ناشکری کا عذاب‎

آپ پانی کی مثال لے لیں 1990میں اقوام متحدہ ہمیں “خوف کی لکیر” پر قرار دے چکا تھا ۔ 2005 میں ہم “خطرے کی لکیر” بھی کراس کر چکے ہیں لیکن آپ حکمرانوں سمیت عوام کی بے حسی ملاحظہ کریں۔ جنوبی افریقہ کا دارالحکومت کیپ ٹاؤن بنجر ہوچکا ہے، وہاں فائیو اسٹار ہوٹلز میں بھی محدود مقدار میں پانی فراہم کیا جاتا ہے، شاورز میں ڈیوائسز لگی ہوئی ہیں جو 8 سیکنڈز کے بعدشاور کوخود بخود بند کر دیتی ہیں۔ پورے شہر میں ہر شخص کو 50 لیٹر پانی دن بھر کے استعمال کے لیے فراہم کیا جاتا ہے۔ مزیدیہ کہ 2025 تک جن شہروں میں یہ کیفیت ہونے والی ہے ان میں کراچی اور لاہور سرفہرست ہیں۔

 یہ تماشا اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک ہے۔ جس کے صرف ایک صوبے میں پانچ دریا بہتے ہیں اور جس کا پورا جنوبی حصہ بحرعرب پر واقع ہے۔

 ہم دنیا کی وہ عجیب و غریب قوم ہیں جو سال کے چھ مہینے کا قحط سے مرتے ہیں اور بقیہ چھ مہینے سیلاب سے مرتے ہیں، لیکن مجال ہے جو اوپر سے لے کر نیچے تک کسی کے کان پر جوں رینگ جائے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے سمندر کے ذریعے سے اپنے ملک کی ضرورت کا بڑا حصہ حاصل کر لیا ہے۔

 سعودی عرب

 اسرائیل

 یونان

 برطانیہ اور

 امریکہ

 ان ممالک میں سرفہرست ہیں۔اسرائیل کا 85 فیصد ان کے سمندروں سے پورا ہوتا ہے اور اگلے چند سالوں میں وہ پینے کے پانی کا 50 فیصد اپنے سمندروں سے حاصل کر لیں گے۔ دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک نے اپنے سمندروں  پر ڈی – سیلینیشن پلانٹس لگا لیے ہیں اور وہ سوائے پینے کے تمام ضرورتوں کے لئے سمندر کو فلٹر کیا ہوا پانی استعمال کرتے ہیں۔

 پورے یورپ میں آپ کو گھر بنانے کے لیے حکومت کو پہلے اس بات کی یقین دہانی کروانی پڑتی ہے کہ آپ اپنے گھر میں استعمال شدہ پانی کو استعمال میں لے کر آئیں گے۔ غسل کا،واش بیسن کا اور برتن دھونے کا پانی پہلے مرحلے میں فلٹر ہوکر گھر کے باتھ رومز کے تمام کموڈز کے ٹینکس میں جمع ہو جاتا ہے اور کپڑے دھونے کے لیے بھی کام آتا ہے۔ ادھر سے استعمال ہونے کے بعد پانی ایک دفعہ پھر فلٹرہوتا ہے اور گھر میں موجود باغیچے،کیاریوں، پودوں اور درختوں کو دینے کے کام آتا ہے۔

 برطانیہ نے پانی کو بچانے کے لئے باقاعدہ گھروں میں خصوصی میٹرز لگائے ہوئے ہیں جس پر گھر میں استعمال ہونے والے پانی کی تمام تفصیلات صارف کے سامنے آجاتی ہیں اور وہ پانی کے استعمال میں مزید محتاط ہوجاتا ہے آپ پورے عرب امارات میں کسی ایک بھی جگہ “بورنگ” نامی چیز نہیں دیکھیں گے۔ وہ کئی سو کلومیٹر سے لائن بچھا کر اپنی دور دراز آبادیوں تک کو پانی لا کر دیں گے لیکن بورنگ کی اجازت کسی حال میں بھی نہیں دیں گے۔

 دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ 2004 میں پاکستان میں کل ٹیوب ویلز کی تعداد ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ تھی۔ دنیا کا سب سے بڑا قدرتی نہری نظام رکھنے والے ملک کا کسان اپنی زمین سے پانی نکال کر اپنی ہی زمین پر ڈال رہا ہے۔

اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے؟

 آپ کھانے کی صورتحال دیکھ لیں۔ شادیوں میں کھانے کا منظر کسی “غدر” سے کم نہیں ہوتا۔ اچھے خاصے نام نہاد “پڑھے لکھے” اور برانڈڈ سوٹوں میں ملبوس مرد و خواتین جس طرح کھانے کی توہین اور ناقدری کرتے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہی ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ایک مومن کا کھانا دو کافی ہو جاتا ہے” اور ہمارے پاس 500 لوگوں کے لیے 600 لوگوں کے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ سنا تھا بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے، لیکن “پیٹ بھروں” کو بھی کھانے کے وقت تمیز وتہذیب کچھ یاد نہیں رہتی۔ کاش کہ ہمیں سمجھ آجائے کہ جو نوالہ، جو روٹی اور جو بوٹی آپ کے نصیب کی ہے دنیا کی کوئی طاقت الٹی لٹک کر بھی آپ سے نہیں لے جا سکتی ہے۔پھر کس بات کی ہوس اس قوم کو اللہ کا رزق ضائع کرنے پر آمادہ کرتی ہے میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ شرم کی وجہ سے میں نے شادیوں میں کھانا کھلتے ہیں فور اٹھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ جب پہلا “دستہ” فارغ ہوتا ہے تب میں ٹیبل کے قریب جاتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تین مقامات پر اپنی تین چیزوں کو قابو میں رکھو

1) محفل میں زبان کو

2)  سڑک پر نگاہ کو اور

3) دسترخوان پر ہاتھ کو۔

 میرا ماننا ہے کہ کم از کم شہر کراچی میں رات کو بھوکا وہ شخص سوتا ہے جو خود بھوکا سونا چاہتا ہے۔ ورنہ یہ شہر اپنا دل اور دسترخوان ہر کسی کے لیے کھلا رکھتا ہے۔

 تیسرا بڑا المیہ اس ملک میں بجلی کا ہے۔ آپ حکومت کو گالیاں اور کوسے دے سکتے ہیں۔ آپ کو پورا اختیار ہے کہ آپ کے- الیکٹرک، لیسکو، حیسکو، پیپکو اور واپڈا کو جھولیاں بھر کربددعائیں دیں، لیکن؛

اتنی نہ بڑھا نا پاکیء داماں کی حکایت!

 کچھ نظر کرم من حیث القوم اپنے کرتوتوں پر ڈالئیے۔ خدارا اپنے گریبانوں میں بھی جھانکیں۔ سانحےسے بڑا حادثہ یہ ہے کہ بچے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کی چیزوں کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرتے ہیں، کلاسوں کے پنکھے اور لائٹس کھلے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، کمپیوٹر لیب میں سے بغیر کمپیوٹر آف کیئے نکل جاتے ہیں۔ کیونکہ بقول ان کے ان کے باپ نےان  تمام چیزوں کو “ضائع” کرنے کی فیسیں بھری ہیں۔

 وہ یہ سب اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ موٹر چل رہی ہے پانی مسلسل گر رہا ہے تو نہ کوئی دیکھنے والا نہ پوچھنے والا اور نہ ہی کوئی احساس کرنے والا ہے۔ جس نے جہاں کی لائٹ کھول دی اب بند کرنا اس کی عزت گھٹ جانے کے مترادف ہے۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے لیکن پوری گلی میں کسی “شریف انسان” کو اسٹریٹ لائٹس بند کرنے کی توفیق نہیں ہوتی، کیونکہ ہمیں توکے- الیکٹرک کو گالیاں دینی ہیں۔

 رسول اللہ صلی وسلم نے فرمایا “اگر تمہارے گھر کے سامنے سے نہر بہتی ہو تو اس سے بھی احتیاط سے وضو کرو” بہتے پانی کو بھی ضائع کرنے سے منع فرمایا گیا، لیکن بدقسمتی سے شاذ و نادر ہی کسی منبر و محراب سے ان موضوعات پر بھی کوئی طوطی کی آواز آتی ہو تو کم از کم میرے علم میں تو نہیں ہے۔

 انفرادی طور پر اس قوم کا ایک بڑا حصہ نیکیاں کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر بھلائی کے کاموں پر خرچ بھی کرتا ہے، لیکن بحیثیت مجموعی ہم بالکل تربیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ کبھی حج اور عمرے پرہی “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے لوگوں کے اخلاق اور کردار ملاحظہ کر لیں آپ کو لگ پتا جائے گا۔

 تعلیمی ادارے نمبرز،گریڈز،  پوزیشنز اور ڈگریاں دے رہے ہیں لیکن کردار دینے سے یکسر قاصر ہیں۔ والدین بھاری بھاری فیسیں دے رہے لیکن اخلاقی تربیت اور انسانیت سے سکھانے سے منہ موڑ چکے ہیں۔

 کم از کم میں اور آپ تو پانی کو احتیاط سے خرچ کر سکتے ہیں، ہائیڈرالوپ نامی ٹیکنالوجی دنیا میں موجود ہے صاحب استطاعت لوگ اسے اپنے  گھروں میں انسٹال کرکے پانی کی احتیاط کرسکتے ہیں ،ہم اور آپ اپنی حثیت میں تو کھانے کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ میں کم از کم اپنی پلیٹ کے کھانے کا تو مکلف ہوں۔ میں اپنے گھر، آفس، اسکول، ادارے اور مسجد میں تو بجلی کو بچا سکتا ہوں۔ یاد رکھئے ہمارے اعمال ہی ہمارے حکمران ہوتے ہیں۔ ہم بے حس  ہیں تو ہمارے حکمران اس سے زیادہ بے حس ہیں ۔ہمیں اللہ تعالی کی نعمتوں کا کوئی احساس نہیں ہے تو انھیں اس مملکت خداداد جیسی نعمت کا کوئی احساس نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی کا سیدھا سا اصول ہے کہ “اگر شکر کرو گے تو اور دونگا اور اگر کفر(ناشکری) کیا تو میرا عذاب بڑا شدید ہے” اور اس وقت ہم سب اسی کفر(ناشکری) کے شدید عذاب میں مبتلا ہیں۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں