سیاق و سباق کے بغیر

اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں کہ فی زمانہ میڈیا، خواہ وہ الیکٹرونک ہو یا پرنٹ، اس کا کردار بہت ہی اہم ہوتا جارہا ہے۔ جنگ ہو تو آدھی سے زیادہ جنگ وہ جتوا سکتا ہے، الیکشن ہوں تو کسی کے حق میں بھی فیصلہ تبدیل کرواسکتا ہے اور امن یا بد امنی کی فضا بنانی ہے تو آگ کو گل و گلزار اور گل و گلزار کو شعلوں سے دہکا سکتا ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ مجھے پہلے اتنا نہیں تھا لیکن جب ایک مقتدر ادارے کی جانب سے باقائدہ یہ گزارش کی گئی کہ صرف “چھ” ماہ “مثبت” خبریں دی جائیں تب مجھے اندازہ ہوا کہ توپیں اور طیارے اپنی جگہ، میڈیا کا کردار ان سب سے اتم ہے۔

چھ ماہ تو کب کے گزر چکے لیکن لگتا ہے کہ میڈیا کی دم کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔ یہ تو صرف چھ ماہ کی بات تھی سناہے کہ بارہ سال کے بعد بھی اگر “کسی” کی دم پر پائپ چڑھا کر رکھا جائے تو پائپ نکالنے کے بعد بھی وہ دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔

اب بھلا یہ کوئی مثبت بات ہوئی کہ وہ کسی بھی بڑی سے بڑی قد آور شخصیت کا لحاظ کئے بغیر جب چاہے اس کے بیانات بغیر سیاق و سباق کے عوام الناس کو سنانا شروع کردے۔

سیاق و سباق کے الفاظ آہستہ آہستہ ان لفظوں میں شمار ہونے لگے تھے جن کو “متروک” کہا جاتا ہے۔ یقین مانیں یہ الفاظ تو اس وقت سننے یا پڑھنےمیں آتے تھے جب ہم دور طالب علمی سے گزر رہے تھے۔ امتحانی پرچوں میں کسی مضمون، کہانی، قصے یا کسی افسانے کا کوئی پیرا گراف دیدیا جاتا تھا اور اس سے متعلق پوچھے گئے سوالات میں ایک سوال یہ بھی ہوتا تھا کہ مذکورہ پیرا گراف کا “سیاق و سباق” بھی بتایا جائے۔ وہ زمانہ اور آج کا زمانہ، ہم تو اس لفظ کے معنی و مفہوم ہی بھولے بیٹھے تھے۔ وہ تو بھلا ہو کہ قومی اسمبلی کی ایک تن و مند شخصیت نے ہمیں دورطالب علمی میں پہنچادیا اور یوں لگا کہ وہ شخصیت اسمبلی میں اور ہم کمرہ امتحان میں بیٹھے ہیں۔ ان کو میڈیا والوں، اسمبلی کے ممبران اور اپوزیشن والوں سے شکایت تھی کہ وہ عمران خان کا یہ بیان کہ جرمنی جاپان سے 5 ہزار 5 سو میل کے فاصلے پر ہونے کے باوجود بھی آپس میں سرحدی راستوں سے ملے ہوئے ہیں، بغیر سیاق و سباق کے دہرایا یا سنایا جا رہا ہے۔ ان کی یہ شکایت بلاشبہ بجا تھی اس لئے کہ محبت میں فاصلوں کی کبھی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی۔ کسی شاعر نے شاید اسی “محبت” کے حوالے سے کچھ یوں کہا تھا کہ

اس قدر دور میرے دل سے قریب

یہ کوئی خاص فاصلہ تو نہیں

جرمنی اور جاپان ایک جنگ میں آپس میں دشمن بھی رہے تھے اور ایک جنگ میں اتحادی بھی۔ محبت کب نفرت میں بدل جائے اور نفرت کب قربتوں کو مہکا دے، کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ جس طرح سیاست میں کوئی حرف بھی حرف آخر نہیں ہوتا اسی طرح محبت میں کوئی بھی پیش گوئی ناممکن ہے۔ لیکن ہوا یوں کہ جو جنگ “سیاق” تھی اس کو “سباق” کے ساتھ اور جو سباق تھی اس کو سیاق کے ساتھ خووزیر اعظم خلط ملط کر گئے تو بھلا مبصرین کرتے بھی تو کیا کرتے اس لئے کہ اگر واقعات کو سباق کے ساتھ جوڑتے تو سیاق متاثر ہوتا اور سیاق کے ساتھ جوڑتے تو سباق۔ پھر خود وزیر اعظم کو بھی شاید اپنی غلطی کا احساس ہوا ہوگا تو انھوں نے سیاق کو سباق کے ساتھ جوڑنے کا واحد حل یہی نکالا کہ کیوں نہ دونوں ملکوں کی سرحدوں کو ہی جوڑ دیا جائے۔ بس اسی لئے دو ایسے ممالک جو ایک دوسرے سے ہزاروں میل کے فاصلے پر تھے ان کی سرحدوں کو آپس میں ملادیا گیا۔

عمران خان کے مخالفین جن کے متعلق اسمبلی کی بھاری بھرکم شخصیت کا یہ گلہ ہے کہ وہ خان کی ہربات کو سیاق و سباق کے بغیر ہی بیان کرتے ہیں میرے نزدیک بالکل درست ہے۔ اگر ان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مشرقاً اور مغرباً ایک جانب سے سیاق اگر ساڑھے 5 ہزار میل کا بنتا ہے تو دوسری جانب سے سباق پورے ساڑھے انیس ہزار میل کا بنتا ہے۔ ان دونوں سمتوں کو مخالفین کا یکسر نظرانداز کردینا کسی لحاظ سے بھی مناسب نہیں لیکن نہ جانے کیوں مخالفت کرنے والے یہ طے کرکے بیٹھ جاتے ہیں کہ بات زبان پھسلنے کی ہی کیوں نہ ہو، بجائے اصلاح کرنے کے مخالفت پر ہی کمر بستہ رہنا ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ خان صاحب کی کس کس بات کا سیاق اور کس کس جملے کے سباق کا خیال رکھا جائے۔ مثلاً ایک جانب وزیرخارجہ یہ بیان مع ثبوت کے ایران بھیج چکے ہوں کہ تخریب کاری کی تنظیمیں ایران کی سرزمین سے آپریٹ کر رہی ہیں اور خان صاحب ایران میں ہونے والی تخریب کاری کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرارہے ہوں۔ مودی کے سارے یاروں کو غدار کہہ رہے ہوں اور خود مودی کی کامیابی کو پاکستان کیلئے نیک شگون سمجھ رہے ہوں۔ منظور پشتین کی بغاوتی تقریروں کو اپنے منھ سے چھینے گئے الفاظ کہہ رہے ہوں جبکہ ریاست اس کو غداری کا درجہ دے رہی ہو اور اسی قسم کی بیشمار باتیں ایسی کہی جارہی ہوں اور ان میں ایک تسلسل بھی ہو تو قومی اسمبلی کی ایک بھاری بھرکم شخصیت سے یہ پوچھنا تو بنتا ہی بنتا ہے کہ آخر خان صاحب کی کس کس بات کا سیاق بھی خود تلاش کیا جائے اور سباق بھی خود ہی ڈھونڈا جائے۔

آج کل خان صاحب قبائلی علاقوں میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب فرمارہے ہیں۔ یہ بھی ایک مشن ہی لگ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب یورش زدہ علاقے ہیں اور کسی حد تک وہاں “خانیت” کی وبا پھیلتی جارہی ہے۔ اس جادو کا توڑ بہت ضروری ہے لیکن شاید خان صاحب کو یہ نہیں معلوم کہ “جن” چمک دکھانے سے نہیں بلکہ “عملیات” سے جاتا ہے۔ جن سے انھیں دکھ پہنچا ہے وہ سویلین نہیں۔ اس لئے محض سابق حکمرانوں کا رونا رونے سے کام نہیں چلے گا۔ وہاں کے حالات سدھارنے ہیں تو “عمل” کرنا پڑے گا لیکن بات بلی کے گلے میں گھنٹی کون لٹکائے گا والی ہے۔ خود خان صاحب کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سارے “سیاق و سباق” ان کے گرداگرد لپٹے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ سارے سیاق اور سارے سباق ان سے یا وہ خود ان سب سے اپنے آپ کو الگ نہیں کر لیں گے اس وقت تک قبائلی علاقوں کا جن ممکن ہی نہیں کہ وہ بوتل میں بند کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس لئے میرا خیال تو یہی ہے کہ ان کو ایک بڑا “یوٹرن” لینا ہی پڑے گا ویسے بھی بقول ان کے عقل مند لوگ یوٹرن لیتے ہیں اور بیوقوف لوگ اس لئے مارے جاتے ہیں اور مارے جاتے رہے ہیں کہ وہ یوٹرن کے قائل ہی نہیں تھے۔ اب دیکھیں خان صاحب فہم و فراست والوں میں شمار ہوتے ہیں یہ ماضی کے عقل کے اندھوں میں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں