرچہ وہ دنیا میں آزمائشوں سے دوچار ہیں، لیکن ان کی آخرت کام یاب ہے۔ وہ بارگاہِ الٰہی میں یقینی طور سے سرخ رُو ہوں گے۔ ان کے لیے جنّت سجائی جا چکی ہے۔

           اے اللہ ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما

     *  جنہوں نے تجھ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔

     *  جو اپنے عہد پر قائم ہیں اور انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔

      *  جنھیں قید کی زنجیریں اور پھانسی کے پھندے ہراساں نہیں کرتے۔

      *   جن سے کہا جاتا ہے کہ تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ پکار اٹھتے کہ ” ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔ “

       * جو اپنے اوپر ‘حملہ آور لشکروں’ کو دیکھتے ہیں تو ان کے ایمان اور خود سپردگی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ علی الإعلان کہتے ہیں کہ ” یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی۔ “

حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں